دھڑکتے تیز دلوں کے ساتھ جوں جوں 8 فروری کا دن نزدیک آ رہا ہے اور قومی انتخابات ہونے جا رہے ہیں اور جس رفتار سے صبح سے رات گئے تک جلسے، جلوس اور ریلیاں نکالی جا رہی ہیں، انتخابات میں حصہ لینے والی تمام سیاسی جماعتیں اور آزاد نمائندوں کی طرف سے ووٹرز سے ووٹ خریدنے کیلئے دولت کی بند بوریوں کے منہ کھل چکے ہیں اور صبح سے رات گئے پرنٹ، الیکٹرانک، سوشل میڈیا، فیس بیک اور ٹویٹر سے لے کر جہاں جہاں سے انتخابی مہم چلائی جا رہی ہے اور ہر محاذ پر جس گرما گرمی کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے، اللہ کرے کہ انتخابات صاف، شفاف اور پرامن ہو جائیں اور اللہ کرے کہ ان قومی انتخابات کے بعد نئی آنے والی حکومت پاکستان کی معاشی، سیاسی، معاشرتی زندگی کو بہتر کرنے میں کامیاب اور عوام کو بحرانوں سے نجات دلا سکے بہرحال ابھی تک تو یہ خواب لگتا ہے کہ ایسا ہو جائے کیونکہ ہم 76 سالوں سے خوابوں ہی سے بہلائے جا رہے ہیں۔ ایک چیز جو ہر انتخابات میں دیکھی جاتی ہے وہ ووٹرز سے وعدے، دعوے اور انتخابات کے موقع پر منشور میں عوام کو ہربار بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ چند دنوں کے بعد ہونے والے انتخابات میں پھر سے ”لارے لپے“ لگائے جا رہے ہیں، پھر سے غریب کی بھوک مٹانے کی باتیں ہو رہی ہیں، پھر سے مہنگائی کم کرنے کے دعوے اور پھر سے نوکریوں کا خواب دکھایا جا رہا ہے، پھر سے نئے گھر دینے کے دعوے سامنے آ رہے ہیں، دکھ تو اس بات کا ہے ہماری 76 سالہ تاریخ میں اب تک جتنے بھی انتخابات ہوئے، ان میں صرف عوام کو اندھیرے میں رکھا گیا۔ گلی، گلی ووٹ مانگنے والے عوام ہی کے ووٹوں سے جیت کر جب اسمبلیوں میں جاتے ہیں تو پھر منشور اور عوام سے کئے گئے وعدے اور لارے لپے بھول جاتے ہیں اور اسمبلیوں میں بیٹھ کر انہی ووٹرز ہی کے خلاف قانون پاس ہوتے ہیں۔ جو ان کو ایم این اے اور ایم پی اے منتخب کرتے ہیں۔
گزشتہ دنوں یوں تو تمام جماعتوں نے اپنے اپنے انتخابی منشور کا اعلان کر دیا ہے، ہمیں دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے منشور کے سلوگن بڑے دلچسپ لگے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے منشور کا عنوان ہے ”چنو نئی سوچ کو“ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کا منشور ہے ”قوم کو نواز دو“۔ ہمارے نزدیک جہاں تک نئی سوچ اور اُمید کا تعلق ہے تو ان سیاستدانوں نے کب عوام کو کبھی سوچنے اور نوازنے کی سوچنے کا موقع دیا ہے۔ کب ہمارے پیارے سیاستدانوں نے سوچ اور نوازنے کی اُمید کے چراغ جلائے، نہیں جلائے اور ووٹرز کی سوچ ہے کیا؟ وہ تو یہ سوچتا ہے کہ اس کو گھر بھی ملے کیونکہ یہ اس کا بنیادی حق ہے، اس کو عزت کے ساتھ روزگار ملے، جو کبھی نہیں ملا۔ غریب ووٹر تو یہ بھی سوچتا ہے کہ اس کی زندگی کو آسان بنایا جائے، جو سیاست دانوں نے مشکل بنا دی۔ غریب تو یہ بھی سوچتا ہے کہ اس کے بچوں کو مفت اور اچھی تعلیم دی جائے، جو نہیں دی گئی اور غریب تو یہ بھی سوچتا ہے کہ کاش اس کے ووٹ کا حق ادا کیا جائے، جو نہیں دیا گیا۔ اگر میں صرف پچھلی دو حکومتوں بانی تحریک انصاف کے ساڑھے تین سال اور پی ڈی ایم کے ڈیڑھ سال کے کردار اور سوچ کا ذکر کروں تو پھر کہانی آپ کے سامنے ہے۔ پانچ سالہ دور کی تباہی آپ کے سامنے ہے، غریب تو اب موت سے بھی ڈرتا ہے، کہ اب تو شہر میں قبر کا ریٹ اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ لوگ تو اب یہ دعا کرتے ہیں کہ کاش ابھی موت نہ آئے کہ دفنانے کیلئے پیسے بھی نہیں ہیں۔ یہ سوچ کس نے دی ہے؟ وعدے، دعوے جو ہر انتخاب کے موقع پر صرف انتخابات کی حد تک ہوتے ہیں۔ عوام تو ہمیشہ سوچتی رہتی ہے کہ بنے گا کیا اور اس کی سوچ کو کاش کے دائرے سے کبھی باہر نہیں نکلنے دیا گیا۔
سوچ کے اس کلچر کو نوازنے والے کاش یہ بھی سوچیں کہ قوم کو کب اور کس طرح غربت سے نکال کر اچھی زندگی کی طرف لانا ہے۔ رہی عوام کی بات تو وہ یہ سوچتی ہے کہ کیا اس کو سستا آٹا اور سستا پٹرول ملے گا؟ وہ تو یہ بھی سوچ رہا ہے کہ اس کو کب نوکری سے نوازا اور کب اس کو مرتی زندگی سے زندہ زندگی کی طرف لایا جائے گا۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ سوچ پیدا کرنے اور نوازنے والے جب اسمبلیوں میں چلے جاتے ہیں تو پھر وہ صرف اپنے مفادات کی سوچ کو نوازتے ہیں، اپنوں کو نوازتے ہیں۔ ہماری عوام تو یہ بھی سوچتی ہے کہ کیا نئی حکومت آئی ایم ایف سے چھٹکارا حاصل کر لے گی؟ کیا مہنگائی کا طوفان تھم جائے گا؟ اور جس سوچ کو نوازنے کے دعوے کئے جا رہے ہیں کیا آنے والی کوئی بھی حکومت اپنے منشور پر قائم رہ سکے گی؟ جس کے بارے میں ووٹرز کو گھیرا جاتا ہے، جس منشور کے بارے میں عوام کی قسمت کو بدلنے کے دعوے کئے جاتے ہیں، کاش جیتنے والی جماعتیں صرف اپنے منشور پر ہی عمل کر لیں تو پھر پاکستان کی سوچ اور پاکستان کو نوازنے کی باتیں اگر سچ ثابت ہو جائیں۔
اور آخری بات…
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دونوں پارٹیوں کے منشور جن کے سلوگن گو بڑی اہمیت رکھتے ہیں اور دونوں میں سے جو بھی جیتے گا کیا وہ پاکستان کو سیاسی کشمکش کے طویل سفر سے نکال پائے گا۔ میں تو اس فکر کی بات کر رہا ہوں جس کا تعلق پاکستان اور اس کے مظلوم و محکوم عوام کے ساتھ ہے کہ کیا ملک میں سیاسی استحکام کی تصویر کو دیکھ سکے گی؟ کیا مایوسی، غربت و افلاس کے اندھیر وں سے ہم نکل پائیں گے اور پانچ سالوں سے ہمارے سروں پر منڈلاتے خوف کے سائے چھٹ سکیں گے… یہی وہ سوچ ہے جو ہر کوئی سوچ رہا ہے اور اس سوچ اور فکر کو ختم کرنے کا ایک ہی حل ہے کہ 8 فروری کو عوامی طاقت سے جو بھی حکومت منتخب ہو وہ کم از کم عوام کا سوچے اور عوام کو بحرانوں سے نجات دلائے۔
تبصرے بند ہیں.