حسینہ واجد کی یک جماعتی آمریت

33

اگر کسی سے یہ سوال کیا جائے کہ کیا بنگلہ دیش میں انتخابات آزادانہ اور منصفانہ ہوئے ہیں نیز جمہوری قدریں مستحکم ہے ؟ تو کوئی بھی اِس سوال کا ہاں میں جواب نہیں دے گا البتہ سبھی اتفاق کریں گے کہ یہاں اپوزیشن جماعتوں کے رہنمائوں اور کارکنوں پر اِس حدتک عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا ہے کہ وہ انتخابی عمل کا حصہ بننے کی سکت کھو چکے ہیں کیونکہ آمرانہ سوچ کی حامل حسینہ واجد ایسا کوئی عمل برداشت ہی نہیں کر تیں تمام تر حکومتی سختیوں کے باوجود بھی اگر کوئی اپوزیشن رہنما ثابت قدم رہتا اور مقابلے پر آنے کی کوشش کرتا ہے تو اُسے مقدمات اور گرفتاریوں میں الجھا دیا جاتا ہے جن سے تنگ آ کر وہ مقابلے سے باہر ہونے میں عافیت جانتا ہے بنگلہ دیش کے حالیہ انتخابی عمل کے نتائج ایسے ہی حربوں کا شاخسانہ اور شیخ حسینہ واجد جیسی متشدد اور غیر مقبول شخصیت دوتہائی اکثریت لیکر پانچویں بار وزیرِ اعظم کا منصب سنبھالنے کی تیاریوں میں ہے وگرنہ گزشتہ کئی برس سے ملک میں موجود عوامی نفرت کومدِ نظر رکھتے ہوئے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اگر جمہوری اقدار کمزور نہ ہوتیں اور انتخابی عمل آزادانہ اور منصفانہ ہوتا تو دو تہائی اکثریت کے بجائے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑتا اور وہ اب تک اقتدارسے بے دخل ہو چکی ہوتیں کیونکہ ملکی منظرنامے پر طائرانہ نگاہ ڈالتے ہی واضح ہو جاتا ہے کہ عوام کا آمرانہ سوچ رکھنے کی بنا پر شیخ حسینہ واجد سے دل بھر گیا ہے اور وہ اب کسی جمہوری سوچ رکھنے والی شخصیت کو اقتدار میں دیکھنا چاہتی ہے۔

رواں ماہ آٹھ جنوری کو منعقد ہونے والے عام انتخابات میں حکمران جماعت عوامی لیگ نے تین سو کے ایوان میں 223 نشستیں حاصل کرلی ہیں 2009 سے وزیرِ اعظم کے منصب پر فائز شیخ حسینہ واجد کوحالیہ انتخابی نتائج سے پارلیمان میں تین چوتھائی اکثریت مل گئی ہے مگر نتائج سے لگتا ہے کہ انتخابات کے باوجود بنگلہ دیش نے ایک بارپھر سیاسی استحکام کی منزل کو کھو دیا ہے اور برسرِ اقتدار نے اپوزیشن کے ساتھ عوام کو بھی بے بس کر دیا ہے اپوزیشن کا مطالبہ تھا کہ نگران حکومت ملک میں الیکشن کرائے ایسا ماضی میں ہو چکا لیکن حسینہ واجد نے اقتدار میں آکر آئین میں ایسی ترامیم کیں جن کی رو سے اب نگران حکومت تشکیل دینا ممکن نہیں رہا اِس نُکتے پر اپوزیشن نے احتجاج کیا اِس دوران کئی اموات بھی ہوئیں لیکن حسینہ واجد نے مطالبہ تسلیم نہ کیا اور بالاآخر اپوزیشن نے بائیکاٹ کر دیا مگر یک جماعتی آمریت پر یقین رکھنے والی شیخ حسینہ ثابت قد رہیں اور اپوزیشن کی عدم موجودگی یک طرفہ مقابلے میں کامیابی سمیٹ لی۔ مظاہرے، احتجاج، گرفتاریاں اور پکڑ دھکڑ معاشی ترقی کے عمل میں سُستی لانے کا باعث بنتی ہیں بدقسمتی سے اکثر ترقی پذیر ممالک کی قیادت اِس کا ادراک نہیں کرتی اور اور اپنے اقتدار کا عرصہ طویل سے طویل تر بنانے کے لیے غیر قانونی اور غیر جمہوری حربوں کا سہارہ لیتی ہیں جیسا کہ بنگلہ دیش میں ہو رہا ہے ایسے حربے معیشت کی ناہمواری کا باعث بنتے ہیں اگر مقبول قیادت کواقتدار سے بے دخل کرنے کے عمل میں اِدارے سیاستدانوں کی معاونت نہ کریں تو نہ صرف جمہوری عمل مستحکم ہو بلکہ سرمایہ کاروں میں ڈر اورخوف بھی ختم ہوتا ہے کیونکہ سرمایہ ڈوبنے جیسے خدشات میں کمی آتی ہے جبکہ غیر مقبول قیادت ملکی مفاد میں فیصلے کرنے سے زیادہ اپنے اقتدار کو مستحکم بنانے کے لیے اِداروں کی دستِ نگر رہتی ہے ماہرین کا کہناہے کہ جمہوری قوانین کی عدم پاسداری سیاسی عدمِ استحکام کا موجب بننے کے ساتھ غربت وافلاس کوجنم دیتی ہے بنگلہ دیش آجکل اسی دوراہے پر ہے۔

