میاں صاحب نے جب اپنی آمد کا اعلان کیا تو رائے کی بنیاد پر نہیں بلکہ خبر کی بنیاد پر یہ بات کہی گئی کہ میاں نواز شریف پاکستان نہیں آ رہے دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ بات کسی ایک فرد کی جانب سے نہیں بلکہ ایک سے زائد نامی گرامی اینکرز کی جانب سے کہی گئی اور تواتر کے ساتھ کہی گئی اور اس مستحکم لب و لہجہ میں کہی جاتی رہیں کہ نواز لیگ کو چیلنج کیا گیا کہ میاں صاحب نہیں آ رہے بہرحال جن رکاوٹوں کی وجہ سے میاں صاحب کی آمد کو مشکوک بنا کر عوام کے سامنے پیش کیا جا رہا تھا وہ تمام مشکلات جمعرات کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے دور ہو گئیں اور ان کی حفاظتی ضمانت بھی منظور ہو گئی اور 24 تاریخ تک انھیں گرفتار نہ کرنے کا حکم بھی دے دیا گیا ۔معزز عدالت کے اس حکم پر حسب توقع تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کی جانب سے فوری طور پر واویلا شروع کر دیا گیا حالانکہ جس طرح فقط چند ماہ پہلے تک تحریک انصاف کے چیئرمین کو تھوک کے حساب سے ضمانتیں ملتی رہی ہیں اور آٹھ آٹھ نو نو کیسز میں 10 منٹ کے اندر ضمانتیں دی گئیں اور ان کیسز میں بھی گرفتار نہ کرنے کے احکامات دئیے گئے کہ جو ابھی درج بھی نہیں ہوئے تھے تو ان ناقابل تردید حقائق کی روشنی میں کم از کم تحریک انصاف کے پاس تو میاں صاحب کے متعلق عدالتی فیصلوں پر تنقید کرنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں ہے۔
اس سے قطع نظر کہ آنے والے دنوں میں میاں صاحب کے متعلق عدالتیں کیا فیصلے کرتی ہیں اس وقت تو اور بہت سی باتیں اہم ہیں۔ میاں صاحب کی پاکستان آمد کے اعلان کے وقت جس بیانیہ کو بنیاد بنایا گیا اس میں کئی قباحتیں تھیں ایک تو دو سابق ہی سہی لیکن جنرلز کے احتساب کو مقتدر قوتیں کبھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتی اور پھر ایک حاضر سروس جج جو کہ ہونے والے چیف جسٹس ہیں ان کے متعلق احتساب کے نعرے سے کہ جو آئینی اور قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے ممکن بھی نہیں تھا کوئی بہتر آپشن نہیں تھے اور خاص طور پر اس صورت حال میں کہ جب شدید مہنگائی کی وجہ سے عوام کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہو چکا ہو تو ایسے میں معاشی صورت حال کو بہتر بنانے سے زیادہ درست بیانیہ کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ مسلم لیگ نواز نے صورت حال کو بر وقت بھانپ کر صحیح فیصلہ کیا لیکن ملک کی معاشی صورت حال جس قدر مخدوش ہو چکی ہے اس میں صرف بیانیہ بنانے سے بات نہیں بنے گی بلکہ اس کے لئے عوام کو ایک انتہائی ٹھوس معاشی روڈ میپ دینا ہو گا کہ جسے عوام سمجھ بھی سکیں اور اس کی افادیت کے قائل بھی ہو جائیں۔ اس لئے کہ معاشی بیانیہ کے فقط اعلانات سے عوام نہ متاثر ہوں گے اور نہ انھیں کوئی فرق پڑے گا کیونکہ مسلم لیگ نواز کے لئے اس بات کو سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ وہ جو بھی بیانیہ دے گی اس بیانیہ کے منفی اور مثبت پہلوؤں پر سوشل اور الیکٹرانک پر ہر زاویہ سے بات کی جائے گی لہذا یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ انتہائی متحرک سوشل اور الیکٹرانک میڈیا کی موجودگی میں عوام کو ماموں نہیں بنایا جا سکتا۔
