آج کا نوجوان اور کل کا پاکستان

52

یوں تو ریاست پاکستان کی موجودہ صورت حال زندگی کے ہر اہم معاملے میں رحم طلب حالت تک پہنچ چکی ہے لیکن سب سے زیادہ نقصان پاکستان کے نوجوانوں کا ہو رہا ہے جو کل آبادی کا 67 فیصد ہیں۔ یہی وہ سماجی طاقت ہے جس نے آگے چل کر ملک کی باگ ڈور بھی سنبھالنی ہے، اپنی مرضی کا پاکستان بھی بنانا ہے اور پاکستان پر قابض”قبضہ گروپ“ سے پاکستا ن کو آزاد بھی کرانا ہے۔ باری کے بخار کی طرح اقتدار میں آنے والی سیاسی جماعتوں نے ان کی سماجی اور ذہنی ترقی میں کوئی کردار تو ادا کیا کرنا تھا۔ ترقی جو ہر انسان کا پیدائشی حق ہے اُس کے رستے بھی نوجوان نسل پر بند کردئیے۔ موروثی سیاست کی بدبو دار دلدل نے اس معاشرے کو آہستہ آہستہ انپے اندر نگلنا شروع کیا تو آج حالت یہ ہے کہ پاکستانی عوام اپنی تمام ضروریاتِ زندگی سمیت اس دلدل میں ناک تک اتر چکی ہے۔جس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کی نوجوان نسل کو ہو رہا ہے کہ ابھی انہوں نے اس وطنِ عزیز میں ایک ”طویل“ دکھ بھری زندگی گزارنی ہے۔

جرائم کی خوفناک حد تک بڑھتی ہوئی شرح نے پاکستا ن کے ہرگلی کوچے کو غیر محفوظ کر دیا ہے۔ پاکستان کے نوجوان جن کے ہاتھ میں کتاب یا ملکی خدمت کا سرٹیفکیٹ ہونا چاہیے تھا انہیں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، لینڈ مافیا اور سٹریٹ کرائم کی اندھیر گلی میں دھکیل دیا گیا ہے جس کا ایک رستہ قبر اور دوسرا جیل کے دروازے پر جا نکلتا ہے۔ کتنے خوبرو جوان نامعلوم قاتلوں کی گولیوں کا نشانہ بنے، کتنی مائیں آج تک اپنے جواں بیٹوں کی منتظر ہیں، کتنی بہنیں اپنے رکھوالے بھائیوں کی جدائی کا زخم لے کر لاوارثوں کی سی زندگی گزار رہی ہیں، کتنے ناتواں کندھوں نے اپنے جوان بیٹوں کے جنازوں کو کندھا دیا لیکن کسی کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔ کوئی قانون حرکت میں نہیں آیا، کسی قاتل کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا گیا۔ کبھی بیرونی ہاتھ کا رونا رویا گیا اور کبھی اندرونی غیر محب وطن عناصر کا۔ لیکن کیا کبھی ہم نے سنجیدگی سے سوچا ہے کہ کوئی بیرونی ہاتھ اتنی دیر تک کیسے کامیاب ہو سکتا ہے جب تک کوئی اندرونی ہاتھ اُس کا مدد گارو معاون ثابت نہ ہو اور جہاں تک غیر محب وطن عناصر کی بات ہے تو کون بدبحت ہے جو اپنی سرزمین سے غداری کا مرتکب ہوکر کسی غیر کا آلہء کار بن کر اپنے ہی لوگوں کو قتل کرے گا؟ یہ سب کچھ اسی سماج کی پیدا وار ہے جو کچھ ہم نے ان بچوں کو دیا تھا وہی وہ ہمیں لوٹا رہے ہیں۔ ممکن ہے کبھی کسی نے اپنی مرضی سے کسی فرد یا گروہ کو بندوق تھما دی ہو لیکن ایسے کرتے ہوئے ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بندوق ہم اپنی مرضی سے دے سکتے ہیں لیکن واپس کرنا فریق ثانی کی آزاد مرضی ہوتی ہے۔ ایسی صورت حال میں جب ہر طرف بارورد اور ہوس کی بدبو پھیل چکی ہے پاکستان کے نوجوانوں کی اکثریت کا کیا مستقبل ہو سکتا ہے جو ابھی تک اس دلدل میں اترنے کیلئے تیار نہیں؟

پاکستان عالمی دہشت گردی کی جنگ کا ”غیر عقلی اتحادی“ بنا تو دہشتگروں نے پاکستان کو 9/11 بنا کر رکھ دیا۔ اس دہشت گردی میں اب تک پاکستان نے دنیا کی کسی بھی قوم سے زیادہ کھویا ہے اور نتیجہ آپ کے سامنے ہے۔ یہ طے شدہ بات ہے کہ دنیا کی کوئی غیر مقتدر ریاست مقتدر ادارے نہیں بنا سکتی، مقتدر اداروں کے قیام کیلئے مقتدر ریاست کا ہونا ضروری ہے جو ریاست اپنے بیرونی معاملات میں خود مختار نہ ہو وہ اندرونی معاملات میں کس حد تک خود مختار ہو سکتی ہے؟ اور ایک خود مختار ریاست کا قیام نوجوانوں کی عقلی تربیت، جوش، جذبے، دیانتداری، حب الوطنی اور قوم پرستی کا محتاج ہوتا ہے۔