شیخ حسینہ واجد عام انتخابات میں پانچویں بار فقید المثال کامیابی حاصل کرنے کے بعد عوام کو یقین دلانے کی کوشش میں ہیں کہ آئندہ پانچ برس کے دوران اُن کی توجہ معاشی ترقی پر ہو گی اپوزیشن جماعتوں کی بائیکاٹ مُہم پر تنقید کرتے ہوئے اُن کایہ بھی کہناہے کہ ہر سیاسی جماعت کو فیصلے کا ختیار ہے مگر انتخابات میں ایک سیاسی جماعت نہ ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ ملک میں جمہوریت ہی غائب ہے اُن کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ ملک میں انتخابات شفاف ہوئے ہیں لیکن یہ بتانے کی ہمت نہیں کر پا رہیں کہ اُن کے حلقے گوپال گنج سے 249962 ووٹ لینے میں کیسے کامیاب ہوئیں اور اُن کے حریف کو صرف 469 ووٹ ہی کیوں مل سکے صاف ظاہر ہے اپوزیشن جماعت کے ووٹروں کو ووٹ ڈالنے سے ہی روک دیا گیا اور یقینی بنایا گیا کہ صرف حکمران جماعت کے ووٹر ہی پولنگ اسٹیشنوں میں داخل ہوں مزید دلچسپ پہلویہ کہ انتخابات میں چھوٹے چھوٹے بچے بھی ووٹ ڈالتے رہے جن کی ٹھپے لگانے کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے ایسے حربوں سے حکمران جماعت 223 نشستیں  لے گئی جبکہ اپوزیشن جماعت جیتا پارٹی بمشکل گیارہ نشستیں لے پائی حالیہ انتخابات میں 52 آزاد امیدوار بھی منتخب ہوئے جن کاتعلق بھی حکومتی جماعت سے ہے اپنی ہی جماعت کے کچھ امیدوار آزاد جتوانے کے پسِ پردہ مقاصد دنیا کو الیکشن صاف شفاف باور کرانا ہے کیونکہ آزاد کو بھی جتوانے کے لیے حکومتی مشینری کا بدترین استعمال کیا گیا اور مدِمقابل امیدواروں کو قانون نافذ کرنے والے اِداروں نے نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا بلکہ اُن کے گھروں پر حملے کیے گئے اور مقابلے سے روکنے کے لیے اہلِ خانہ تک کو ہراساں کیا گیا اِس کے باوجود اگر کوئی انتخابات کو آذادانہ اور منصفانہ قرار دینے پربضدہے تو بہتر ہے ڈکشنری میں دھاندلی کا مطلب شفافیت لکھ دیاجائے۔

امریکہ اور برطانیہ سمیت کئی ممالک نے بنگلہ دیش کے انتخابی عمل کو آزادانہ اور منصفانہ تسلیم کرنے کے بجائے نتائج مستر کرتے ہوئے متنازع الیکشن پر کئی سوال اُٹھا ئے ہیں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے کہا ہے کہ اپوزیشن جماعت کے ہزاروں کارکنوں، رہنمائوں کی گرفتاریوں اور ووٹنگ کے عمل میں بے ضابطگیوں پر تشویش ہے انتخابی عمل کے دوران تشدد جیسے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے بنگلہ دیشی حکومت پر زور دیا کہ نہ صرف تشدد کے واقعات کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائے بلکہ ذمہ داران کو سزا بھی دلائے انہوں نے عوام کے ساتھ ہونے کی بات کرتے ہوئے انتخابات کے مبصرین کے تاثرات شیئر کیے اور بنگلہ دیش کے انتخابات میں تمام جماعتوں کے حصہ نہ لینے پر افسوس کیا برطانیہ نے بھی واضح طورپر کہہ دیا ہے کہ بنگلہ دیش میں ہونے والے انتخابات آزادانہ اور منصفانہ کے معیار پر پورا نہیں اُترے دونوں ممالک کی تنقید کو چین کی طرف بڑھتا رجحان کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا بلکہ حقیقت بھی یہی ہے ابھی تک دنیا بھر میں پاکستان واحد ملک ہے جس کے وزیرِ اعظم نے حسینہ واجد کو جیت کی مبارکباددیتے ہوئے دونوں ممالک کے تعلقات بہتر بنانے کی توقع ظاہر کی ہے جس کی وجہ شاید سیاسی ناپختگی ہے بنگلہ دیش کے تین اطراف بھارت ہے جس کی قیادت ہنوز خاموش ہے جو نہایت ہی معنی خیز ہے شاید اِس طرح احسان جتا کر چین سے دور کرنا مقصد ہو لیکن بنگلہ دیشی منظر نامے پر نظر رکھنے والوں کو یقین ہے کہ وہ بیک وقت بھارت اور چین سے تعلقات رکھنے کی روش پر گامزن ہیں اور اِس پالیسی میں اب شاید ہی تبدیلی ہو مگر کیا سیاسی عدمِ استحکام کی موجودگی میں معاشی اہداف حاصل کیے جا سکیں گے؟ اِس کا جواب ہاں میں تو ہرگز نہیں ہو سکتا البتہ اِتنا یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کی یک جماعتی اکثریت میں کوئی ابہام نہیں رہا اور یہ ملک بدترین سیاسی عدمِ استحکام کی طرف بڑھ رہا ہے نیز شاید ہی نومنتخب اسمبلی اپنی مدت پوری کر سکے۔

تبصرے بند ہیں.