”ستھراپنجاب ایک خواب“

138

پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ اگر اپنے صوبے کو صاف ستھرا دیکھنا چاہتی ہیں تو اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔ پنجاب ان کا گھر ہے۔ خواتین گھروں کو صاف ستھرا رکھنا اور سجا سنورا دیکھنا چاہتی ہیں۔ انہوں نے حکم جاری کیا ہے کہ ایک ماہ بعد پورے صوبے میں کہیں کچر انظر نہ آئے اوریہ پلان بھی طلب کیا ہے کہ صوبے بھر کی چھوٹی سڑکوں اور گلیوں کی تعمیر و مرمت کی جائے۔ صوبے بالخصوص صوبائی دارالحکومت سمیت بڑے شہروں میں صفائی کا جو نظام ان کے چچا شہباز شریف کی حکومت نے قائم کیا تھا وہ ایک زبردست بنیاد ہے۔ یہ بھی مریم نواز نے ہی کہا کہ لاہور میں سڑکیں ٹینکروں کے پانی سے دھلتی ہیں اور کراچی میں پینے کا پانی بھی ٹینکروں میں آتا ہے۔ بُزدار کے بدبُودار دور میں لاہور کو صاف ستھرا رکھنے والی ترک کمپنی البیراک کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا تھا۔ ان کا معاہدہ ختم ہونے کے بعد رات کے وقت لاہور میں موجود ترک آفیشئلز کے گھروں پر پولیس چڑھائی گئی تھی۔ انہیں اضافی کپڑے تک لینے کی اجازت دئیے بغیر سڑکوں پر کھڑا کر دیا گیا تھا۔ ان کے زیر استعمال گاڑیوں کی چابیاں تک چھین لی گئیں۔ ترک سفارتخانے نے ان کی مدد کی۔ وہ بہت ہی بے ہودہ اور شرمناک دور تھا۔

ایک سوال کروں، اگر آپ نے گلیاں اور سڑکیں سیوریج کے نظام کو درست کئے بغیر ہی پکی کروا دیں تو وہ کتنے دن چلیں گی؟ دوسرے، وہ گھر کیسے صاف، ستھرا ہوگا جس میں جھاڑو تو لگا دی گئی ہو مگر چیزیں بے ترتیبی کے ساتھ بکھری پڑی ہوں۔ تجاوزات اور پارکنگ نے ہر شہر اور ہر بازار کا حسن دھندلا کے رکھ دیا ہے۔ شاہ عالمی سے اچھرے تک جہاں بھی چلے جائیں، دکاندار اپنا کاروبار دکانوں کے باہر کر رہے ہیں۔ دکانوں کے باہر کے حصے ریڑھیوں اور سٹالوں والوں کو بھاری کرائے پر دئیے گئے ہیں جبکہ برآمدے اور راستے دکانداروں کی ملکیت ہرگز نہیں ہیں۔ میں ریڑھیوں اور سٹالوں کی مکمل مخالفت نہیں کر رہا کہ ان سے بھی ہزاروں، لاکھوں خاندانوں کا رزق وابستہ ہے مگر ان کے لگانے کا بہرحال کوئی نہ کوئی طریقہ اور ضابطہ ہونا چاہئے۔ جیسے کسی بازار میں اگر گنجائش ہو تو بلدیہ کے نوٹیفائی کرنے کے بعد وہاں سٹال لگ سکیں۔ ان کا کوئی مقرر کر دہ حجم ہو۔ ان کے لئے پانچ، سات فٹ جگہ مقرر ہو کہ اس سے آگے نہ آئیں۔یہ ضروری ہے کہ جہاں پارکنگ کی جگہ نہ ہو وہاں ریڑھی بازار لگانا، گاڑی کھڑی کرنا بھی جرم ہو۔

میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی حکومت کمیونٹی کو ساتھ لئے بغیر دیر پا اصلاحات نہیں کرسکتی۔ جیسے نگران وزیراعلیٰ نے بھی تجاوزات کے خلاف آپریشن کیا مگر دو ہفتے بعد ہی سب کچھ ختم ہو کے رہ گیا۔ا س سلسلے میں ایک تجویز تو لاہور کے سابق لارڈ مئیرکرنل ریٹائرڈ مبشر جاوید کی ہے کہ وزیراعلیٰ بلدیاتی انتخابات کروا دیں۔ میں بلدیاتی اداروں کو کسی بھی وزیراعلیٰ کی سیاسی طاقت اور سیاسی فوج سمجھتا ہوں۔ میری کرنل صاحب سے بات ہوئی تو انہوں نے مثال دی کہ لاہور کی 274 یونین کونسلیں تھی اور ہر یونین کونسل میں تیرہ، تیرہ منتخب بندے۔ جب صفائی ہوتی تھی تو یہ تیرہ بندے اپنے اپنے علاقوں کی صفائی کرواتے تھے جو اس وقت کام کرنے والے ساٹھ، ستر سیکرٹریوں کے بس کی بات نہیں، وہ تو ڈیتھ اور میرج سرٹیفکیٹ تک نہیں جاری کر پا رہے تھے۔ میں لاہور کی ڈپٹی کمشنر رافعہ حیدر کو ایک محنتی افسر کے طور پر جانتا ہوں اور میں نے ان کی وہ ویڈیو بھی دیکھی ہے جس میں وہ وزیراعلیٰ کے احکامات آنے کے بعد ایک فٹ پاتھ دھلوا رہی ہیں مگر کیا بیوروکریسی وہ سب کچھ کر سکتی ہے جو ایک پولیٹیکل ٹیم کرسکتی ہے، ہرگز نہیں۔ میرے پاس ایک متبادل تجویز بھی ہے کہ جب تک بلدیاتی انتخابات نہیں ہوتے تب تک ہر علاقے میں یوتھ اور ویلفیئر کونسلوں کی سرپرستی کی جائے اور انہیں سرکاری ضوابط کا تحفظ فراہم کیا جائے جو علاقوں کی صفائی اور خوبصورتی کے لئے کام کریں۔ ہمارے پاس ہزاروں مساجد بھی ہیں اور ہر مسجد کی ایک انتظامی کمیٹی بھی۔ اسے بھی سماجی بہتری کے مجوزہ ڈھانچے میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ بلدیاتی اداروں کی ورک فورس کو بیوروکریسی (اور منتخب نمائندے بھی) اپنے ذاتی ملازم سمجھ لیتے ہیں۔ جماعت اسلامی لاہور کے جنرل سیکرٹری خالد احمد بٹ بتا رہے تھے کہ وہ بلدیاتی نظام کا حصہ ہوتے ہوئے سختی کرتے تھے مگراس کے باوجود مجموعی طور پر تنخواہ لینے والے ساٹھ، ستر ملازم خاکروبوں میں سے بیس سے زیادہ کی حاضری ممکن نہیں بنا سکتے تھے، اسے کسی بائیومیٹرک سسٹم سے ہی جوڑنا پڑے گا۔

ایک اور بات اہم ہے کہ وزیراعلیٰ دو، چار یا چھ ماہ کے لئے نہیں پانچ برس کے لئے منتخب ہوئی ہیں، وہ عارضی کاموں پر مت جائیں۔ وہ کہہ رہی ہیں کہ ایک مہینے میں کچرا اٹھا دیا جائے تو انکی خواہش اپنی جگہ اہم مگر عملی طور پر یہ ایڈہاک ازم ہو گا۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کیا تمام شہروں میں لینڈ فِل سائٹس موجود ہیں۔ پھر مبشر جاوید کا حوالہ دوں گا کہ محمود بُوٹی کی لینڈ فل سائیٹ واحد سائیٹ ہے مگر وہاں دوہزار ٹن کوڑا ڈمپ کرنے کی صلاحیت تھی، چھ ہزار ٹن ہو رہا ہے۔ اس سائیٹ پر پانچ سے چھ گنا تک زائد بوجھ پڑ چکا اور اس کی کنکریٹ تک کریک ہوچکی۔ وہاں سے بائیو گیس اور بجلی پیدا کرنے کے منصوبے تھے مگر وہ بھی بیوروکریسی کی اٹکل پچو پالیسیوں کی نذر ہو گئے۔ اب اگر وزیراعلیٰ کے حکم پر قصبوں اور شہروں میں انتظامیہ ٹریکٹر ٹرک وغیرہ ہائر کرے گی تو اس میں اربوں روپے خرچ ہوں گے۔ ایک مرتبہ وزیراعلیٰ کو کام کر کے دکھا دیا جائے گا مگر پھر واپس گندگی کا راج ہو گا کیونکہ آپ کے پاس نہ کوئی مستقل نظام ہو گااور نہ ہی اس کی پولٹیکل وِل کے ساتھ مستقل مانیٹرنگ۔

لاہور سمیت تمام شہروں کو صاف ستھرا دیکھنا ہے تو پارکنگ کا نظام بنانا پڑے گا۔ جب میاں نعمان پارکنگ کمپنی کے سربراہ تھے تو وہ بتا تے تھے کہ اگر ہم پارکنگ کی سہولت دینے اوراس کی وصولی میں کامیاب ہوجائیں تو لاہور کے بلدیاتی خرچے صرف اسی کمائی سے پورے ہو سکتے ہیں۔ وزیراعلیٰ رپورٹ طلب کریں کہ کون سے علاقوں میں فوری طور پر پارکنگ پلازوں کی تعمیر ہوسکتی ہے اور کن جگہوں پر مکینیکل پارکنگ لفٹر لگ سکتے ہیں۔ ہر سڑک کے ساتھ پارکنگ کی سہولت دیں اور اس سے وصولی بھی کریں ورنہ اس پر مافیاز ہیں جنہوں نے سرکاری اراضی پر اسٹے آرڈر لے رکھے ہیں، وہ پہلی ترجیح میں خارج کروائے جائیں۔ وہ پتا کریں کہ لاہور کی ہول سیل مارکیٹوں کے لئے شیرانوالہ گیٹ کے باہر جو ہزاروں گاڑیاں روزانہ پارک ہوتی ہیں اور ہر گاڑی سے دو سو روپے لئے جاتے ہیں وہ کروڑوں کہاں جاتے ہیں۔ اگر وہ ان چند چیزوں کو کنٹرول کرنے میں کامیاب ہوگئیں تو ایک برس ڈیڑھ برس میں ہی صاف ستھرا پنجاب مل جائے گا۔ میں ان کی کامیابی کے لئے دُعا گو ہوں۔

تبصرے بند ہیں.