”ملازمتی وزیراعظم“ کی برہمی

41

کہتے ہیں اقتدار کا نشہ شراب، چرس، افیون اور ہیروئین سے زیادہ مدہوش کردینے والا ہوتا ہے شاہد خاقان عباسی نے لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا
”جس طرح نواز شریف اقتدار میں آنے کیلئے کررہے ہیں ۔مجھے اس سے اختلاف ہے، نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے بغیر 100کی بجائے 30سیٹوں پر آجائیں لیکن مورال ڈاؤن نہ کریں پاکستان میں کرسی کی کوئی طاقت نہیں ہوتی میں وزیراعظم نہیں بلکہ مجھے ملازمت دی گئی تھی پی ٹی آئی چوری اور مسلم لیگ (ن) ڈکیتی کرکے اقتدار میں رہی“۔

کیا تعجب نہ ہونا چاہئے کہ وزیراعظم مقرر ہونے کے بعد مدت پوری ہونے کے آخری لمحے تک کسی پل یہ احساس نہیں ہوا کہ یہ وزارت عظمیٰ نہیں بلکہ ”ملازمت عظمیٰ“ ہے کیونکہ اس میں وہ وزارت عظمیٰ کے پروٹوکول سے پوری طرح لطف اندوز ہوئے، کمال ہے اس دوران انہیں کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ نواز شریف نے انہیں وزارت عظمیٰ کے نام پر ”ملازمت“ دی ہے اور اس ملازمت پر کیونکہ وزارت عظمیٰ کی چھاپ لگی ہوئی تھی اس لیے کچھ نہ کچھ اقتدار کے نشے میں ملاوٹ تھی تب ہی تو اس دوران انہوں نے کئی بار کہا میرے ”قائد نوازشریف ہی ہیں“ حالانکہ ملازمت دینے والا قائد نہیں، مالک ہوتا ہے، لیکن یہ حقیقت انہیں تب سمجھ آئی جب ”ملازمتی اقتدار“ کا نشہ ہرن ہوا تو انہیں سمجھ آئی کہ پی ٹی آئی کا اقتدار تو چوری تھا (ن) لیگ تو ڈکیتی کرکے اقتدار میں رہی اس ”ڈکیتی اقتدار“ میں وہ وفاقی وزیر رہے اور ”ملازم وزیر اعظم“ بھی رہے تب انہیں احساس نہیں ہوا کہ وہ ”اقتدار کے ڈاکوؤں“ کے گروہ میں اہم مقام رکھتے ہیں لیکن ظاہر ہے اقتدار کا نشہ حواس پر چھا جائے تو انسان اقتدار کی لذت میں مگن رہتا ہے اب یہ نشہ اترا ہے تو حواس بحال ہوئے اور انہیں یہ سب یاد آگیا، ارے بھائی، آپ ایسے ہی صاحب کردار ہو تو یہ ”ملازمتی وزارت عظمیٰ“ نواز شریف کے منہ پرمارتے بلکہ جس لمحے نوازشریف بذریعہ ڈکیتی اقتدار میں آئے آپ اسی لمحے نوازشریف سے ترک تعلق کا اعلان کردیتے تاکہ آپ کو ”ڈاکوؤں کے گروہ“ کا رکن نہ سمجھا جاتا۔ شاہد خاقان عباسی جتنی چاہیں نوازشریف کی مخالفت کریں یہ ان کا جمہوری اور آئینی حق ہے۔ مگر مجھے یہ بات عجیب لگی ہے کہ نوازشریف نے پہلے انہیں پارٹی ٹکٹ دے کر ان کے حق میں مہم چلا کر قومی اسمبلی کے ایوان میں پہنچایا پھر وفاقی وزیر بنایا اور اپنی جگہ باقی مدت کیلئے کس کو وزیر اعظم بنانا پڑا تو اپنی پارٹی کے تمام اہم رہنمائوں پر انہیں ترجیح دی۔ یہ اگر احسان نہیں تو نوازش ضرور ہے۔ نجیب انسان کسی کے احسان اور نوازش کو کبھی فراموش نہیں کرتا، چودھری پرویز الٰہی نے لاہور کے صحافیوں کو چھت مہیا کی، کئی مواقع ہونے کے باوجود صحافیوں نے ان کے اس احسان کو مدنظر رکھا اور ان کی سیاسی ”فرد گزاشتوں“ کو ہدف تنقید بنانے سے گریز کیا، سابق گورنر میاں اظہر نے میری بیٹی کی شادی میں شرکت کی اس عزت افزائی کی وجہ سے ان کے یا ان کے بیٹے حماد اظہر کے خلاف میرا قلم اٹھتا ہی نہیں جبکہ بالخصوص حماد اظہر کے حوالے سے خامہ فرسائی کیلئے کئی حوالے موجود ہیں۔ یہ خودستائی نہیں بلکہ حضرت علی کرم اللہ وجہ سے منسوب اس قول سے بچنے کی شعوری کوشش ہے کہ ”جس پر احسان کرو اس کے شرسے بچو“، بہتر ہوتا شاہد خاقان عباسی اس قول سے بچنے کی کوشش کرتے۔ ان کے ایسے بیانات کی بازگشت ابھی فضا میں ہے کہ نواز شریف میرے لیڈر ہیں جب بلایا چلا جاؤں گا۔ فرض کیا چند روز قبل اگر نواز شریف بلا لیتے تو پھر وہ ان کے خلاف بغض سے لبریز بیانات دے سکتے تھے یا یہ نہ بلائے جانے کا غصہ ہے مفتاح اسماعیل کی ناراضگی کچھ سمجھ میں آتی ہے کہ ان کے بقول انہیں نہایت نامناسب طریقے سے وزیر خزانہ کے عہدے سے ہٹایا گیا تھا۔ اگر انہیں بھی شاید خاقان عباسی کی طرح پوری مدت تک برقرار رکھا جاتا تو ممکن ہے ان کا رویہ بھی شاہد خاقان عباسی جیسا ہی ہوتا لیکن (ن) لیگ کو یہ فائدہ ضرور ہوتا کہ اسحاق ڈار کا بھرم قائم رہتا جو آئی ایم ایف کے معاندانہ رویہ کی وجہ سے منفی تاثر کا شکار ہوا ہے۔ بہرحال (ن) لیگ کی قیادت سیاست کی باریکیوں اور تقاضوں کو مجھ سے زیادہ بہتر طور پر سمجھتی ہے شاہد خاقان عباسی سے (ن) لیگ سے علیحدگی کا غیر رسمی اعلان کرتے ہوئے نئی پارٹی بنانے کا ارادہ ظاہر کر دیا ہے ساتھ ہی (ن) لیگ کے امیدوار کو سپورٹ نہ کرنے کا اعلان اس بنیاد پر کیا ہے کہ ان کے دیئے گئے ناموں کو ٹکٹ نہیں دیا گیا اور واضح کیا کہ دوستوں کے اصرار کے باوجود انہوں نے خود ٹکٹ کے لیے درخواست نہیں دی شاید وہ یہ گمان رکھتے ہیں کہ ”ملازمتی وزیر اعظم“ کے عہدہ پر فائز رہنے کے بعد اب ان کا ”مرتبہ ومقام“ اس اوج ثریا پر ہے کہ ٹکٹ خود ان کی خدمت میں پیش کیا جائے۔ حالانکہ سیاسی جماعتوں میں معمول کی کارروائی ہے۔ یوسف رضا گیلانی نے ”غیر ملازمتی وزیراعظم“ کے باوجود بھی باقاعدہ ٹکٹ کیلئے درخواست دی اور غیر ملازمتی صدر آصف زرداری نے بھی یہ تقاضا پورا کیا۔ حتیٰ کہ ”غیر ملازمتی وزیراعظم“ نوازشریف ”غیر ملازمتی وزیراعظم“ شہباز شریف اور خود ٹکٹوں کا فیصلہ کرنے والی مریم نوازشریف نے بھی اس معمول کے جماعتی طریقہ کارکو اختیار کیا ہے۔

