اگر کوئی مجھ سے آج یہ پوچھے کہ تیری زندگی کا سب سے بڑا دُکھ کیا ہے تو میرا ایک ہی جواب ہوگا کہ مجھے میرا پرانا لاہور لوٹا دو کہ اب یہ شہر لاہور پہلے والا لاہور نہیں رہا۔ نہ لاہور کی روایات، نہ لاہور کی زبان، نہ لاہور کی دھوپ چھائوں وہ رہی۔ آج لاہور پر دوسرے شہروں کے لوگوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ اب بلند درختوں کی جگہ بلند عمارتوں نے اس کو گھیر رکھا ہے۔
صدیوں میں ڈھلتا لاہور، لاہور کے باغات، لاہور کی مساجد، لاہور کے مزارات، تاریخی اور مغلیہ دور کی روایات لاہور کے میلے، ٹھیلے، لاہور کے تہوار، لاہوری عیدیں، لاہوری کھابے، لاہوری برادریاں کس کس لاہور کا ذکر کروں کہ لاہور لاہور ہے اور جس نے لاہور نہیں دیکھا وہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوا۔ یہ مثال اس لئے بھی غلط ہے کہ پیدا ہونے والا پیدا ہوگا تو وہ جہاں بھی ہوگا اس پر یہ مثال صادق ہوتی ہے کہ وہ لاہور دیکھے گا البتہ بات ہو رہی تھی لاہور کی۔ لاہور نے ہر زمانے میں اپنی شکلیں بدلیں، ہر دور میں لاہور بدلا بدلا، نکھرا نکھرا، ہنستا ہنستا دکھائی دیا۔ اس شہر نے گھرانے، بڑے کھلاڑی تو بڑے گلوکار اور گلوکارائیں، اداکار تو اداکارائیں جنم دیں۔ بڑے مصور، بڑے رائٹر تو بڑے صحافی بھی لاہور کے ماتھے کا جھومر بنے۔ ایک بار میں نے پی پی پی کے راہنما حنیف رامے (مرحوم) کا انٹرویو کیا تو انہوں نے میرے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ…
’’لاہور کی صبح، لاہور کی دوپہر کے ڈھلتے سائے اور لاہور کی شام پنجاب کی خوبصورت مثال کہہ سکتے ہیں‘‘۔
گزشتہ دنوں میرے ایک دوست نے میرے اپنے ایک گروپ میں لاہور کے بارے میں لکھا…
قندھار میں آنکھ کھولنے والی مہرالنساء لاہور میں نورجہاں بن کر آسودہ خاک ہوئیں۔ لاہور سے انہیں بڑی محبت تھی، جس کا اظہار اس لازوال شعر کی صورت میں کیا:
لاہور را بہ جان برابر خریدہ ایم
جاں دادہ ایم و جنتِ دیگر خرید ہ ایم
(لاہور کو ہم نے جان کے برابر قیمت پر حاصل کیا ہے۔ ہم نے جان قربان کر کے نئی جنت خرید لی ہے)
پطرس بخاری نے کہا تھا کہ لاہور کے کاٹے کا علاج نہیں۔ کرشن چندر نے لکھا کہ لاہور آدمی کو بوڑھا نہیں ہونے دیتا۔ مشہور افسانہ نگار کرشن چندر لاہور میں رہے، ایف سی کالج میں تعلیم پائی۔ وہ اس شہر سے بے پناہ محبت کرتے تھے۔ آزادی کے وقت ہندوستان جانے کے بعد بھی اپنی روح لاہور ہی میں چھوڑ گئے۔ اس شہر کا تذکرہ وہ کسی بچھڑے ہوئے محبوب کی طرح رقت آمیز لہجے میں کیا کرتے تھے۔ وہ لاہور سے آنے والوں کو بڑی حسرت سے دیکھتے اور اپنے محبوب شہر کی گلی کوچوں، بازاروں، عمارتوں، باغوں کا تفصیل سے حال معلوم کیا کرتے۔ کرشن چند ر نے احمد ندیم قاسمی کے نام اپنے خط میں لکھا کہ لاہور کا ذکر تو کجا اس شہر کے بارے میں سوچتا بھی ہوں تو آنکھیں بھیگ جاتی ہیں۔
راجندر سنگھ بیدی جنہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز محسن لاہوری کے قلمی نام سے کیا تھا، مرتے دم تک لاہور کے عشق میں گرفتار رہے۔ لاہور کی باتیں کرتے ہوئے ان کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی لگ جاتی۔ ایک مرتبہ ٹی وی پر انٹرویو کے دوران لاہور کا ذکر آیا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ اے حمید برما میں قیام کے دوران اپنی جنم بھومی امرتسر کی بجائے لاہور کو یاد کیا کرتے تھے۔ وہ کہاکرتے تھے کہ لاہور کا نام زبان پر آتے ہی طلسم و اسرارکی الف لیلہ کا ایک باب کھل جاتا ہے۔ لاہور ایک شہر ہی نہیں، یہ ایک کیفیت کا نام ہے۔
