چند لمحوں میں نہیں، چند سال میں نہیں، نظریات اور افراد کے بارے فیصلہ جات اور اقدامات کے بارے میں منفی اور مثبت، کامیاب اور ناکام حق یا باطل ہونے کا حتمی فیصلہ صدیوں تک زیر بحث رہ سکتا ہے جیسا کہ ہمارے دیکھتے ہی دیکھتے 45 سال بعد وطن عزیز کے پہلے منتخب وزیراعظم گریٹ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دیئے جانے والے فیصلے کو آئین اور قانون کے منافی قرار دے دیا گیا۔ انہیں اُس وقت 7 ججز میں 4 ججز کے اکثریتی فیصلے نے موت کی سزا تین نے معصوم قرار دیا تھا۔ اور اب فل کورٹ نے اس فیصلہ کو گریٹ بھٹو کے ساتھ انصاف کے تقاضوں کے برعکس قرار دے دیا۔ ہم سمجھتے رہے اور جو سمجھتے رہے وقت کے ساتھ تاریخ اور وقت کی چھلنی کردار کو چھانتے چھانتے ہمارے سامنے منکشف کر گئی۔ ہم سمجھتے رہے کہ جسٹس منیر ایوب آمریت کے سامنے لیٹ گیا نہ لیٹتا تو قوم بھی کھڑی رہتی لیکن ہم نے ذرا برابر غور نہ کیا کہ جسٹس کارنیلئس بھی، پھر چیف جسٹس مغربی پاکستان رستم خان کیانی اور بعد ازاں جسٹس خواجہ صمدانی بھی تو تھے دراصل لیٹنے والے قوت نہیں اقتدار میں شمولیت کی خاطر لیٹتے رہے۔ دراصل عدالتی اختیارات سے باہر نکل کر انتظامی اور حکومتی اختیارات اور فوائد کا حصول ان کا مطمع نظر رہا۔ جسٹس منیر بعد میں وزیر قانون بھی رہے جنہوں نے مشرقی پاکستان کی سیاسی قیادت کو ایوب خان کا پیغام دیا کہ تم الگ ہو جائو ہم سات کروڑ ہیں اور تم پانچ کروڑ، مسلم لیگ کی بنیاد مشرقی پاکستان میں رکھی گئی تھی، آگے چل کر جیسا کہ ضیاء کے دور میں عدلیہ نے تو منافقت کی حد کر دی، شیروانیاں پہننا شروع کر دیں۔ ایک بار لاہور ہائیکورٹ کے دس جج اعتکاف بیٹھ گئے اور ہزاروں مقدمات التوا کا شکار ہوئے۔ دراصل تب بھی عدلیہ صرف اسٹیبلشمنٹ کے سامنے نہیں اقتدار میں شمولیت کے لیے لیٹ گئی تھی تب میاں نوازشریف کا سیاسی اعتبار سے حکومتی اقدامات میں خاص کردار تھا کئی ججز میاں نوازشریف نے تعینات کیے زیادہ پرانی بات نہیں جب ثاقب نثار جج بنے تو معروف قانون دان خالد انور نے جب ایک بہت بڑی تقریب میں ثاقب نثار کو بلایا وہ میاں نوازشریف کے برابر کھڑے تھے اور ثاقب نثار ریٹائرڈ چیف جسٹس تب ان کے سامنے ٹیبل کی دوسری جانب تھے نے میاں صاحب سے سفارش کی کہ ثاقب نثار کو جج بنا دیں۔ میاں صاحب لحاظی طبیعت کے بندے ہیں ہاں کر دی تو خالد انور نے بلایا تو ثاقب نثار بجائے اس کے کہ وقار کے ساتھ لمبی ٹیبل سے گرد چکر لگا کر ان کے پاس آتے یہ میمنے کے انداز میں ٹیبل کے نیچے سے ہی کڑک کر کے دوسری طرف برآمد ہو گئے گویا یہ اقتدار میں شمولیت کی خاطر تھا۔ اب حالیہ عدالتی طریقہ کار اور رویہ میں لوگ سمجھتے ہیں کہ عدلیہ اسٹیبلشمنٹ کے سامنے کھڑی ہے ایسا نہیں ہے۔ دراصل گریٹ بھٹو تو ویسے ہی عدلیہ اور میڈیا کے زور پر نہیں فہم و فراست کے ذریعے سیاست کرتے تھے۔ نوازشریف نے میڈیا اور عدلیہ کو بھی ساتھی رکھا جبکہ ضیاء کی اسٹیبلشمنٹ کے وقت میں اقتدار میں آنا ان کی مجبوری تھی کیونکہ اپوزیشن پر تو پیپلزپارٹی چھائی ہوئی تھی لہٰذا کوئی جگہ نہ تھی۔ 1993ء کے بعد نوازشریف نے بھی سیاست کے بھروسے سیاست شروع کر دی لہٰذا وقت کے ساتھ ساتھ عدلیہ پر بھروسہ کم کرتے گئے جبکہ پیپلزپارٹی نے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ حتیٰ کہ میڈیا سے بھی کبھی بھرپور امیدیں نہیں رکھیں۔ بہت لمبی تاریخ ہے، ہم عصر حاضر پر آتے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ سے سیاسی اعتبار سے عدلیہ کی اسٹیبلشمنٹ اقتدار میں شرکت سے امیدیں توڑ بیٹھی تھی لہٰذا اسٹیبلشمنٹ کی محنت سے افزائش پانے والی نئی انتہائی غیر اہم جماعت کی لاٹری نکل آئی۔ عدلیہ نے بھی اس کی موجودگی میں اقتدار میں شرکت اور اختیارات سے تجاوز کو جائز ہوتے ہوئے محسوس کر لیا۔ اسی بنیاد پر ہی عمران خان کو ایک چیف جسٹس نے کہا کہ آپ سڑکوں پر کیوں پھر رہے ہیں۔ ہمارے پاس آئیں اور پھر پاناما کا مقدمہ شروع ہوا۔ سیکڑوں لوگ تھے مگر فیصلہ صرف میاں نوازشریف کا کر دیا گیا۔ دوران سماعت جسٹس کھوسہ نے کہا کہ ہم ایسا فیصلہ دیں گے لوگ 20 سال یاد رکھیں پھر ثاقب نثار کی ایک خاص سیاسی جماعت کے ساتھ وابستگی اب راز نہیں انہوں نے بطور چیف جسٹس قوم کے اربوں روپے غیر قانونی طور پر منظوری دے کر پانچ سال سے کم مدت جج رہنے والوں کو عمر بھر کی پنشن اور مراعات بھی دیں۔ جسٹس افتخار بھی اقتدار میں اور اختیارات میں بڑھاوے کی خاطر جوڈیشل ایکٹوازم میں مبتلا ہوئے کامیاب اس لیے تھے کہ حکومت صدر آصف زرداری اور پیپلزپارٹی کی تھی۔ جو عدلیہ کو اپنے دائرے میں رہنے کے حامی تھے پھر عمران نیازی کے دور میں عدلیہ کے فیصلے یاد رکھے جائیں گے، آئین کی تشریح کے نام پر آئین سازی یاد رکھی جائے گی۔ جسٹس افتخار ہی تھے نا جس بنچ نے پرویز مشرف کو آئین میں تبدیلی کے اختیارات بھی دے دیئے یہ سب اقتدار میں شمولیت کے لیے تھا۔
آج ن لیگ، پیپلزپارٹی اور اب اسٹیبلشمنٹ بھی عدلیہ کو آئینی حدود میں رکھنے کی متمنی ہے جس وجہ سے عدلیہ دلبرداشتہ دکھائی دیتی اس کو صرف ایک خاص سیاسی جماعت کے اقتدار میں آنے سے ہی اپنے عدالتی اختیارات سے باہر آ کر شارٹ لگانے کی امید وابستہ ہے۔ مختصر یہ کہ عدلیہ محض اسٹیبلشمنٹ نہیں اپنے ماورا آئین اقدامات کرنے، اختیارات اور اقتدار میں شراکت داری کے لیے ہمیشہ سرگرم رہی ہے اب آ کر بقول عمران خان کے ’’ننگی‘‘ ہو گئی ہے کہ اس کے فیصلے دبائو نہیں بلکہ اقتدار کی ’’چمک‘‘ کی خاطر کرتی چلی آئی ہے۔ اطلاعات کے مطابق مجوزہ ترمیمی بل میں آرٹیکل 63 اے میں ترمیم کی تجویز شامل ہے، آرٹیکل 63 اے میں پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کے خلاف جانے پر ووٹ شمار کرنے کی ترمیم کی تجویز بھی ہے۔ آرٹیکل 17 میں ترمیم کے ذریعے وفاقی آئینی عدالت کی تجویز اور آرٹیکل 175 اے کے تحت ججز کی تقرری کے طریقہ کار میں بھی ترمیم کی تجویز شامل ہے۔ مجوزہ آئینی ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے چیف جسٹس کیلئے نام قومی اسمبلی کی کمیٹی وزیراعظم کو دے گی۔ دستاویز کے مطابق قومی اسمبلی کی کمیٹی 3 سینئر ترین ججز میں سے چیف جسٹس کا انتخاب کرے گی، ججز کی تقرری کیلئے قومی اسمبلی کی کمیٹی 8 ارکان پر مشتمل ہو گی، کمیٹی ارکان کا انتخاب سپیکر قومی اسمبلی تمام پارلیمانی پارٹی کے تناسب سے کریں گے، کمیٹی چیف جسٹس کی ریٹائرمنٹ سے 7 روز قبل سفارشات وزیراعظم کو دے گی۔ مجوزہ آئینی ترمیمی بل کے مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت کے جج کی ریٹائرمنٹ کی عمر 68 سال ہو گی، سپریم کورٹ کا جج وفاقی آئینی عدالت میں 3 سال کیلئے جج تعینات ہو گا۔ بل میں ہائی کورٹس سے سو موٹو لینے کا اختیار واپس لینے اور ہائی کورٹ ججز کی ایک ہائی کورٹ سے دوسری ہائی کورٹ میں تبادلے کی تجویز بھی شامل ہے۔ یہ تمام ترامیم وقت کا تقاضا اور ناگزیر ہیں تاکہ حقیقت میں انصاف کا بول بالا ہو سکے۔
تبصرے بند ہیں.