سرزمین فلسطین نہایت مبارک اور محترم جگہ ہے۔ یہ سرزمین آسمانی پیغامات اور رسالتوں کا منبع اور سرچشمہ رہی ہے۔ اس سرزمین پر اکثر انبیا اور رسل آئے ہیں۔ یہی وہ سرزمین رہی ہے جہاں سے معراج کی ابتدا اور انتہاہوئی، یہ آسمان کا دروازہ ہے، یہ سرزمین محشر بھی ہے۔
قلم کاروان، اسلام آبادکی ادبی نشست میں ”فلسطین الیوم“ کے موضوع پر استنبول یونیورسٹی ترکی کے شعبہ علوم القرآن کے پروفیسر ڈاکٹر منجد ابوعبیدہ بن رضوان ابوبکر نے خطاب کیا۔ ڈاکٹر صاحب کا تعارف یہ ہے کہ وہ قرآن مجید پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ تدریس سے وابستہ ہیں۔ متعدد کتب کی مصنف ہیں اور ان کی ڈاکٹریٹ بھی علوم القرآن میں ہے۔ انہوں نے عربی میں خطاب کیا اور ان کے ساتھ مترجم بھی موجود تھے۔
ڈاکٹر منجد ابوعبیدہ نے خطاب کرتے ہوئے بیت المقدس کی اہمیت و فضیلت بیان کی اورکہاکہ بیت المقدس زمین میں آسمان کادروازہ ہے۔ یہودی ریاست اسرائیل کامنصوبہ تھاکہ مغربی کنارے کے باسیوں کو اردن کی طرف دھکیل دیا جائے اور غزہ کے فلسطینیوں کو مصر کی سرحدوں میں داخل کر کے تو پوری ارض فلسطین کو مسلمانوں سے خالی کرا لیا جائے۔ اگر غزہ کے مجاہدین اعلان جہاد نہ کرتے تواسرائیلی ریاست اپنے منصوبے پر عمل پیرا ہو چکی ہوتی۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مسلمانوں کے حکمرانوں سے مایوس ہو چکے ہیں البتہ امت مسلمہ سے ان کی بہت امیدیں وابستہ ہیں۔
شرکاء نے کہاکہ یہود کے تین قبائل آخری نبیؐ کی تلاش میں یثرب نامی مقام پرآبادہوئے تھے لیکن بنی اسماعیلؑ سے ہونے کے باعث انہوں نے ہی نبیؐ پر ایمان لانے سے انکار کر دیا۔ مدینے کے تینوں یہودی قبائل نے میثاق مدینہ کے ہوتے ہوئے بھی مسلمانوں کے ساتھ غداریاں کیں۔ اس قوم کو اللہ تعالیٰ نے امامت عالم کے منصب سے معزول کیا اور امت مسلمہ کو اس منصب پر فائز کر دیا اور یہی امر یہود کی اسلام دشمنی کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کہ سرزمین فلسطین مسلم امہ کیلئے بہت متبرک اور مقدس ہے۔ قرآن مجید میں پانچ مواقع پر اسے بابرکت زمین سے مخاطب کیا گیا ہے۔ (پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گئی جس کے اردگرد ہم نے برکتیں نازل کی ہیں؛ تاکہ ہم انہیں اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بیشک وہ ہر بات سننے والی، ہر چیز دیکھنے والی ذات ہے)۔ (اور جن لوگوں کو کمزور سمجھا جاتا تھا، ہم نے انھیں اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جس پر ہم نے برکتیں نازل کی تھیں)۔ (اور بنی اسرائیل کے حق میں تمہارے رب کا کلمہ خیر پورا ہوا، کیونکہ انھوں نے صبر سے کام لیا تھا۔ اور فرعون اور اس کی قوم جو کچھ بناتی چڑھاتی رہی تھی، ان سب کو ہم نے ملیا میٹ کردیا)۔ (اور ہم نے نجات دی اسے اور لوط کواس زمین کی طرف جو (کہ) ہم نے برکت رکھی اس میں تمام جہان والوں کے لیے)۔(اور ہم نے تیز چلتی ہوئی ہوا کو سلیمان کے تابع کردیا تھا جو ان کے حکم سے اس سرزمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکتیں رکھی ہیں اور ہمیں ہر ہر بات کا پورا پورا علم ہے۔) (اور ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن پر ہم نے برکتیں نازل کی ہیں، ایسی بستیاں بسا رکھی تھیں جو دور سے نظر آتی تھیں، اور ان میں سفر کو نپے تلے مرحلوں میں بانٹ دیا تھا اور کہا تھا کہ ان (بستیوں) کے درمیان راتیں ہوں یا دن، امن و امان کے ساتھ سفر کرو)۔
