الیکشن 2024ء ہو لینے دیں!

29

پاکستان اپنی تاریخ کے نازک ترین حالات کا سامنا کر رہا ہے ویسے شاید ہی کبھی ایسا وقت آیا ہو کہ ہم نازک صورتحال کا شکار نہ ہوئے ہوں، 1979 میں جب اشتراکی افواج دریائے آمو پار کر کے افغانستان پر قابض ہوئیں تو ہمارا امتحان شروع ہو گیا۔ پھر 9 سال بعد ہم ایک اور امتحان میں پڑ گئے ہم کابل میں اپنے دوست افغان مجاہدین کی حکومت قائم نہیں کر سکے اشتراکی حکمران ڈاکٹر نجیب اللہ کابل پر قابض رہا پھر مجاہدین کی حکومت قائم ہوئی تو وہ آپس میں لڑنے لگے ہم بھی فریق بن گئے طالبان آئے اور چھا گئے وہ بھی ہمارے لئے ایک نیا امتحان ثابت ہوا۔ 9/11 ہوا وہ بھی ہمارے لئے امتحان بن گیا امریکی اتحادیوں کی جنگ میں ہمیں فرنٹ لائن سٹیٹ بننا پڑا، 21/20 سال تک امریکی افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف لڑتے رہے دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ ہمارے گلے پڑ گئی۔ آج اسی جنگ کے زیراثر ہمارا ملک لہو لہو اور معاشرہ تار تار ہو چکا ہے، ہمارا انفراسٹرکچر تباہ اور سیاست پامال نظر آ رہی ہے ہم معاشی اور سیاسی طور پر ایک تباہ حال ملک نقشہ پیش کر رہے ہیں۔

یہ طے شدہ امر ہے کہ یہ ملک پاکستان سیاستدانوں نے ہی چلانا ہے پاکستان کے 25 کروڑ عوام اپنے نمائندوں کو اقتدار میں دیکھنا پسند کرتے ہیں کسی کو نوازشریف، آصف علی زرداری، عمران خان، فضل الرحمن، شہباز شریف، مریم نواز، بلاول بھٹو اور ایسے ہی سیاستدانوں کے چہرے پسند نہ بھی ہوں ان کی کارکردگی کیسی بھی رہی ہو لیکن پاکستان کے عوام کی اکثریت اپنے منتخب نمائندوں کو ہی اقتدار میں دیکھنا چاہتے ہیں ملک کو جب بھی ڈی ریل کیا گیا واپسی اسی طرح ہوئی۔ ڈکٹیٹر بھی سیاستدان ہی بن کر عوام پر حکمرانی کرتے رہے انہوں نے اپنی کنگز پارٹیاں بنائیں اپنے لاڈلے تخلیق کئے حیران کن بات یہ ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو، نوازشریف اور عمران خان جیسے پاپولر لیڈر پہلے لاڈلے تھے ہماری اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کے ایوانوں میں داخل ہوئے پھر یہ سب اصلی نمائندے بننے لگے تو ان سب کا حشر نشر کر دیا گیا بھٹو کو پھانسی چڑھایا گیا اس کی بیٹی قتل کر دی گئی۔ نوازشریف کو جلاوطنی اور معزولی کی سزائیں دی گئیں، عمران خان بھی اب ایسی ہی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔

اسٹیبلشمنٹ سیاستدانوں کو نااہل اور کرپٹ سمجھتی ہے خود کو ذہین اور محب وطن تصور کرتی ہے سول ملٹری تعلقات کبھی بھی ہموار نہیں رہے ہیں مارشل لا آتے رہے ان کا خوشدلی سے استقبال بھی کیا جاتا رہا ہے نوابزادہ نصراللہ خان جیسے بابائے جمہوریت، نوازشریف دشمنی میں اس کا خیرمقدم بھی کرتے پائے گئے۔ بے نظیر جنرل اسلم بیگ کے ترانے بھی گاتی رہی ہیں۔ جنرل مشرف کے ساتھ خفیہ این آر او بھی کیا۔ نوازشریف جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا میں منصہ شہود پر آئے پھر کبھی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اور کبھی مخالفت کے ذریعے اپنا قد کاٹھ بڑھا کر سیاست میں زندہ و جاوید رہے۔ یہاں کسی کی سیاست کی تحسین اور کسی کی تنقیص مقصود نہیں ہے بلکہ بالفعل حالات و واقعات کا بیان ہے پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی، نواز لیگ ایک مسلمہ حقیقت ہیں کسی کو پسند ہو یا نہ ہو سیاست ہی ایک بار پھر ہمارے مسائل کا حل قرار پا چکی ہے اور نواز شریف ممکنہ طور پر وزیراعظم کے طور پر منظر پر چھا جانے کی تیاریاں کر رہے ہیں۔ وہ گزری عسکری قیادت کے رویوں کے شاکی ہیں نوحہ کناں ہیں۔ عمران خان اس اسٹیبلشمنٹ کے خلاف باتیں کرتے پائے گئے ہیں جو انہیں لے کر آئی تھی اس طرح نوازشریف اور عمران خان ایک ہی اسٹیبلشمنٹ کے ڈسے ہوئے ہیں دونوں ان کے خلاف باتیں کرتے ہیں، دوسری طرف سیاست میں دونوں ایک دوسرے کے دشمن بھی ہیں ویسے نواز شریف عمران خان کے خلاف ذاتی دشمنی کی حد تک نہیں پہنچے انہوں نے عمران خان کی مخالفت، سیاسی میدان میں کی ہے۔ میاں صاحب عمران خان کا نام ہمیشہ ادب و احترام سے لیتے ہیں، گوالمنڈی کا نوازشریف جس شرافت و نجابت کا مظاہرہ کرتا پایا گیا ہے عمران خان جیسا آکسفورڈ کا پڑھا لکھا ویسا رویہ ظاہر نہیں کر سکا حد تو یہ ہے کہ سیاسی سرکلز میں یہ بات بھی گردش کرتی رہی ہے کہ جس طرح خان نے عامیانہ بلکہ سوقیانہ رویوں کا اظہار کیا ہے وہ جس بازاری انداز میں اپنے سیاسی و غیرسیاسی مخالفوں پر برستے رہے ہیں ان کی گونج آکسفورڈ تک جا پہنچی ہے اور انہوں نے سوچنا شروع کر دیا ہے کہ وہ عمران خان کو دی جانے والی ڈگری سے برأت کا اعلان کر دیں کیونکہ خان صاحب نے ڈگری کے نام کی لاج نہیں رکھی بلکہ اعلیٰ درجے کے ادارے کی مٹی پلید کر کے رکھ دی ہے۔

بہرحال الیکشن اپنی طے کردہ رفتار اور ٹائم ٹیبل کے مطابق ہونے جا رہے ہیں دشمنان ملک و ملت اس عمل پر شک و شبہات کی گرد ڈالنے میں مصروف ہیں ویسے تو پاکستان کے خلاف”خلا میں جنگ“ یعنی سائبروار ایک عرصے سے جاری ہے، ”پانچویں نسل کی جنگ“ جو خلا یعنی سائبر میں لڑی جاتی ہے اور کسی ملک کے لوگ اپنے ہی ملک کے خلاف برسرپیکار کر دیئے جاتے ہیں پاکستان کے خلاف ایک عرصے سے ایسا ہو رہا ہے ریاست ناکام ہوتی نظر آ رہی ہے، معیشت کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے سوچ سمجھ رکھنے والوں کو کسی نہ کسی حد تک تعین ہو چکا ہے کہ یہ ملک چلنے والا نہیں ہے اس کے حال کو دیکھتے ہوئے اس کے مستقبل کی پیشگوئی کی جا رہی ہے کہ یہ سب کچھ چلنے والا نہیں ہے سرمائے کے ساتھ ساتھ ذہانت کی ہجرت تیزی سے جاری ہے کوئی قابل، پڑھا لکھا اور باصلاحیت نوجوان یہاں رکنا نہیں چاہتا ہے، عام شہری کو اپنی روٹی روزی میں اس قدر الجھا دیا گیا ہے کہ اسے کچھ اور سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملتی ہے۔ بجلی، گیس کے بلوں کی تکلیف اپنی جگہ، ان کی دستیابی بھی ایک قومی مسئلہ بن چکا ہے، پٹرولیم کی قیمتیں بھی عوام کے لئے سوہانِ جسم و جاں بنی ہوئی ہیں۔ اشیا ء صرف کی قیمتیں ناقابل بیان حد تک پہنچی ہوئی ہیں قدرزر بھی انتہائی پست ہو چکی ہے۔ ریاست کے شراکت دار ادارے اور شخصیات ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔

ایسی مایوس کن اور مسموم فضا میں الیکشن 2024 قوم کے لئے امید کی کرن ثابت ہو سکتے ہیں مایوس اور مغموم عوام اپنی من پسند قیادت کے ساتھ مل کر ملک کی تعمیر و ترقی میں عازم سفر ہو سکتے ہیں۔ ہماری اسٹیبلشمنٹ نے ملک و قوم کو جہاں تک پہنچا دیا ہے وہاں سے واپس لانے کے لئے سیاسی قیادت مثبت رول پلے کر سکتی ہے، عوام کو فعال اور متحرک کرنے اور انہیں ملکی تعمیر و ترقی میں شریف سفر بنانے میں حقیقی سیاسی عمل کی بحالی ضروری ہے الیکشن 2024 اس حوالے سے نقطہ آغاز ثابت ہو سکتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.