تاریخ ایسا جج ہے جو ججوں کے ساتھ بھی انصاف کرنے میں بے حجاب ہے۔ مولوی تمیزالدین کیس لاء کالج میں بھی پڑھایا گیا اور تاریخ میں بھی جبکہ سوشل میڈیا کے ناقابل یقین ارتقا اور پھر اس پر وطن عزیز میں آئینی مقدمات کی بھرمار نے اس کیس کے حصے بخرے عوام کے سامنے رکھ دیئے۔ لاہور کینال پر سے جائیں تو آپ کو راستے میں جسٹس کارنیلیئس انڈر پاس نظر آئے گا۔ یہ وہ جج تھے جنہوں نے ایوب خان کے مارشل لاء کو جائز قرار دینے والے فیصلہ میں مولوی تمیز الدین کیس میں جسٹس منیر کے فیصلے کے خلاف اختلافی نوٹ لکھا تھا۔ آپ کو کہیں جسٹس منیر کے نام پر کسی بار میں کوئی نکڑ بھی نظر نہ آئے گی جبکہ کارنیلیئس، جسٹس رستم کیانی کے نام پر بڑی وکلا بار میں لاہور ہائیکورٹ سمیت ہال نظر آئیں گے۔ گریٹ بھٹو کیس میں ملوث تمام لوگوں کا حشر جو تقدیر اور تاریخ نے کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ بڑھتے چلئے دنیا میں موجود ہیں ابھی دُرگھٹنا نہیں ہوئی، جسٹس افتخار احمد جو اس بنچ کے سرخیل تھے جس نے پرویز مشرف کے مارشل لا کو مانگنے سے زیادہ عطا کیا کہ آپ تین سال میں اگر آئین میں ترامیم کرنا چاہیں تو کر لیں، گویا پارلیمینٹ سے بڑھ کر بادشاہ کے اختیارات ہی دے دیئے۔ پھر مشرف کے مخالف جنرل کے ہاتھوں مہرہ بنے اور ایک تحریک چل گئی جو وکلا اور بار کی عمدہ روایات اپنے ساتھ بہا لے گئی۔ بہرحال دنیا میں موجود ہیں جسٹس افتخار مگر عام لوگوں کی قبریں ان سے زیادہ مقبول ہیں جبکہ موصوف غیر مقبول۔ بہت سے مراحل ہیں، گریٹ بھٹو کا مقدمہ تو پوری دنیا میں عدلیہ کو شرمندہ کر گیا، ابھی محترمہ بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری کے مقدمات کی بازگشت، چمک اور دیگر الفاظ کا عدالتی ڈکشنری میں اضافہ چل رہا تھا کہ میاں نواز شریف کے 12 اکتوبر کے بعد کے مقدمات 2017ء کے مقدمات سامنے آ گئے۔ عدلیہ کے کارنامے تھے کہ غدر کی تاریخ…… ابھی کل کی بات ہے کہ عدالتی اشتہاری عمران خان سپریم کورٹ میں پٹیشن کر کے نواز شریف کے خلاف فیصلے کراتا رہا۔ سیسلین مافیا کے القابات، بلیک ڈکشنری کا استعمال، ناول لکھنے کے انداز میں عدالتی فیصلے الحفیظ الامان۔ مجھے یاد ہے جسٹس کھوسہ نے ایک دن دوران سماعت ریمارکس دیئے کہ ”ایسا فیصلہ دیں گے، لوگ بیس سال یاد رکھیں گے“۔ تاریخ کے سامنے چند سال میں ہی وہ فیصلہ غارت ہو گیا مگر بیس سال کیا تاریخ جسٹس کھوسہ، جسٹس ثاقب نثار اور اعجاز الاحسن کو کبھی بھول نہ پائے گی۔ امتیازی سلوک کے ساتھ کیے گئے فیصلے جب ریورس ہوتے ہیں تو راکشش قسم کے لوگوں کو زیادتی لگتی ہے۔ مک مکا لگتا ہے حالانکہ انصاف ہوتا ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ نوازشریف اور مریم کی سزا کا فیصلہ شام کے بعد رات کی گہری سیاہی ہو چکی تھی، سنایا گیا تھا۔ دراصل ایون فیلڈ میں ہی میاں صاحب کو کوئی پیغام دے رہا تھا کہ سیاست چھوڑ دو، بری ہو جائیں گے۔ انکار پر رات کو سزا سنا دی گئی۔ جب وہ گرفتاری دینے جہاز پر اپنی بیٹی کے ساتھ آ رہے تھے تو پھر پہنچے ہوئے بزرگ لوگوں نے کہا کہ سیاست چھوڑ دو، رن وے پر ضمانت مل جائے گی مگر انکار پر جیل چلے گئے پھر جو جیل، ہسپتالوں، نیب کی حوالاتوں میں جو ہوا، سب کو یاد ہے۔ آصف زرداری اسحاق خان سے عمران خان تک سب کی جیل کاٹ چکے اور بری ہوئے۔ پرسوں نواز شریف باعزت بری ہوئے، قوم کے ان ضائع ہونے والے برسوں کا حساب کون دے گا۔ میرا نہیں خیال کہ مُردوں کو تو چھوڑیں جو زندہ ہیں، ان ججز میں سے کوئی دو دن جیل بھی کاٹ سکے مگر قوم کو قید رکھا گیا۔ کیا ضیا کے دور کے 11 سال کا ازالہ ہو سکتا ہے؟ مشرف کے 9 سال کا ازالہ کون کرے گا۔ یحییٰ کے تین سال اور ایوب کے 18 سال بطور آرمی چیف اور 10 سالہ صدارت کا ازالہ کون کرے گا؟ مگر تاریخ میں کی گئی زیادتیوں کے ازالے شائد اس طرح ہی ہوا کرتے ہیں کہ نواز شریف ان ججز کی زندگی میں بری ہوئے، جن کے حوصلے اتنے بڑھ چکے تھے کہ اپنے ہی برادر جج جناب قاضی فائز عیسیٰ صاحب اور ان کے بیوی بچوں کو کٹہرے میں لے آئے۔ تضحیک کرتے رہے اور اس محکمہ (ایف بی آر) کے سپرد کر دیا جس کے افسران ترقی اور پوسٹنگ، ٹرانسفر عزت سے زیادہ ترجیح اور دنیا و آخرت کی کامیابی سمجھتے ہیں۔ آزادی کیا نصیب ہوئی ایک اور دریا کا سامنا اور مسلسل سامنا کرنا پڑ گیا۔ پانی نہیں آگ، خون اور قید خانوں کے دریاؤں کا۔ جناب فائز عیسیٰ تاریخی چیف جسٹس نے ایک فقرے میں ہی گریٹ بھٹو کا فیصلہ بھی ری وزٹ کر دیا کہ بھٹو کے مقدمہ میں بھی زیادتی ہوئی تھی اور پھر کمال ہی کر دیا جس کی اب تک سرشاری ہے کہ ”آئین توڑنے پر غاصب کو سزا بھی نہ ملے پھر بھی تسلیم کریں، ماضی میں جو ہوا وہ غلط تھا، آمروں کے ساتھ کھڑے صحافی بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ احتساب سب کا کریں، مارشل لاؤں کو جواز دینے والے ججز کی تصاویر کمرہ عدالت میں نہیں ہونی چاہئیں“۔ اور پھر جسٹس اطہر من اللہ صاحب نے کہا کہ ”ججز کا ٹرائل ہونا چاہئے“ اور بہت کچھ کہا گیا مگر میں سوچ رہا ہوں کہ شائد کمرہ عدالت میں ججز کی تصویریں تو ہوا ہی کرتی ہیں۔ شاید کہا نہیں مگر چیف صاحب کے ذہن میں ہو کہ تصویریں الٹی لگانی چاہئیں۔ ایوب سے خان سے باجوہ صاحب تک کہاں گئے۔ پیپلز پارٹی کا گزشتہ روز 57واں یوم تاسیس تھا، 5 بار حکومت کر چکی، ن لیگ بھی ہے مگر دیکھا گیا ہے وطن عزیز اور اس کے اداروں کی دشمن جماعتیں تاریخ کے اوراق میں ہی گم ہو کر رہ گئیں اور آئندہ بھی ایسا ہی ہو گا۔ جو لوگ نواز شریف کی بریت پر ماتم کناں ہیں وہ ان کی سزا کا جواز اور انداز بھی یاد کر لیں۔ ایبڈو سے لے کر جنرل مشرف کے احتساب بیورو تک تمام قوانین جو احتساب کے سلسلہ میں بنائے گئے تھے وہ آزادی، عوام اور انصاف کے مخالف اور دشمن ہیں، ان کو حرف غلط کی طرح مٹانا ہو گا۔ ویسے تو ٹروتھ کمیشن قائم نہیں ہو گا مگر وقت کے ساتھ ساتھ تاریخ کا ٹروتھ کمیشن انصاف دیتا رہے گا۔ کل پی پی پی، گریٹ بھٹو صاحب، بی بی محترمہ شہید بینظیر بھٹو اور میاں نوازشریف کٹہرے میں تھے۔ آج وہ ججز چاہے قبروں میں ہیں یا زندہ وہ کٹہرے میں ہیں۔ ظالم اور ڈکٹیٹر جمہوری شکل میں ہو یا یونیفارم میں عدالت کے سنگھاسن پر براجمان ہو یا کہیں بھی، تاریخ کا کٹہرا اس کا مقدر ہے۔ آج خلاف آئین خلاف قانون فیصلہ دینے والے کٹہرے میں ہیں۔ میاں نواز شریف کی بریت سے مولوی تمیزالدین کیس سے لے کر آج تک کے غلط فیصلوں کے ذمہ دار تاریخ کے کٹہرے میں ہیں۔
تبصرے بند ہیں.