افغانستان کی کہانی

44

نجانے اس وقت دنیا میں کتنے انسان ہجرت کے نتیجہ میں تارکین وطن میں شمار ہیں، ان میں بڑی تعدا د ان بدقسمت خاندانوں کی ہے، جن کو حالت جنگ میں بے سروسامان اور بے یارو مدد گار گھر کی دہلیز سے باہر قدم رکھنا پڑا، اس وقت ان کے جذبات کیا ہوں گے جب وہ حسرت بھری نگاہوں سے گھر کے درو دیوار کو آخری بار اس امید سے دیکھ رہے ہوں گے، کہ حالات ٹھیک ہوتے ہی انکی واپسی ممکن ہوگی، اپنی خواتین، بہو بیٹیوں کے ساتھ ہجرت کا دکھ بڑا ہی کرب ناک مرحلہ ہے۔ اہل افغان خوش قسمت ہیں جو اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہیں۔ بُرا ہو ان طاقتوں کا جن کی جنگوں کا ایندھن معصوم شہری بنتے ہیں، بیٹھے بٹھائے اپنی ہی سرزمین پر اجنبی بن جاتے ہیں، مفادات کا پھل کسی اور کی جھولی میں گرتا ہے مگر پشیمانیاں عوام کے حصہ میں آتی ہیں، میڈیا کی آنکھ سے اپنے وطن لوٹنے والے افغانی شہریوں کو دیکھ کر ایک لمحہ کے لئے تو خوشی ہو رہی تھی کہ ان کے ہجر کا موسم ختم اور وصل کی شب کا آغاز ہونے کو ہے، مگر جانے والوں کے چہروں پر خوشی کے آثار نہیں تھے، ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ وہ ایک نئے دریا میں اتر رہے ہیں۔

طویل مدت تک پاکستان کی میزبانی سے لطف اندوز ہونے والے بھی اس صور ت حال پر شکوہ کناں تھے،جن بچوں نے زندگی کی پہلی صبح اس سرزمین پر دیکھی انکی جذباتی وابستگی بھی عیاں تھی،یہاں قیام کے دوران بہت سے افراد نے اپنے کاروبار جما لئے، بڑی جائیدادیں بنا لیں، مگر ان کے لئے درد سر بننے والے وہ شر پسند ہیں، جن کے بارے میں گماں ہے کہ وہ غیر ملکی قوتوں کے ہاتھوں کھیل کر اسی شاخ کو کاٹتے ہوئے پائے گئے جس پر ان کا آشیانہ تھا، انکی شر پسند کارروائیوں نے ریاست کو مجبور کیا کہ غیر قانونی افراد کو اپنی ریاست سے نکال باہر کریں۔ جس سرزمین پر انکی تیسری نسل جواں ہوئی اس کے منتظمین ہی نے انھیں چشم ماروشن دل ماشاد اس وقت بھی کہا جب روس 80 کی دہائی میں گرم پانیوں تک رسائی کے لئے جارحیت کا مرتکب ہوا، پھر نائن الیون کے بعد بھی اسلام آباد نے متاثرین کو پاکستان آنے سے منع نہیں کیا، ارض وطن میں قیام پذیر افغانیوں کی تعداد لاکھوں میں تھی، اتنی بڑی آبادی کی میزبانی کی مثال دنیا میں کم ہی ملتی ہے۔

جانے والوں کی پریشانی کا سبب یہ بھی ہے کہ تاحال افغانستان میں ایک منظم سیاسی ڈھانچہ موجود نہیں ہے، بون کانفرنس کی وساطت سے جو سیاسی پلان مرتب کیا گیا، طالبان مخالف گروہ کو تھپکی دی گئی، آئین کی منظوری لویہ جرگہ سے لی گئی، مگر نہ تو عوامی سطح پر سیاسی کلچر کو پروان چڑھایا گیا، نہ ہی متعلقہ اداروں کا قیام عمل میں لایا گیا، ساری قوت امن و امان کی بحالی پر صرف کی گئی، صدارتی محل میں مسلط کئے گئے حکمرانوں کے عہد میں سویلین کی ہلاکتیں ہوئیں، بدعنوانی کا راج رہا، سماج مزید منقسم ہوا، معاہدہ قطر کے بعد جب طالبان نے دوبارہ اقتدار سنبھالا،تو براجمان صدر نے راہ فرار اختیار کرنے میں ذرا بھی تاخیر نہ کی۔ امریکہ کی لائی ہوئی مصنوعی جمہوریت زمین بوس ہو گئی۔