شاہد خاقان عباسی ، مفتاح اسماعیل اور مصطفیٰ نواز کھوکھر ایک عرصہ سے نئی پارٹی بنانے کے اعلانات کررہے ہیں، گستاخی معاف، ان تینوں میں سے کوئی ایک بھی قومی سطح کا لیڈر ہے نہ انہیں عوامی حمایت حاصل ہے مخلصانہ مشورہ ہے نئی پارٹیاں بنانے والوں کے حالات کا جائزہ لے کر ایسا فیصلہ کریں۔ وکلاء تحریک پر نظر ڈالیں جنرل مشرف کی مخالفت میں تمام سیاسی پارٹیوں اور لوگوں کی بڑی تعداد نے اس تحریک کو بانکپن عطا کیا تھا جسٹس افتخار چوہدری نے اسے اپنی مقبولیت کا کرشمہ جانا اور جسٹس پارٹی بنالی اس پارٹی کا یہ حال ہے کہ ”منتخب نمائندہ“ کے نام پر اس کا کوئی کونسلر بھی نہیں ہے۔

اعجاز الحق نے پیپلزپارٹی کی مخالفت اور تب پنجاب کے وزیراعلیٰ کی حیثیت سے بڑی تعدادمیں بسیں فراہم کرکے لوگوں کی بڑی تعداد کو جنرل ضیا الحق کے جنازے میں جانے کی سہولت مہیا کررکے ایک بڑا مجمع اکٹھا کردیا تھا اعجاز الحق  نے اسے والد محترم کی عوامی مقبولیت سمجھا اور مسلم لیگ (ضیائ) کے نام سے پارٹی بنالی، اور وہ جنوبی پنجاب کے علاقے سے جہاں آرائیوں کی اکثریت بتائی جاتی ہے منتخب ہوگیا۔ اس مرتبہ ان کا نام امیدواروں کی فہرست میں نظر نہیں آیا۔

شیخ رشید نے غوری مسلم لیگ بنائی راولپنڈی سے آرٹی ایس بیٹھے کے صدقے میں منتخب ہو گئے، دوسرا کوئی اس پارٹی کا نام لیوا نہیں ہے اس لیے دوسرا مخلصانہ مشورہ ہے نئی پارٹی بنانے کی کھکھیڑ میں پڑنے کی بجائے مصطفیٰ نواز کھوکھر تحریک انصاف میں کیونکہ پیپلز پارٹی میں نہیں جاسکتے جبکہ شاہد خاقان عباسی تحریک انصاف، پیپلزپارٹی جماعت اسلامی کسی بھی پارٹی میں شامل ہو جائیں مفتاح اسماعیل کو ایم کیوایم کی جانب سے آفر ہے وہ اس میں سدھار جائیں یہ مشورہ پورے اخلاص پر مبنی ہے باقی ان کی مرضی ہے۔ ویسے نئی پارٹی کا توسوال ہی پیدا نہیں ہوتا وہ جن پارٹیوں میں شامل ہوں گے وہ اگر اقتدار میں آبھی گئے تو ”ملازمتی وزارت عظمی“ کی مالا ان کے گلے کی زینت بننا ناممکن کی حد تک مشکل ہے اور اب اگر مشورے کی پٹاری کھل گئی ہے تو آخری مشورہ ہے وہ دونوں (ن) لیگ کے چار پانچ سینئر رہنماؤں سے معاملہ کریں وہ انہیں منا کر باعزت طریقے سے واپس لے آئیں۔ گائے کی دم پکڑ کر گھر واپسی کا باعزت طریقہ یا راستہ قدیم دورسے معروف ہے جو ہر دور کیلئے نسخہ کیمیا ہے۔ آزمائش شرط ہے۔

تبصرے بند ہیں.