وہ ہستی جس نے زمانے کے سرد و گرم سے ہمیں محفوظ رکھا جس کے وجود میں رحمت خداوندی ہم پر سایہ فگن رہی، اسے دنیا سے رخصت ہوئے دس سال بیت گئے۔ ابّو جی ۱۷ ستمبر ۲۰۱۴ء کو وفات پا گئے تھے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ تقریباً عشاء کے وقت وہ اپنے پروردگار کے حضور حاضری کے لیے روانہ ہوئے اور اس جہاں کو قیامت تک کے لیے خیرباد کہا۔ ان کا انتقال راولپنڈی میں میرے پاس ہوا۔ ایک رات قبل خاص کر لاہور سے مجھے، میری اہلیہ اور بچوں سے ملنے آئے۔ شاید غالبؔ کے اس شعر کے مصداق:
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
پہلی اولاد ہونے کے ناتے ان سے قربت بھی زیادہ رہی اور مزاج آشنائی بھی۔ شعور کی آنکھ کھولی تو گھر میں کتب و رسائل کی ریل پیل دیکھی اور علمی، ادبی اور سیاسی مباحث سنے۔ ابو جی کے مطالعے میں تنوع اور وسعت تھی۔ ان کے کتب خانے میں قرآن پاک کی بے شمار تفاسیر و سیرت طیبہﷺ کے نسخے، دیگر دینی و ترقی پسند لٹریچر کے ساتھ ساتھ تاریخ، فلسفہ، سیاست، ادب، تصوف، سوانح عمری، خودنوشت اور شاعری کا ایک قابلِ ذکر ذخیرہ موجود ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے کسی علمی مجلس میں کسی کتاب کا ذکر سنا ہو اور وہ ان کے کتب خانے میں موجود نہ پائی ہو۔ اکثر قریبی احباب کو تحفتاً کتابیں پیش کرتے تھے۔ انہوں نے ان مختلف مکاتبِ فکر کا مطالعہ اندھی تقلید کے بجائے کھلے ذہن اور آنکھوں سے کیا۔ فکر و تدبر جس کا تقاضا قرآن اپنے قاری سے کرتا ہے اس تقاضے کو انہوں نے کما حقّہ ادا کیا۔
مکتوب نگاری ان کا خاصا تھی، خط لکھتے اور خوب لکھتے۔ ان کا خط بھی بہت عمدہ تھا۔ مختلف حوالوں سے اہل علم و دانش سے خط و کتابت کا سلسلہ جاری رہا جن میں سید ابواعلیٰ مودودی، جعفر شاہ پھلواروی، غلام جیلانی برق، ایم اسلم، مولانا غلام رسول مہر، غلام احمد پرویز، جاوید احمد غامدی، مختار مسعود، شیخ منظور الٰہی سمیت دیگر ارباب ِ فکر شامل ہیں۔ ان میں سے چند خطوط ہفت روزہ آئین میں شائع ہو چکے ہیں۔
ابّو جی تمام عمر فکر اسلامی کے مبلغ اور شارح رہے۔ قرآن پاک، سیرت طیبہﷺ، غالبؔ اور اقبالؔ ان کے پسندیدہ موضوعات رہے ہیں۔ محترم فیض احمد فیض مرحوم کے لیل و نہار، محترم حنیف رامے مرحوم کے نصرت، روزنامہ جنگ، ادارہ تحقیقاتِ اسلامی کے فکر و نظر، اخبار جہاں، ہلال، المعارف، فرائیڈے سپیشل، قومی ڈائجسٹ سمیت ملک کے دیگر مؤقر جریدوں و اخبارات میں ان کے شائع ہونے والے مضامین اور تحریر و تالیف کردہ کتب ’’شہیدِ کربلا‘‘ اور ’’قرآن اور انسانی حقوق‘‘ میں سرمایہ داری، جاگیرداری، ظلم اور استحصال کے خلاف لکھتے رہے۔ شان الحق حقی مرحوم کی ادارت میں شائع ہونے والی آکسفورڈ کی انگریزی اردو لغت کے مرتبین میں بھی شامل رہے۔کراچی میں علامہ جعفر شاہ پھلواروی اور مولانا محمد طاسین سے خصوصی تعلق تھا۔ اکثر شاہ سے ملاقات کے لیے ان کی رہائش گاہ جاتے۔ حنیف رامے صاحب سے خصوصی انس تھا۔ حینف رامے صاحب نے جب اپنے رسالے مساوات کو پیپلزپارٹی کا ترجمان بنایا تو ابّو جی نے دامے درمے سخنے اس کے لیے کام کیا اور پیپلز پارٹی کے نظریات کی ترویج و اشاعت میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ لیکن جب سرمایہ داروں اور جاگیر داروں نے پیپلز پارٹی پر قبضہ کر لیا اور بھٹو صاحب بھی اقتدار کی غلام گردشوں میں گم ہو گئے تو پیپلز پارٹی کو خیر آباد کہا کہ:
اس محفل سے خوش تر ہے کسی صحرا کی تنہائی
رپورٹنگ کی خداداد صلاحیت کے مالک تھے ٹیپ ریکارڈر کا استعمال اور نوٹس بھی نہ لیتے مگر اس کے باوجود حرف بہ حرف رپورٹنگ کرتے۔ بہترین شعری ذوق کے حامل تھے، برمحل اور موزوں شعر پڑھتے سیکڑوں کی تعداد میں شعر یاد تھے۔ اکثر خود بھی شعر کہتے۔قادر الکلام تھے کسی بھی واقعے کو اس طرح بیان کرتے کہ سامع کو محسوس ہوتا کہ یہ تمام واقعہ اس کے سامنے رونما ہو رہا ہے۔ حسِ مزاح بھی بہت عمدہ تھی۔ سندھی بہت روانی سے بولتے اور پنجابی میں جب اپنی علاقائی زبان میں بات کرتے تو ٹھیٹ پنجابی لگتے اور جب اردو بولتے تو سننے والے کو یوپی اور سی پی سے تعلق کا گمان ہوتا۔والد محترم مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ سخت سے سخت حالات میں بھی ہمت نہ ہارتے اور صبر و شکر کا دامن نہ چھوڑتے۔ لوگوں کے کام کر کے خوشی محسوس کرتے۔ جس شخصیت پر سب سے زیادہ اعتماد اور محبت کرتے وہ ان کے عزیز ترین دوست مرزا حسن علی بیگ ہیں۔ بیگ صاحب بھی انھیں اسی قدر عزیز رکھتے تھے۔فکری طور پر وہ ارتکاز دولت اور جاگیر داری، سرمایہ داری اور ملائیت کے خلاف رہے۔ اسلام میں مختلف مکاتب فکر کے تکفیر سازی کے مشغلے ان کے لیے سوہان روح سے کم نہ تھے اور ملّا کو اس تمام فساد کی جڑ سمجھتے تھے۔اپنے نظریات اور عقائد کے حوالے سے مصلحت پسند نہ تھے، ڈاکٹر حسن بیگ نے ایک جملے میں جو ان کے کتبے کے لیے انہوں نے تجویز کیا تھا، ان کی ساری زندگی کا نچوڑ بیان کیا ہے کہ ’’محمد اختر مسلمؔ جنہوں نے اپنے نام کے ساتھ ’’مسلم‘‘ کا اضافہ کیا عمر رفتہ اسم باسمیٰ ہونا ثابت کیا‘‘۔ عمران خان کو پسند کرتے تھے اور اپنے اکثر مضامین اور کالموں میں ان کا دفاع کرتے تھے۔ لیکن میں ان سے کہا کرتا تھا کہ تحریک انصاف کا انجام بھی پیپلز پارٹی جیسا ہی ہو گا کہ نظریاتی کارکن پچھلی نشستوں پر ہونگے اور اگلی صفوں میں سرمایہ دار اور جاگیر دار ہونگے۔
انہوں نے تمام عمر اپنی بساط سے بڑھ کر ہمیں آسائشیں فراہم کیں، کتاب دوستی، علم کی قدر، جرأت اور ایثار جیسی خصوصیات کو ہماری تربیت کا حصہ بنایا۔ وہ تمام عمر اپنی محبت اور شفقت کا حق ادا کرتے رہے لیکن میں ان کی خدمت کا حق اس طرح ادا نہ کر پایا جس کے وہ حقدار تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کو کروٹ کروٹ جنت میں جگہ عطا فرمائے اور ہمیں ان کے لیے صدقہ جاریہ بننے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔
تبصرے بند ہیں.