ملک اور دنیا کی صورتحال سے نابلد ہمارے سیاست دان

35

سیاست دان عوام کے حقوق اور ملکی سیاست کو ایک کھیل ہی تصور کرتے ہیں جبکہ ملک کی سیاست ایک نہایت ہی سنجیدہ معاملہ ہے جس سے نہ صرف معیشت ، ملک کامستقبل ، عوام کی فلاح و بہبود ، اور ملکی سالمیت منسلک ہے ۔ سیاست دان اسے کھیل تصور کرتے ہیں اسلئے ہر ایک جماعت انتخابات کے وقت کھیل کا ہموار میدان چاہتی ہے لیول پلیئنگ فیلڈ کا مطلب تو یہ بنتا ہے ۔ کاش انتخابات کے وقت وہ کچھ ایسا منشور بھی دیں جس میں ملک کی معیشت کی بہتری، سرحدوں کے تحفظ، عوام کی فلاح و بہبود کا ذکر ہو وہ منشور تو دے دیتے ہیںایک روایت کے طور پر مگر اقتدار میں آنے کے بعد انکو پوچھنے والاکوئی ادارہ نہیں کہ منشور پر عمل درآمد کیوں نہیں اور نہ ہی عوام کو پتہ ہوتا ہے منشور میں کیا کیا ہے ، ووٹر کی اکثریت تعلیم سے فارغ ہے اسی لئے ہمارے ملک میں بلا ، تلوار، تیر ، سائیکل ، پتنگ وغیرہ نشان ہوتے ہیں کہ انہیں دیکھ کر معصوم ووٹر نشان لگاتا ہے اور اپنے لٹنے پٹنے کا اہتمام کرتا ہے ۔ منشور پیش کرنے کے بجائے صرف ایک جانب سے ’’مجھے کیوں نکالا تھاــ؟‘‘ ( یہ سوال نہ جانے کس سے ہے ، اگر وہ تفصیل میں جائیں تو پھر چھوٹے میاںصاحب کو معافی تلافی کیلئے بھاگ دوڑ کرنا پڑتی ہے) دوسری جانب سے ’’لاڈلہ‘‘ اور کھیل کا میدان کھلا چھوڑنے کے الزاما ت ہوں، جمہوریت میں انتخابات عوام کیلئے ہوتے ہیں مگر یہاں عوام کا فی الحال کوئی ذکر نہیں ہے ماسوائے الزام تراشیوں کے۔ دوسری طرف وہ بھی میدان میں آگئے ہیںجنہوں نے 9 مئی کو اس ملک کی بنیادیںہلادی تھیں، انہیں ہماری عدلیہ کہہ رہی ہے کہ ’’معصوم ‘‘ ہیں انکے لئے موضوع لفظ تو یہ بنتا تھا کہ ’’پاگل ‘‘ ہیں وہ بھی لبادہ اوڑھ کر پھر عوام کی خدمت کیلئے میدان میں کود رہے ہیں۔نام نہاد انسانی حقوق کے نام پر ہماری سیاست نے کچھ یہ رنگ اختیار کرلیا ہے ــ’ ایک عدالت میں مقدمہ گیا کہ فلاں شخص میرا تندور توڑ دیتا ہے کئی مرتبہ بنا چکا ہوں یہ پھر توڑ دیتا ہے ، ملزم کو طلب کرکے حکم دیا کہ ’’تو توڑے جا ، اور تندور والے کو حکم صادر کیا کہ تو بنائے جائے ‘‘ یہ حال ہمار ے ملک کے منظر نامہ کا ہوچکا ہے ایسا لگتا ہے معزز عدلیہ کے کرتا دھرتا جرم کی نوعیت کو نہیںبلکہ آزادی اظہار ، انسانی حقوق کے ملک دشمن نعروں کو دیکھتے ہیں ۔ حکومت سنگین جرم پر جیسا کہ 9 مئی کو اس ملک میں ہوا گرفتاری کرتی ہے عدالت رہائی کا حکم دیتی ہے نہ صرف رہائی بلکہ اسے ’’معصوم ‘‘ کے خطاب سے نوازتی ہے۔ معزز عدلیہ کے کرتا دھرتا پہلے میاں نواز شریف کے پاناما مقدمہ میں عدالت میں آتے ہی بغیر مقدمہ سنے کہہ دیتے ہیں کہ یہ مافیا ہے، پھر پاناما مقدمہ ایک طرف فیصلہ دوسری طرف جو خواہشات اور سازش پر محیط ہوتا ہے کہ اقامہ پر رکھنے پر نااہل ؟ وزیر اعظم نے صحیح کہا کہ 9 مئی کے واقعہ ملوث افراد عوامی نمائندگی کے حقدار نہیں۔ ہماری مصیبت یہ ہے 9 مئی کے ذمہ دار بیرون ملک بیٹھے سوشل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں، انہوں نے جدید ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے سابقہ چیئرمین کی آواز میں تقریر آن لائن کرا دی جس میں کہا جاتا ہے کہ لاکھوں افراد نے تقریر سنی، اس میں 90 فیصد سے زائد وہ لوگ ہیں جو بیرون ملک بیٹھے ہیں، وہاں کے پاسپورٹس رکھتے ہیں اگر کسی حکومت نے اپنے وعدوںکے باوجود بیرون ملک پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دے دیا ہوتا تو آن لائن تقاریر کوئی حیثیت رکھتی تھیں۔ اب تو یہ آن لائن خطابات صرف پاکستان میں نوجوانوں، اور عوام کے ذہنوں میں گند ڈالنے کے علاوہ کچھ نہیں، بد قسمتی سے ان آن لائن خطابات چاہے جو بھی کر رہا ہو وہ مرکزی نشانہ پاکستان کے بہادر عسکری اداروںکو بنا رہا ہے جو سرحدوں پر اپنی جانوںکا نذرانہ دیکر پاکستان کے عوام کو ایک پُرامن ماحول دینے کیلئے کوشاںہیں، بیرون ملک بیٹھے سوشل میڈیا ماہرین ہی نہیں ملکی سالمیت سے ہمارے سرکاری ٹی وی نے بھی کھیل میں حصہ ڈالا جب انہوںنے دوست ممالک کے خلاف خبر نشر کی، مگر اسے معمولی غلطی کا نام دیکر کوئی کارروائی نہیں۔ ایسی صورتحال میں نوجوان ذہن کیا کریں؟؟ کیسے ملک کے خلاف اپنے ہر بیان کوغلطی تصور کریں؟؟انکا ذہن کیوں گند سے نہ بھرے؟؟ انہیں پتہ ہے کہ آزادی اظہار انکا حق ہے ملک کے نظام کو ہلانے والا اقدام کیسے آزادی اظہار ہے؟؟ قانون ہر صوبے کی عدلیہ کیلئے علیحدہ علیحدہ ہے، کوئی انتخابی نشان ’’بلا ‘‘ واپس لیتا ہے تو دوسرا صوبہ ’بلا‘ واپس دے دیتا ہے؟؟ انتخابات کے انعقاد کی تاریخ اعلیٰ عدالت نے دی ہے مگر تا حال ووٹر لسٹ، الیکشن کمیشن پر اعتراضات جاری ہیں اور یہ اعتراضات ان بار ایسوسی ایشنز یا شخصیات کی جانب سے ہیں جن کے تانے بانے ان سیاسی جماعتوںسے ملتے ہیں جو فوری انتخابات کا مطالبہ کر رہی ہیں۔ قانون کا مجھے زیادہ علم نہیں مگر اتنا کم از کم معلوم ہے کہ جب انتخابی شیڈول کا اعلان ہو جائے تو اس قسم کے اعتراضات غیر موثر ہوتے ہیں، اسکے باوجود چہ مگوئیاں اپنی جگہ موجود ہیں کہ شاید انتخابات موخر ہو جائیں یا سرحدوں اور صوبوں میں دہشت گردی کے واقعات خدا نخواستہ انتخابات کی تاخیر کا سبب بنیں، سیاسی جماعتوںکے جوڑ توڑ کی صورتحال بھی اس بات کا واضح اشارہ دے رہی ہے فی الحال کسی ایک جماعت کی حکومت بننے سے پاکستان کے عوام بہت دور ہے، ٹولیوںمیں سیاسی جماعتیں کامیابیاں حاصل کرینگی اور آپس کی نفرتوںکا یہ عالم ہے کہ کوئی بھی ’’قومی حکومت‘‘ ہرگز پائیدار نہ ہو گی اور ایک سال بعد ایک مرتبہ پھر افراتفری ہوگی یوں مخدوش معیشت کے انتخابات پر خرچ ہوئے 40 ار ب سے زیاد ضائع ہو جائیں گے۔ سیاست دان انتخابات میںکود پڑے ہیں مگر کسی کو اس بات کا ادراک نہیںکہ آج چین دنیا کی سب سے بڑی معاشی طاقت بن چکا ہے، بھارت اپنی تمام تر ریشہ دوانیوں کے باوجودمعاشی طاقت ہے، وہاں بھی انتخابات کا ماحول بن رہا ہے، بنگلہ دیش ترقی کی طرف گامزن ہے، ایران مسلسل پابندیوں کے باوجود آج خوشحال ہے، افغانستان کی کئی جنگوںکے بعد بھی مہنگائی، معیشت کنٹرول میں ہے، مگر چار موسموں والا ملک، معدنیات سے بھر پور والا ملک، زمین پہاڑ سمندر اور اللہ کی تمام رحمتوں والا میرے قائد کا ملک پاکستان کیوں ایک مضبوط معیشت کا حامل نہیں اسکی وجہ میرے ذہن میں صرف ایک ایماندار لیڈرشپ کا فقدان ہے۔ سیاسی جماعتوںکی مثال پانچ انگلیوںجیسی ہے جو علیحدہ علیحدہ تو ہیں مگر جب ہم نوالہ منہ میں ڈالتے ہیں تو وہ یکجا ہو جاتی ہیں یہ ہی حال ہماری سیاست اور اسمبلیوںکا ہے کہ کھانے کیلئے سب اکھٹے ہی ہوتے ہیں۔ اللہ انہیں ہدایت دے، اور اس پاک وطن کا حامی و ناصر ہو۔

تبصرے بند ہیں.