گزشتہ دنوں لاہور کے مقام اچھرہ بازار میں ایک خاتون جس نے عربی حروف کا ایک لباس زیب تن کیا ہوا تھا، جس پر عربی میں لفظ حلوہ لکھا ہوا تھا جب بازار میں آئی تو لوگوں نے یہ سمجھا کہ اس خاتون نے جو لباس پہنا ہے، اس پر قرآنی آیات ہیں۔ اس سے پہلے کہ وہاں کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ رونما ہو جاتا، وہاں موقع پر پہنچنے والی اے ایس پی شہربانو نقوی نے حالات کو کنٹرول کرنے کے لئے جو دلائل دیئے اور لوگوں کو بہت قائل کیا کہ ایسی بات نہیں ہے جبکہ لباس پہننے والی خاتون ایک مسلمان ہے اور وہ توہین رسالت کی مرتکب نہیں ہو سکتی اور جہاں تک لباس پر لکھے لفظ حلوہ کا تعلق ہے تو عربی زبان میں اس کا مطلب خوبصورت اور میٹھے کے ہیں۔ اس واقعہ سے قبل ہمارے معاشرے کے اس طرح کے چند پہلو انتہائی افسوس ناک اور خطرناک حالات کی طرف لے جانے کی نشاندہی کرتے رہے ہیں اور یہاں تو دیکھا یہ بھی گیا ہے کہ جیسے ہی اس طرح کا ناخوشگوار کوئی واقعہ ہوا نہیں کہ لوگ ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر اس کو وائرل کر دیتے ہیں۔ جس سے عوام میں مزید بے چینی پھیلنے کے خدشات ہوتے ہیں گو ہمارے ہاں اسلامک قوانین بڑے واضح ہیں۔ اس کے باوجود ان واقعات کو نہیں روکا جا سکا۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس واقعہ کے بعد مقامی علماء نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ خاتون کی قمیض پر کوئی قرآنی آیت نہیں لکھی گئی۔ بلکہ عربی میں حلوہ لکھا ہوا ہے جس کے معنی خوبصورتی اور مٹھاس کے ہیں۔
جب میں یہ کالم لکھ رہا تھا تو مجھے ہمایوں سلیم بہت یاد آئے۔ ایک اسلامی ایڈیشن میں اسلامی خطاطی کے حوالہ جات تھے۔ میں نے جب ان کے ساتھ ایڈیشن ڈسکس کیا تو وہ بولے کہ آئندہ کبھی اسلامی خطامی کو ایڈیشن کی زینت نہ بنایا۔ دوسرا یہ کہ ہماری اخبار مارکیٹ جہاں اخبار فروخت ہوتا ہے وہ بھی کہتے ہیں کہ قرآنی آیات اخبار میں نہ دیا کریں کہ اخبار پاؤں تلے بھی آتا رہتا ہے۔ ہمایوں سلیم کا مؤقف بالکل درست تھا۔ اس سے قبل ہمارے ہاں ایک ایسا دور بھی تھا جب اخبارات کی پیشانیوں کے ساتھ قرآنی آیات بھی دیا کرتے تھے۔ بعد میں ان کو ختم کرکے اچھی روایت ڈالی گئی اور بحیثیت مسلمان ہمارے اوپر سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم قرآنی آیات کی جس قدر ہو سکے حفاظت کریں۔
گزشتہ روز مجھے باعث احترام ڈاکٹر جہاں آرا لطفی نے اس واقعہ کے بعد ایک مختصر بات بتائی جس میں انہوں نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ ایک بڑا واضح یہ پیغام دیا کہ اس بارے میں ہم سب کی ذمہ داریاں کیا ہیں۔ وہ کہتی ہیں:
”قرآن کریم اور احادیث مبارکہ سے بالکل مکمل طور پر مشابہت رکھتی خطاطی خواہ اس میں کچھ بھی لکھا ہو ہمیں احتراماً پہننے سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ یہ اور ایسے رسم الخط ایجاد ہی قرآن کی خطاطی کے طفیل ہوئے ہیں۔ عربی زبان میں لکھی گئی دیگر عبارات یا تحریرکا خط بالکل واضح طور پر مختلف ہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ خطاطی کا یہ انداز جان بوجھ کر فیشن ڈیزائینرز نے اپنایا ہو جو کہ نہیں ہونا چاہئے۔ میں تو یہ بھی جانتی ہوں کہ اردن میں مقیم ایک فیشن ڈیزائنر حنا صادق کے گاہکوں میں اردن کی ملکہ رانیہ سے لے کر سعودی شاہی خاندان کے افراد تک کے لباس میں عربی خطاطی اور نظموں کو تحریر کیا گیا۔ بعض عرب ممالک میں بھی اس کام کو پسند نہیں کیا گیا۔ زیادہ تر ممالک نے قرآنی آیات کی تشہیر پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور یہ پابندی ہر مسلمان پر ہونا ضروری ہے“۔
