انتخابات: تحریک انصاف کا المیہ

56

انتخابات ہو گئے اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ارکان جنہیں آزاد امیدوار کے طور پر شمار کیا جا رہا ہے وہ معقول تعداد میں منتخب ہوئے ہیں۔ ان انتخابات میں یہ ”آزاد“ کا معاملہ بھی خوب رہا 8 سے دس فروری تک تو ان ”آزاد“ اراکین میں وہ آزاد بھی شامل تھے جو واقعی آزاد تھے اور ان کی تعداد کو بھی شمار کر کے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ کامیاب امیدواروں کی تعداد کو بیان کیا جا رہا تھا۔ لیکن دو دن سے یہ مخمصہ حل ہوا اور اصل آزاد امیدواروں کی تعداد کو الگ سے ٹی وی سکرین پر دکھایا جانے لگا۔ یہ سطور رقم کرنے تک کامیاب ہونے والے قومی اسمبلی کے 5 آزاد اراکین نے ن لیگ میں شمولیت کا اعلان کر دیا ہے جن میں سے ایک تحریک انصاف کے حمایت یافتہ تھے۔ اس حوالے سے یہ خبر بھی گردش کر رہی تھی کہ تحریک انصاف کے کرتا دھرتاؤں نے فی امیدوار تین تین کروڑ روپے ”فیس“ اس وعدے پر لی تھی کہ ہماری حکومت بس آنے ہی کو ہے۔ جو اب ظاہر ہے کہ ناممکنات میں سے ہے۔ اب ’’فیس‘‘ دے کر ٹکٹ حاصل کرنے والے اراکین کب تک آزاد رہتے اور کب اقتدار کی جماعت میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اس کا انتظار ہے۔

انتخابات سے قبل تحریک انصاف نے ایک واویلا مچا رکھا تھا کہ ہمیں انتخابی مہم نہیں چلانے دی جا رہی ہے اور امیدواروں پر اداروں کا شدید دباؤ ہے۔ لیکن اب جب کہ ایک معقول تعداد منتخب ہو چکی ہے اور خیبر پختونخوا میں تو تقریباً مکمل طور پر منتخب ہی تحریک انصاف کے حمایت یافتہ ہوئے ہیں تو تحریک انصاف کا یہ الزام کہ ہمیں انتخابی مہم نہیں چلانے دی جا رہی، بے اثر ہو چکا ہے۔ مگر تحریک انصاف نے دل بھی وہ بے مہر پایا یے کہ جو رونے کے بہانے مانگتا
ہے اور احمد فراز صاحب کا کیا خوب شعر ہے کہ
دل کسی حال میں قانع ہی نہیں جان فراز
مل گئے تم بھی تو کیا اور نہ جانے مانگے

یہ شعر تحریک انصاف پر خوب صادق آتا ہے۔ انتخابات کے بعد درفنطنی یہ چھوڑی ہے کہ تحریک انصاف 180 نشستوں پر کامیاب ہوئی ہے جس کے مکمل دستاویزی ثبوت اور شواہد تحریک انصاف کے پاس موجود ہیں۔ تحریک انصاف کا جو ریکارڈ رہا ہے اس سے تو لگتا یہی ہے کہ یہ 180 نشستوں والا معاملہ بھی وہ 35 پنکچروں والا ہے جس کی بنیاد پر تحریک انصاف نے 2013 کے انتخابات میں دھاندلی کا واویلا مچایا اور بعد میں جب ثبوت مانگے گئے تو اسے ایک سیاسی بیان کہہ کر معاملے پر مٹی ڈال دی۔ اب یہ 180 نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ کیا گل کھلاتا ہے اس کا بھی انتظار ہے۔ ابھی تک تحریک انصاف نے جن نشستوں کے نتائج کو چیلنج کیا ہے وہ چار پانچ نشستیں ہیں۔ جس کے معنی تو یہ ہوئے کہ باقی نشستوں پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اگر کوئی اعتراض نہیں ہے تو پھر 180 نشستوں پر کامیابی کا دعویٰ؟ جواب کا منتظر ہے۔ جن نشستوں کو چیلنج کیا گیا ہے اس میں بھی نفسیاتی حربہ یہ استعمال کیا گیا ہے کہ معروف سیاست دانوں کی جیت کو چیلنج کیا گیا ہے کہ منجن کی مشہوری چلتی رہے۔

تحریک انصاف اپنے قیام کے وقت ملک میں کرپشن کے خاتمے اور سماجی و معاشی انصاف کے قیام کا نظریہ لے کر قائم ہوئی۔ اس وقت اس کی نمائندگی وہ شخصایت کر رہی تھیں جو خالصتاً نظریاتی تھے۔ لیکن جب تحریک انصاف کو اقتدار ملا تو اس کی نمائندگی فواد چوہدری، فردوس عاشق اعوان، جہانگیر ترین، شیخ رشید اور سبب سے بڑھ کر عثمان بزدار جن کی آج تک شناخت ہی نہ ہو سکی کہ وہ عثمان بزدار ہیں؟ وسیم اکرم پلس ہیں؟ یا شیر شاہ سوری ثانی؟ تحریک انصاف اپنی حکومت کے دوران ایک مستقل وزیر خزانہ نہ رکھ سکی۔

ظاہر ہے نتیجہ وہ ہی ہونا تھا کہ ملک کی معیشت برباد اور سفارتی تعلقات خراب۔

حالیہ انتخاب تحریک انصاف نے کسی منشور کی بجائے صرف اور صرف مظلومیت کی بنیاد پر لڑا ہے۔

اب 2024 کے انتخابی نتائج کے بعد اگر تحریک انصاف کسی جماعت کے ساتھ مل کر حکومت بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو حکومت کن لوگوں کے ہاتھ میں ہو گی اور ملک کا معاشی اور سفارتی نقشہ کیا ہو گا؟ خدا کرے کہ یہ معاملہ نہ ہو کہ عوام کی حالت غالب کے اس مصرع کی سی ہو کہ
تو مشق ناز کر خون دو عالم میری گردن پر

تبصرے بند ہیں.