ہم ایک جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں؟

33

جنگِ عظیم اول (2014-17ء) کے بعد مقتدر عیسائی عالمی قوتوں نے طے کیا کہ وہ آئندہ آپس میں نہیں لڑیں گی انہوں نے باہم تنازعات کو نمٹانے کے لئے ایک بین الاقوامی ادارہ بھی تشکیل دیا۔ جنگی تباہ کاریوں کے اثرات سے نمٹنے اور تعمیر نو کے لئے ایک عالمی بینک (IBRD) بھی قائم کیا۔ جنگ عظیم اول میں عیسائی قوتوں نے مسلمانوں کی سیاسی، عسکر ی اور تہذیبی عظمت کے نشان خلافتِ عثمانیہ کو بھی ختم کر دیا تھا براعظموں تک پھیلی ہوئی خلافت سمٹ کر ترکی تک محدود کر دی گئی تھی۔ قبلہ اول پر بھی صلیبی قابض ہوگئے تھے اس کے بعد یہ بات شدت سے محسوس کی گئی کہ اب عیسائی اقوام کے درمیان جنگیں نہیں ہونی چاہئیں، طے پا گیا۔ عمل درآمدبھی شروع ہو گیا، لیکن یہ سب کچھ زیادہ دیر تک با رآور ثابت نہ ہو سکا۔ صنعتی بڑھوتی اور تیار مال کی کھپت کے لئے بڑی منڈیوں تک رسائی اور زیادہ سے زیادہ نفع اندوزی کی خواہش نے یورپی عیسائی اقوام کو ایک بار پھر دست و گریباں کر دیا۔ عیسائی ملکوں نے کھل کھلا کر ایک دوسرے پر تباہی و بربادی نازل کی۔اس دوسری جنگ ِ عظیم (1939-45) کے دوران برطانیہ عظمیٰ اور دیگر ریجنل پاورز کا دھڑن تختہ ہو گیا امریکہ نے برطانیہ عظمیٰ کی جگہ لے لی اور سوویت یونین ایک آہنی قوت کے طور پر سامنے آ گیا۔ سرمایہ دارانہ اقوام نے امریکی پرچم تلے جبکہ اشتراکی فکرو عمل کی اقوام اشتراکی روس کے پرچم تلے جمع ہو گئیں۔ دو طاقتی عالمی نظام قائم ہوا۔ چین اس بکھیڑے سے الگ تھلگ اپنی ہی دھن میں مگن رہا۔ دو طاقتی نظام میں اسرائیل مشرق وسطی میں امریکی و یورپی ممالک کے مفادات کے نگران کے طور پر اُبھرا۔ عرب ویہود کے درمیان معرکہ آرائی شروع ہو گئی۔ دوسری طرف جنوبی ایشیا میں پاک بھارت کے درمیان مسئلہ کشمیر کھڑا ہوا۔ یہ اسی سرپرستی کا نتیجہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل ایک قوی الجثہ بدمعاش ریاست کے طور پر فلسطینیوں اور دیگر عرب ریاستوں پر قہربن کر ٹوٹ رہا ہے۔ غزہ میں جو کچھ کر رہا ہے کیا وہ انسانی المیے کا باعث نہیں ہے، 60کلو میٹر لمبی اور 20/22 کلومیٹر چوڑی پٹی کو جہنم زار بنا دیا گیا ہے امریکی و دیگر عیسائی ممالک کی۔سرپرستی اور عملی امداد کے ساتھ اسرائیل قہر خداوندی بنا ہوا ہے۔ دوسری طرف بھارت نے کشمیریوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے 70 ہزار افراد سے زائد جانوں کی قربانی دینے کے باوجودمسئلہ حل نہیں ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت سے محروم رکھا جارہا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے باعث بھارت اور پاکستان 77سال سے ایک دوسرے کے خلاف سینہ سپر میں اربوں کھربوں کا اسلحہ بھی ہے پھر دونوں ممالک نے ایٹمی صلاحیت بھی حاصل کرلی ہے یہ ایٹمی صلاحیت کھلے عام جنگی مقاصد اور ایک دوسرے کو برباد کرنے کے عزم صحیح کا اظہار ہے جبکہ دونوں ممالک کے کروڑوں انسان خط غربت سے نیچے زندگیاں گزارنے پر مجبور رہیں۔ امریکہ 90ء کی دہائی میں اشتراکی سلطنت کے انہدام کے بعد بزعم خود سپریم عالمی طاقت کے منصب جلیلہ پر فائز ہو چکا تھا اس نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی حیران کن عسکری قوت کے اظہار کے بعد خطے کا جغرافیہ دوبارہ ترتیب دینے کا بھی اعلان کیا تھا۔ نائن الیون نے اس کی عظمت اور ہیبت کا بُت پاش پاش کر دیا امریکہ نے ایک خونخوار بھیڑیے کے طور پر ایک جنگ کا اعلان کیا، لیکن 20 سال تک ہندوکش کے پہاڑوں سے برسرپیکارہنے کے بعد طالبان کے ہاتھوں شکست کھا کر واپسی نے اس کی رہی سہی دہشت کا بھی خاتمہ کر دیا۔ اس دوران چین ایک ہیبت ناک معاشی طاقت کے طور پر سامنے آچکا ہے امریکہ ایک سپریم طاقت نہیں ہے، لیکن اسے ابھی تک اصرار ہے کہ وہ یک و تنہا عالمی طاقت ہے اس مقصد کے لئے وہ جہاں جہاں موقع ملتا ہے وہاں جنگ کے شعلے بھڑکا دیتا ہے اسے اس بات کی بھی پروا نہیں ہے کہ جنگ یورپی زمین پر لڑی جاتی ہے یا مشرقِ وسطیٰ اور جنوب ایشیا میں۔ اسے صرف اور صرف اپنی چودھراہٹ دکھانے اور قائم رکھنے کی فکر ہے، روس کو یوکرائن میں اُلجھایا۔ یورپی سر زمین ایک بڑی جنگ میں الجھائی جا چکی ہے امریکی یورپی اسلحہ اس جنگ میں ایندھن کا کام کر رہا ہے۔ غزہ میں اسرائیل امریکی شہ پر فلسطینیوں و عربوں پر قہر خداوندی بن چکا ہے۔ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی برسی کے موقع پر ان کی قبر کے قریب دو دھماکوں میں200 سے زائد افراد کی ہلاکت نے یہ ظاہر کر دیا ہے کہ یہ علاقہ بھی میدانِ جنگ بننے جارہا ہے پاکستان پہلے ہی ففتھ جنریشن وار کی زد میں ہے۔ گویا امریکہ جنگی جنون کوپھیلا کر نہ صرف اپنے اسلحے کی فروخت بڑھا کر اپنی گرتی ہوئی معیشت کو سہارا دے رہا ہے، بلکہ اپنی چودھراہٹ کو بھی مستحکم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ ہمیں ایک بات ہرگز بھولنا نہیں چاہئے کہ ہمارے جوہری اثاثے کسی طور بھی مغرب کی صلیبی و صہیونی قوتوں کے لئے قابل قبول نہیں ہیں وہ بر ملا اس بات کا اعلان بھی کرتے رہے ہیں ہم امریکی اتحادی کے طور پر، فرنٹ لائن ریاست کے طور پر افغان جنگ اور اتحادی جنگ میں اپنا کردار نبھاتے رہے ہیں ان جنگوںنے بحیثیت مجموعی ہمارے قومی مفادات کو مجروح کیا ہے ہم جن افغانوں کی جدوجہد آزادی میں ان کے ساتھ شریک جنگ رہے وہ ہمارے ممنون ہونے کے بجائے ہمارے دشمن بن چکے ہیں ہمارے خلاف دہشت گردی کا مرکز افغانستان ہے ہم پہلے یہ سمجھتے تھے کہ امریکی سرپرستی میں انڈیا افغانستان میں بیٹھ کر ہمارے خلاف بر سر جنگ ہے،جب طالبان آئیں گے تو ہماری یہ سرحدیں محفوظ ہو جائیں گی، لیکن دو سال ہونے کو آئے ہیں طالبان کی حکمرانی میں بھی ٹی ٹی پی ہمارے خلاف زیادہ شدت سے محو ِ جنگ ہے طالبان کا افغانستان بھی ہمارا دوست نہیں بن سکا یہ سفارتی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے۔ ہماری معیشت اور سیاست پہلے ہی تار تار ہو چکی ہے۔ آٹھ فروری کے انتخابات پر ابھی تک نااْمیدی کے گہرے بادل طاری ہیں چیف کے طویل دورہ امریکہ نے بھی معاملات پر شکوک و شبہات کی دبیز تہہ ڈال دی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ نہ صرف ہم، بلکہ خطہ ایک نئے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے۔ عالمی اقتصادی بدحالی، روس یوکرائن جنگ، عرب ویہود اور فلسطین و اسرائیل جنگ کے ساتھ ساتھ یہاں ایک نئی علاقائی جنگ کی راہیں ہموار ہو چکی ہیں۔ امریکی مفادات کے تحت اس خطے میں بھی ایک نئی جنگ کا جہنم دہکایا جانے والا ہے اس منظر نامے میں سب سے زیادہ خسارے میں رہنے والے ہم ہی نظر آ رہے ہیں۔ باقی اللہ خیر کرے گا۔

تبصرے بند ہیں.