مسجد اقصیٰ کی اہمیت یوں بھی ہے کہ نبی کریمﷺ نے معراج کو جاتے ہوئے مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کی نماز کی امامت فرمائی۔ یہ شرف صرف اسی مسجد کو حاصل ہے کہ بیک ِ وقت تمام انبیاء کرام علیہ السلام نے اس مسجد میں باجماعت نماز ادا کی۔ یہیں اللہ تعالیٰ نے بہت سارے انبیاء کو تاج ِ نبوت سے سرفراز فرمایا۔ یہاں پر انبیاء کے ہاتھوں ہزاروں معجزات رونما ہوئے۔ حضرت زکریا علیہ السلام کو بڑھاپے میں اسی جگہ پر بیٹے حضرت یحییٰ علیہ السلام کی خوشخبری ملی اور حضرت مریم علیہ السلام کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی عطا ہوئے۔
مسجد اقصیٰ، مدینہ القدس کے دامن کوہ میں بنائی گئی، اس کا نام بیت المقدس ہے، یعنی پاک کرنے والا گھر جس میں گناہوں سے پاکی حاصل کی جاتی ہے۔ یہ پہلا قبلہ اور تیسرا حرم شریف ہے اور رحمت عالم محمد ﷺ کے سفر معراج کا راستہ ہے۔ یہ ان تین مساجد میں سے ایک ہے جن کے علاوہ کسی مسجد کی طرف ثواب وتعظیم کی نیت سے سفر نہیں کیا جا سکتا۔
صحیح حدیث میں مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھنے کی بہت زیادہ فضیلت بیان ہوئی ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمرؓ اللہ کے رسول ﷺ سے روایت کرتے ہیں: حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام نے جب بیت المقدس کی تعمیر فرمائی تو اللہ تعالیٰ سے انہوں نے تین چیزیں مانگیں، وہ لوگوں کے مقدمات کے ایسے فیصلے کرے جو اس کے فیصلے کے موافق ہوں، تو انہیں یہ چیز دے دی گئی، نیز انہوں نے اللہ تعالیٰ سے ایسی سلطنت مانگی جو ان کے بعد کسی کو نہ ملی ہو، تو انہیں یہ بھی دے دی گئی اور جس وقت وہ مسجد کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی: کہ جو کوئی اس مسجد میں صرف نماز کیلئے آئے تو اسے اس کے گناہوں سے ایسا پاک کر دے جیسے کہ وہ اس دن تھا، جس دن اس کی ماں نے اسے جنا (سنن نسائی: 693)
پہلی صلیبی جنگ کے بعد جب 15 /جولائی 1099ء کو عیسائیوں کا بیت المقدس پر قبضہ ہوا تو انہوں نے مسجد اقصٰی میں بہت رد و بدل کیا۔ پھرصلاح الدین ایوبی نے 538 ہ/ 1187ء میں بیت المقدس کو فتح کیا تو مسجد اقصٰی کو عیسائیوں کی خرافات سے پاک کیا۔ 88 سال کے علاوہ عہد فاروقی سے بیت المقدس اور مسجد اقصی مسلمانوں کے قبضے میں رہے ہیں۔ افسوس ہے کہ ادھر چند سال سے پھر قدس اور مسجد اقصی غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کے قبضے میں ہیں، مگر آج بھی مسجد اقصی کا انتظام وانصرام اردن کی ”وزارتِ اوقاف اور شونِ مقدّساتِ اسلامیہ“ کے تحت ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ قدس اور مسجد اقصیٰ کو ان ظالم و جابر اور غاصب لوگوں کے قبضے سے آزاد کرادے اور فلسطینیوں کی قربانی بار آور ثابت ہو، آمین!
تبصرے بند ہیں.