افغانستان کے بانی سمجھے جانے والے عبدالرحمان نے ابتدا ہی میں ایک سپریم کونسل تشکیل دی، ملک کو واحدانی ریاست کا سٹیٹس دیا، رائل ممبرز، مذہبی پیشواؤں، قبائلی سرداروں اور لسانی گروہ پر مشتمل سرکار وجود میں آئی، آئینی بادشاہت سے امور مملکت چلانے کا اہتمام ہوا، جدید خطوط پر ریاست کا قیام لانے کی سعی کی گئی تھی، افغانستان سے تاج برطانیہ کی رخصتی کے بعد مقامی راہنماؤں کی دعوت پر اس خلا کو روس نے طاقت سے پُر کرنے کی کاوش کی، معاشی بدحالی، وار لارڈز کے مفادات نے سول وار کی راہ ہموار کی تھی، افغان سرزمین ہمیشہ سے بڑی طاقتوں کی آماجگاہ رہی ہے۔

فی الوقت طالبان سرکار کی عالمی سطح پر پذیرائی نہیں ہے، بہت سے لوگ غربت کی دلدل میں پہلے ہی اترے ہوئے ہیں، دوسال گزرنے کے باوجود منظم سیاسی نظام سے یہ ملک محروم ہے، کس قدر المیہ ہے کہ وہ تمام بڑی طاقتیں جنہوں نے اہل افغان پر ظلم کئے بازور طاقت ان کا ناطقہ بند کیا، ان کے ہاتھوں شکست بھی کھائی۔ جارحیت کا ارتکاب کرنے والی عالمی طاقتیں تمام تر بحرانوں کی ذمہ دار ہیں، وہی افغانستان کو ناکام ریاست گردانتی ہیں۔

اخباری اطلاعات کے مطابق طالبان کے خلاف محلاتی سازشوں کا آغاز ہو چکا ہے، جس کی شہادت دوشنبہ میں ہرات ڈائیلاگ کے عنوان سے ایک کانفرنس کا اہتمام ہے، شرکاء کانفرنس نے طالبان کے خلاف نیا محاذ کھولا ہے اور افغانستان کی خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ دور کی کوڑی لائے ہیں، انہوں نے امریکہ اور یورپ کو متنبہ کیا ہے کہ طالبان ایٹمی ہتھیاروں کو حاصل کرنے کی کاوش میں پاکستان کی مددکا خواہاں ہے، نیز خواتین کے تعلیمی اداروں کی بندش، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بھی قابل توجہ ہیں، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ نوجوان خود کو غیر محفوظ خیال کرتے ہوئے بیرون ملک جا رہے ہیں۔ عوام کا تحفظ اور سازشوں کا مقابلہ طالبان کے لئے بڑا امتحان ہے۔

ہر چند کہ طالبان کی حکومت ابھی تک عالمی سطح پر شرف قبولیت سے محروم ہے، تاہم چین اور افغانستان کے مابین سفارت کاری کا آغاز ہو گیا ہے، بیجنگ کے ذمہ داران نے کہا کہ چین طالبان کے حکمرانوں کو مکمل طور پر تسلیم تو نہیں کرتا، لیکن عالمی برادری افغانستان کو قطعی طور پر نظر انداز نہیں کر سکتی، چین نے کہا ہے کہ طالبان سرکار کو سیاسی اصلاحات متعارف کرانا ہوں گی، ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات بنانا اور سکیورٹی بڑھانا ہو گی، داخلی اور خارجی پالیسیاں بدلنا ہوں گی۔

قبائل کی یہ سرزمین اپنے اندر قدرتی خزانے لئے ہوئے ہے، افغانستان کے روشن مستقبل کے لئے لیتھیم دھات کو ماہرین خلیج کی پٹرولیم مصنوعات کے ہم پلہ سمجھتے ہیں، تانبے اور لوہے کے ذخائر اس کے علاوہ ہیں، ان سے استفادہ کے لئے چین کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے، اب ذمہ داری طالبان سرکار کی ہے کہ وہ کیسی معاشی اور سیاسی پالیسی بناتی ہے جو عالمی برادری اور چین کے لئے بھی قابل قبول ہو۔

دوحہ معاہدہ کی خلاف ورزی پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی صورت میں برآمد ہو رہی ہے۔ ماضی میں دونوں ممالک نے پھول اور کانٹے باہم تقسیم کئے ہیں، لاکھوں مہاجرین کی میزبانی کا بوجھ اٹھایا ،گمان ہے کہ اس میزبانی کا صلہ مثبت انداز میں ملے گا،تلخ حقیقت یہی ہے کہ پاک افغان تعلقات کی کہانی ایک سکے کے دورخ کی مانند ہے۔ لینڈ لاک ملک کے باسیوں کو یہ سمجھنا ہے کہ افغانستان کی خوشحالی اسلام آباد کے تعاون ہی سے عبارت ہے، تاہم افغانستان کی ترقی کی کنجی افغانیوں کے اپنے ہاتھ میں ہے۔

تبصرے بند ہیں.