میاں صاحب کی آمد کے ساتھ ہی ایک بات تو واضح ہو جائے گی کہ انتخابات جنوری یا فروری میں ہو جائیں گے اس لئے کہ میاں صاحب لندن کی ٹھنڈی ٹھار فضاؤں میں مزے سے رہ رہے تھے تو کیا ضرورت تھی اتنا بڑا رسک لینے کی۔ اس لئے کہ جس طرح پنجابی میں کہا جاتا ہے کہ ”بندے دا کوئی پتا لگدا“ تو اسی طرح پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا بھی کوئی پتا نہیں لگتا کہ کب باجوہ صاحب کس کی طرف داری کر دیں۔ اس حوالے سے مسلم لیگ نواز کے لئے ہمارا ایک نہایت ہی قیمتی مشورہ ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ہونے کے تاثر کو ختم کریں کیونکہ ملک میں جو ماحول ہے اس میں اس تاثر سے سیاسی میدان میں فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہونے کے امکانات ہیں۔ دوسرا اس سے خود نواز لیگ کے اپنے بیانیہ پر زد پڑے گی کہ کیا مسلم لیگ نواز اسی ماحول میں اور اسی طرح اقتدار میں آنا چاہتی ہے کہ جس طرح 2018 میں تحریک انصاف حکومت میں آئی تھی اور یہ تاثر کسی بھی طرح نواز لیگ کے لئے سود مند ثابت نہیں ہو گا۔ کچھ ضرورت سے زیادہ عقل مند تو سوشل میڈیا پر با خبر ذرائع کے حوالے سے یہ خبریں بھی دے رہے ہیں کہ میاں صاحب کو واپسی پر وزیر اعظم کا پروٹو کول ملے گا۔ اگر ایسا ہوا تو یہ امر نواز لیگ کے لئے تو برا ہو گا ہی لیکن پاکستان کے لئے بھی کسی المیہ سے کم نہیں ہو گا۔میاں صاحب پاکستان کے سابق وزیر اعظم ہیں اور وہ تین مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں انھیں قانون کے مطابق یقیناً پروٹوکول ملنا چاہئے اور یہ ان کا حق بنتا ہے لیکن جہاں تک وزیر اعظم کے پروٹوکول کا تعلق ہے تو اگر ایسا کیا گیا تو پھر اعتراض کرنے والوں اور انگلیاں اٹھانے والوں کو کوئی روک نہیں پائے گا۔ ایک وڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہے کہ جس میں پنجاب پولیس کے اہل کار کسی جلسے میں سٹیج پر نواز لیگ کے پوسٹر لگا رہے ہیں تو اس سے عوام میں کوئی اچھا تاثر نہیں جا رہا اور پھر ضمیر بھی اسی فتح پر مطمئن ہوتا ہے کہ جو صاف اور شفاف بھی ہو اور نظر بھی آئے لیکن اگر اسی طرح ہوتا رہا تو اس سے ایک تو انتخابات پر بہت سے سوالیہ نشان کھڑے ہو جائیں گے اور دوسرا نواز لیگ کی اپنی جمہوری جدوجہد اور سب سے بڑھ کر ان کے ووٹ کو عزت دو کے بیانیہ کو ایک زبر دست جھٹکا لگے گا اور یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ مقابلہ پر پاکستان پیپلز پارٹی نہیں بلکہ تحریک انصاف ہے جو میڈیا کی جنگ میں سفید جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لہٰذا پاکستان کی بقا، جمہوریت کی مضبوطی اور پاکستان کے مسائل کے حل کے لئے جمہوری اقدار پر عمل ہی ایک حل ہے اس سے ہٹ کر اگر کچھ ہوا تو مسائل حل نہیں ہوں گے بلکہ ملک و قوم مزید مسائل کی دلدل میں دھنسے چلے جائیں گے۔
تبصرے بند ہیں.