دیکھا جائے تو اس کے پیچھے چند گروہوں کے مذموم مقاصد ہونگے۔ ظاہر ہے یہ خطاطی کا فروغ تو ہے نہیں، البتہ کچھ ممالک میں ٹوپیوں اور دستاروں پر لکھوانا کافی مروجہ سلسلہ تھا بلکہ ایران اور دیگر کئی ممالک میں جنگوں پر جانے والوں کے کرتوں پر قرآن کی آیات لکھنا یا بنانا یا کڑھائی کے ذریعے تیار کرنا جنگ میں کامیابی کی ضمانت کے طور پر سمجھا جاتا تھا جو کہ قطعی درست نہیں تھا۔ ہمارے لئے قرآنی آیات مقدس مقام رکھتی ہیں۔ ان ممالک میں جہاں قرآن پاک کو پڑھا اور سنا جاتا ہے کہ یہ ایک تقدس کا مقام رکھتی ہیں۔
ڈاکٹر جہاں آرا لطفی کے خیالات کے بعد ہماری رائے یہ ہے کہ دنیا کے کسی بھی حصے میں جہاں مسلمان بستے ہوں وہاں لباس تو بہت دور کی بات، کسی بھی چیز پر قرآنی الفاظ کی تشہیر کرنا مناسب نہیں جس طرح ہم اقلیتوں اور ان کی مقدس کتابوں کا اپنے اوپر بڑا احترام کرتے ہیں، یہی رویہ غیر مسلم افراد کو بھی رکھنا چاہئے۔
اور آخری بات۔۔۔۔۔۔
آج اگر آپ اپنے ماحول کے اردگرد دیکھیں جہاں آپ کو اکثر ٹھیلوں، دوکانوں، دیواروں، بینروں، جھنڈوں، بعض اخبارات اور رسائل پر بڑے حروف میں قرآنی آیات لکھی نظر آئیں گی بعض تو کلمے اور احادیث بھی لکھتے ہیں۔ اس عمل کو روکنا بھی ہمارا فرض ہے۔ ہم نبی پاکؐ کو ماننے والے ہیں، ہمارا اللہ ایک، ہمارا قرآن ایک، ہمارے نبی پاکؐ ایک تو پھر ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم اس جاہلیت کا مظاہرہ نہ کریں۔ نبی پاکؐ کا فرمان ہے کہ۔۔۔۔۔۔
”اللہ وحدہُ لاشریک اور بے مثل ہے
ساری موجودات کا سرچشمہ، ایک
جل و علیٰ خالق جس کا کوئی ثانی نہیں“
بحیثیت مسلمان ہم کھلے دل کے ساتھ معاف کرنے والی امت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ہم کسی ایسے واقعہ کے متحمل نہیں ہو سکتے جس سے نفرت، لڑائی جھگڑے اور مذہبی توہین کے پہلو اجاگر ہوتے ہوں۔ ہمیں بحیثیت مسلمان اور بحیثیت پاکستانی یہ سوچنا ہوگا کہ بغیر تحقیقات کے کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے توہین مذہب اور توہین رسالت پر ہنگامہ خیزی کی بنیاد ڈالی جائے۔ گزشتہ دنوں آرمی چیف جنرل عاصم نے اے ایس پی کو ان کے شاندار کردار پر خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ ان کے بروقت اقدام سے ملک ایک بڑے واقعہ اور سانحہ سے بچ گیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ شکایات کا حل صرف قانون کے اندر ہے لہٰذا قانونی راستے اپنائے جائیں، قانون کو ہاتھ میں نہ لیا جائے۔ انہی باتوں کا اظہار وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بھی کیا۔ ہمارے نزدیک توہین مذہب کے نام پر محاذ نہ کھولے جائیں اور خدانخواستہ اگر کوئی اکا دکا واقعات ہو جاتے ہیں تو خوش اسلوبی کے ساتھ پہلے تحقیقات کر لیں۔ عربی زبان میں کچھ بھی سامنے آ سکتا ہے۔ اب اس کا یہ مطلب نہ لیا جائے کہ اگر عربی کا لفظ ہے تو یقینا یہ قرآن پاک سے لیا گیا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا۔۔۔۔۔۔آخر میں قوم کی بہادر بیٹی شہربانو نقوی کو سلیوٹ ہے۔
تبصرے بند ہیں.