نہیں نہیں، میں یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کے ساتھی جج میرے صحافی دوستوں کو سزائیں دیں، غیر ذمہ دارانہ ٹوئیٹ کرنے پر ان کی تذلیل کریں ۔ میں تو یہ چاہتا تھا کہ سوشل میڈیا جس طرح ڈس انفارمیشن کا فلتھ ڈپو بن گیا ہے اور گالم گلوچ بریگیڈ کی جنت، اس کے لئے کچھ سوچیں، کچھ کریں۔ میں چاہتا تھا کہ صحافی اور یوٹیوبر کے درمیان فرق واضح ہوجائے۔ تنقید اور تذلیل، خبر اور الزام، دلیل اور گالی کو الگ الگ کر دیا جائے۔ مجھے اچھا لگا کہ چیف جسٹس نے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا اور اپنے بارے کہے تمام بے ہودہ الفاظ پر عام معافی دے دی مگر مجھے بُرا لگا کہ جسٹس مسرت ہلالی کی باقاعدہ نشاندہی کے باوجود کوئی ضابطہ اخلاق نہ بن سکا، کوئی حدود و قیود طے نہ ہوسکیں۔ ہم آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں اس کیس کی سماعت سے پہلے کھڑے تھے یا شائد اس سے بھی کچھ پیچھے کہ کچھ لوگوں کے حوصلے مزید بلند ہوگئے۔ اس ملک میں صرف سیاسی اختلاف رائے پر ماں، بہن کی غلیظ گالیاں دینے والوں کوسزا دینا یا کم از کم درست کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
ہمیں سب سے پہلے صحافی کی تعریف کو واضح کرنا ہو گاکہ یہ کون ہوتے ہیں اور کیا ہر وہ شخص جس کے ہاتھ میں مائیک اورسامنے کیمرہ ہو اسے صحافی کہا جا سکتا ہے۔ ابھی چند روز پہلے پنجاب یونیورسٹی میں یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی کے تعاون سے ’نیریٹیو بلڈنگ‘ پر ایک ڈسکشن تھی۔ مجھے افسوس ہوا کہ ہمارے عشروں سے استاد سمجھے جانے اور عشروں سے پروفیشنل جرنلزم کرنے والے پروپیگنڈوں کے اسرار و رموز کو سمجھنے کی بجائے خود ان کا شکار ہو چکے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا کو پرنٹ اور الیکٹرک میڈیا پر حاوی قرار دے رہے تھے۔ اس کے تعریفوں کے پُل باندھ رہے تھے جبکہ میرا مؤقف تھا کہ ہماری اکیڈیمیا اور انڈسٹری کو آگے بڑھ کے جرنلزم اورسوشل میڈیا کوالگ الگ کرنا ہوگا اور اس سلسلے میں ہم سب پر بھاری ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں۔ ہمیں اپنے تصورات کو درست کرنا ہوگا اور سب سے پہلے یہ کہ تمام تر تنقید اور پروپیگنڈے کے باوجود یہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا ہی ہے جہاں لفظ کی حرمت اور خبر کی درستگی کی کوئی نہ کوئی اہمیت ہے۔ طاقتور ہے یا کمزور، یہاں پر ایڈیٹر کا ادارہ کسی نہ کسی حد تک اب بھی موجود ہے۔ جب کوئی خبر آتی ہے تو کوئی نہ کوئی سینئر اور کوئی نہ کوئی پروفیشنل اس کے الفاظ کو بھی دیکھتا ہے، اس کے مواد اور سیاق و سباق کو بھی۔ مین سٹریم میڈیا ہی ہے جہاں خبر کے ثبوت کی بات ہوتی ہے جبکہ سوشل میڈیا پر جودل چاہے کہہ دو۔ میں پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اب بھی وہی خبر ہوتی ہے جو الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر آجائے، اس سے پہلے وہ صرف افواہ اور پروپیگنڈہ ہوتی ہے۔
مجھے اس وقت افسوس ہوا جب ہمارے ایک صحافی دوست نے کہا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر بے حد پابندیاں ہیں جبکہ سوشل میڈیا آزاد ہے،آہ، ہمارا آج تک آزادی بارے تصور ہی واضح نہیں ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ جتنی بڑی آزادی ہوتی ہے وہ اپنے ساتھ اتنی ہی بڑی ذمے داری بھی لاتی ہے۔ مادر پدر آزادی کا تصور جنگل میں ہی ہوسکتا ہے کسی مہذب اور آئینی ریاست میں آپ اس بارے سوچ بھی نہیں سکتے۔ میں نے کہا، مجھے ہاتھ ہلانے کی آزادی ہے مگر اس حد تک کہ آپ کی ناک سے نہ جا ٹکرائے۔ اگر کوئی یہ کہے کہ اسے مری جانے کی آزادی ہے مگر ملکہ کوہسار کی سڑک کے کنارے لگے ہوئے بیرئیر اس کی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہیں تو اس سے کوئی گدھا ہی اتفاق کرسکتا ہے کیونکہ یہی بیرئیر اس کے مری تک بحفاظت پہنچنے کی ایک ضمانت ہیں۔ اگر خطرناک راستوں کے کناروں پر بیرئیر نہ ہوں تو لوگ گڑھوں میں گر کے مرتے جائیں مگر منزل تک نہ پہنچ سکیں۔ میں اپنے صحافی بھائیوں سے پوچھتا ہوں کہ ہمیں الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر کیا کہنے کی آزادی نہیں،کون سی بات ہے جو نہیں کہی جا رہی، ہاں، بس گالی نہیں دی جاتی او ر خبر کا ثبوت مانگا جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پراس مادر پدر آزادی کا تصور عمران خانی ٹولے نے پیش کیا ۔ اس آزادی نے ہم سے رشتوں کا تقدس اور بزرگوں کا احترام تک چھین لیا ہے۔ مجھے برسوں پرانی ایک میڈیا کانفرنس میں کہی ہوئی بات یاد آ گئی کہ ہم اپنی معمول کی زندگی میں جن قوانین کا اطلاق کرتے ہیں ان سب کا سوشل میڈیا پر انٹریکشن کرتے ہوئے کیوںنہیں کرسکتے یعنی جو بندہ سوشل میڈیا پر گالی دے تو وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے اصل زندگی میں گالی دی، حملہ کیا، ہتک عزت کی۔ اس وقت ہمارا سوشل میڈیا جعلی یعنی فیک اکاونٹس سے بھرا پڑاہے۔ فیس بک اور ٹوئیٹر نے پیسے کمانے کے لئے یہ ظلم کیا ہے کہ انہیں سال کے پینتیس چالیس ہزار روپے دے دو اور چاہے کسی بھی الٹے سیدھے نام سے اکاونٹ کے سامنے بلیو ٹک لے لو، اسے ویریفائی کروا لو۔
مجھے علم ہے کہ چیف جسٹس نے بہت کچھ برداشت کیا ہے اور اس وقت بھی جب ایک گروہ پورے کا پورا ان پر اور ان کی فیملی پر حملہ آور تھا اور میرا خیال تھا کہ چیف جسٹس متعلقہ اداروں کو حکم دیں گے کہ وہ اس سلسلے میں قواعد وضوابط بنائیں۔ مجھے امید تھی کہ کم از کم گالیاں دینے والے اور الزام لگانے والے شرمندگی کا اظہار ضرور کریں گے مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ میری خواہش تھی کہ سوشل میڈیا کے حوالے سے فوری سماعت کی ایسی عدالتیں بنتیں جن میں گالی دینے اور الزام لگانے والوں بارے ہفتے، دو ہفتے میں فیصلہ ہو جاتا۔ میں چاہتا تھا کہ کوئی قانون اور ضابطہ بنتا جس میں شناخت کے بغیر کسی بھی سوشل میڈیا اکاؤنٹ کا وجود ہی جرم قرار پاتا۔ شناخت کے بغیر اکاونٹ اسی طرح ہے جیسے کوئی غیر رجسٹرڈ گاڑی، جو ڈاکے میںبھی استعمال ہوسکتی ہے اور بم دھماکے میں بھی۔ مجھے بصد احترام کہنے دیجئے کہ میری تسلی محض آبزرویشنز سے نہیں ہوئی جن میں چیف جسٹس نے کہا کہ صحافی اگر عدالتی فیصلوں پرتنقید کرتے ہیں کریں مگر تشدد پر ابھارنے اور انتشار پھیلانے کا معاملہ الگ ہے (اور اگر کوئی صحافی کسی کی تذلیل کرے، گالی دے، الزام لگائے تو کیا وہ مقدس گائے ہے)۔ انہوں نے کہا کہ مجھے گالی گلوچ سے فرق نہیں پڑتا لیکن حدود ہونی چاہئیں۔ جسٹس محمدعلی مظہر نے کہا کہ تھمب نیل پر جو کچھ ہوتا ہے وہ اندر نہیں ہوتا، یہ عجیب ہے۔ جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ سوشل میڈیا نے اداروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے،اگر آرٹیکل انیس کا خیال ہے تو کچھ خیال آرٹیکل چودہ کا بھی کر لیں۔ اب آپ پوچھیں گے کہ اعلیٰ ظرفی کے ساتھ اتنی اچھی سماعت کے بعد مجھے اپنی سپریم کورٹ سے شکوہ کیا ہے تو بصد احترام وہ یہ ہے کہ اچھی باتیں تو میرے جیسا کم مایہ اوربے اختیار بندہ بھی بہت کر لیتا ہے۔ اچھی باتیں تو دیواروں پر بھی لکھی مل جاتی ہیں مگرمسئلہ اچھے کاموں کا ہے، حکموں کا ہے، قانونوں کا ہے،وہ کون دے گا؟
تبصرے بند ہیں.