سید احمد شاہ پطرس بخاری کا شمار بھی لاہور کے سچے عاشقوں میں ہوتا تھا۔ نیویارک میں قیام کے دوران انہوں نے صوفی تبسم کے نام ایک خط میں پوچھا، ’’کیا راوی اب بھی مغلوں کی یاد میں آہیں بھرتا ہے؟‘‘ گویا یہ شہر اپنے عاشقوں کے اعصاب پر ایسا سوار ہوتا ہے کہ وہ کبھی کسی دوسری جگہ پر سکون نہیں پا سکتے۔ جمناداس اختر، گوپال متل، پران نوائل اور ان جیسے کئی قلمکار آزادی کے بعد لاہور سے کوچ کر گئے، لیکن ان کا دل لاہور ہی میںاٹکا رہا۔ معروف شاعرہ شبنم شکیل لاہور کے ہجر میں غزلیں کہتی رہیں۔ بھارتی فلمی اداکار پران، اوم پرکاش، دیو آنند، یش چوپڑا، اور ناول نگار بپسی سدھوا جیسے مشاہیر لاہور کی بزم سے اٹھ جانے کے باوجود اس کی طرف بار بار مڑ کر دیکھتے رہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ لاہور ایک کیف و مستی کا نام ہے، ایک نشہ ہے جو طاری ہوجائے تو اترنے کا نام نہیں لیتا۔ پیدا ہونے کے لئے لاہور کے درشن کرنا بھی ضروری ہے۔یہ تھی قدر و عزت میرے کل کے لاہور کی…
پیارے پڑھنے والو! میں تقریباً 65سالوں سے لاہور کا چشم دید گواہ ہوں۔ ایک وہ زمانہ ماضی کا لاہور جب فیروزپور روڈ خالی جگہوں اور ویرانیوں کے ساتھ جنگلات کا منظر پیش کرتا تھا۔ وہ لاہور اب بڑے سانپوں کے گھیرے میں آ گیا ہے۔ خدا کا شکر ہے، پکا لاہوری ہونے کے ناطے شکر ہے کہ میری زبان اور بول چال میں ش کو س اور ڑ کو ر شامل نہیں ہے۔
لاہور کی ایک اور خوبصورت بات یہ ہے کہ آپ کو یہاں پکے بٹ صاحب، خان صاحب، میاں صاحب، ملک صاحب اور شیخ صاحب کثرت سے ملیں گے اور دوسری طرف دیکھوں تو لاہور اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس کے ماجھوں اور ساجھوں کا ذکر نہ ہو۔ دوسرا دکھ اس بات کا ہے کہ اب لاہور اپنی تہذیب اور ثقافت و تمدن کھو رہا ہے۔ ہم لاہوریئے آدھا تیتر آدھا بٹیر بن چکے ہیں۔ یہ کیا تماشہ ہے کہ ہم صرف پنجابی بولتے ہیں اور بچوں کو اردو اور انگریزی پر لگا دیا ہے۔ اگر اندرون شہر لاہور کا ذکر کروں تو وہاں سے اکثریت نئی اور بڑی آبادیوں میں شفٹ ہو گئی ہے۔ اب یہاں پرانے کلچر کی جگہ نیا کلچر، نئی زبان، نئی سیاست، نئی تہذیب نے جنم لیا ہے۔ اب پرانے والا لاہور نہیں رہا۔ اب ساگ، مکئی، لسی، گنے، گڑ اور اچار کا دور نہیں رہا۔ اس کی جگہ برگر، پیزا، شوارما اور چائنیز کھانوں نے لے لی ہے۔ اب نہ کبوتر بازی، نہ مرغوں کی لڑائی، نہ تاش بازی رہی۔ میرے نزدیک اب یہ نہ پرانا نہ نیا لاہور ہے۔ یہ شہر مغلیہ دور کی نشانیوں کو نکال کر اس کی منظرکشی کروں تو اب لاہور بھی کراچی کی طرح کئی نسلوں کا مکسچر بن گیا ہے۔ پنجابی، پٹھان، گورے، افغان، گجراتی، سیالکوٹی، فیصل آبادیئے یعنی پنجاب کے بڑے شہروں کے باسیوں نے لاہور کو بدل دیا ہے۔ لہٰذا نہ لاہور کی زبان، نہ لہوری رہن سہن، نہ لاہوری شامیں، نہ براتیں، نہ عیدیں، نہ لاہور کے تھڑے، نہ ٹانگے نہ گھوڑے، نہ تہواروں پر سجاوٹیں اور اگر اِکا دُکا ہوں تو نئی نسل کو نہیں پتہ کہ ان کی تاریخ شان و شوکت کیا ہے؟ پہلے شادیاں گھروں کے باہر میدانوں میں ہوتی تھیں۔ صبح سے رات گئے تک دیگیں پکتی تھیں، اب نہ دیگیں پکتی ہیں کہ شادی ہالوں نے کھانوں سمیت تمام معاملات سنبھال لئے ہیں اور لاہوری شادی کا اصل حسن ختم کر دیا ہے۔
پیارے پڑھنے والو!
مجھے میرا لاہور لوٹا دو… جو کبھی تازہ سبزیوں کی طرح صحت مند ہوا کرتا تھا… یہ بیمار بیمار سا لاہور، چہرے پر مایوسی لئے میرا لاہور نہیں ہے۔ یارو میرے لاہوری عشق، لاہور کے ناچ گھر، لاہور کے میلے، مزارات کے عرس اور لاہور کی اصل زندگی لوٹا دو…
Next Post
تبصرے بند ہیں.