بلوچستان اور سرحد تو آتش فشاں بن چکے ہیں لیکن سرحدی پنجاب اور سرحدی سند ھ کی حالات بھی کوئی قابلِ تحسین نہیں۔اس حوالے سے مرکزی اور صوبائی حکومتیں ہمیشہ بیرونی طاقتوں کی مداخلت کا رونا رو کر بات کو کوئی دوسرا رنگ دے دیتی ہیں لیکن کیاصرف یہی حقیقت ہے؟ اور کیا ہمیں اسے من و عن تسلیم بھی کرلینا چاہیے۔ دنیا میں اُس سے زیادہ بیوقوف اور کون ہوگا جو اپنے دشمن سے رحم کی توقع کرے۔ سوال یہ نہیں کہ بیرونی طاقتوں نے ہمیں کیا نقصان پہنچایا، سوال تویہ ہے کہ ہم نے پاکستان کے دشمنوں کے خلاف کیا حکمت ِعملی تیار کی؟ یقینا اس کا جواب ایک معنی خیز مسکراہٹ کے سواء کیا ہو سکتا ہے؟وہ ہاتھ توڑ کیوں نہیں دئیے گئے جنہوں نے پاکستان کی سالمیت کو نقصان پہنچایا، وہ آنکھیں نکال کیو ں نہیں دیں گئیں جنہوں نے پاکستان کو بری نگا ہ سے دیکھا، وہ زبان گدی سے کھینچ کیوں نہیں لی گئی جس نے پاکستان کے خلاف زبان درازی کی؟ کیوں ہم نے ایسا نہیں کیا، کیوں نہیں کیا؟ شاید اس کی ایک ہی وجہ تھی کہ برسراقتدار اشرافیہ ایسی حرکات کرنے والوں سے زیادہ غیر محب وطن اور ملک دشمن تھی۔67 فیصد نوجوان پاکستانیوں کی موجودگی میں اُن کے دیس کے ساتھ یہ سلوک روا رکھا جا رہا ہے لیکن ہر سو ایک خاموشی چھائی ہے، مکمل خاموشی، شہر خاموشاں جیسی!

کیا اُن نوجوان پاکستانیوں کے ماں باپ کیلئے کوئی تسلی ہے جن کہ لخت جگر ایک بہتر مستقبل کی آس میں کبھی کسی غیر ملکی سرحد کو عبور کرتے ہوئے گولیوں کا نشانہ بن گئے یاپھر غیر قانونی طور پر بے رحم انسانی سمگلروں کی کمزور کشتیوں میں سمندر ی مخلوق کا رزق ٹھہرے،جو بچ گئے وہ سہانے مستقبل کے سپنے آنکھوں میں سجائے کنٹینروں میں دم گھٹنے سے خالق حقیقی کو جا ملے۔ کیا جلا وطنی صرف یہی ہے کہ آپ کو جبر کی بنیاد پر وطن چھوڑنے پر مجبورکردیا جائے یا اسے بھی جلا وطنی ہی کہا جائے گا جب آپ کی اپنی زمین آپ کی ضروریات کا سامان پیدا کرنا بند کردے۔ ہمیں پاکستان نوجوانوں میں مکالمے کی روایت کوجنم دینا ہو گا تاکہ وہ ایک دوسرے کی بات کو سمجھ سکیں اور اس کیلئے پر امن ماحول مہیا کرنا اس ریاست کی ذمہ داری تھی جو آج تک پوری نہیں کی گئی جس کی وجہ سے ہر شخص اپنی ڈیرھ اینٹ کی مسجد الگ بنا کر بیٹھا ہے۔

نوجوانوں کے علم میں ہونا چاہیے کہ ترقی سے مراد مربوط ترقی ہوتا ہے جو ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں ہم  نے نوجوانوں کے ہاتھ میں ایک تواتر اور تسلسل کے ساتھ ڈگریاں تھما دیں لیکن یہ نہیں سوچا کہ ان کیلئے روز گار کے مواقع بھی پیدا کرنے ہیں۔ بالکل اُسی طرح جیسے الیکٹرونکس کو ہم  نے عام کر دیا اور ایک میگا واٹ بجلی پیدا نہ کی یا پھر بنکوں نے سود کی لالچ میں اُن لوگوں کو بھی گاڑیاں دے دیں جن کو کوئی محلے میں ادھار نہیں دیتا تھا لیکن کسی نے یہ نہیں سوچا کہ ان گاڑیوں کے چلنے کے لیے پیٹرول، ڈیزل، گیس اور سٹرکیں درکار ہیں، جس کا کوئی نام و نشان تک نہیں تھا اور صورت حال آج آپ کے سامنے ہے کہ دنیا ٹریفک اور اندھیرے میں پھنسی پاکستانی قوم پر ہنس رہی ہے۔ یہ سب کچھ بُری حکومت کی نہیں بلکہ عدم ِ حکومت کی نشاندھی کر رہی ہے۔ ایسے میں پاکستان کے نوجوانوں کا مستقبل کیا ہو سکتا ہے؟ کل کے پاکستان کا نقشہ انہیں نوجوانوں کے پاس ہے جن کی تربیت کی طرف کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ میاں محمد نواز شریف ایک بار پھر پاکستان تشریف لا چکے ہیں۔ اب نوجوانوں کے دماغوں میں نواز شریف کی وہی تصویر ہے جو عمران نیازی نے بٹھا دی ہے اور عمران نیازی کی صادق و امین کے بعد آنے والے دوسری تصویر میڈیا روزانہ دکھا رہا ہے سو کل کا پاکستان کیا ہو گا یہ سمجھنے کیلئے زیادہ عقل کی ضرورت نہیں۔

تبصرے بند ہیں.