سابق وزیر اعظم نواز شریف جو اپنی مبینہ بیماری کو جواز بنا کر علاج کے لئے لندن گئے تھے آج واپس پاکستان تشریف لا رہے ہیں، اُن کی آمد پر مجھے فراز کا مشہور زمانہ ایک شعر یاد آ رہا ہے
رنجش ہی سہی د ل ہی دُکھانے کے لئے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ
بظاہر تو یہ دکھائی نہیں دیتا ایک بار پھر ایسے حالات پیدا ہو جائیں گے، اچانک کوئی نئی بیماری اُنہیں گھیر لے اور اُسے جواز بنا کر ایک بار پھر اپنے گھر کی لونڈیوں ”قانون و عدلیہ“ سے ساری رعایتیں لے کر وہ دوبارہ لندن فرار ہو جائیں گے، مگر یہ پاکستان ہے یہاں کچھ بھی ہوسکتاہے، کوا سفید ہو سکتا ہے، ہاتھی اُڑ سکتا ہے، مُرغا انڈہ دے سکتا ہے، ایسے کئی تماشے کئی ”معجزے“ ماضی میں ہم نے دیکھے ہوئے ہیں، پورے وثوق سے یہ بھی نہیں کہا جاسکتا میاں صاحب کے لئے میدان خالی ہے، اُن کی جماعت کے اکثر راہنما یہ جانتے ہیں جس انداز میں وہ چکمے دے کر لندن گئے، وہاں جا کر جس انداز میں وہ تندرست ہوگئے، وہاں بیٹھ کر جس طرح کی اُنہوں نے سیاست کی، خصوصاً کئی حوالوں سے پاکستان کو شدید نقصان پہنچانے والے جنرل قمر جاوید باجوہ کی ایکسٹینشن کی اُنہوں نے حمایت کی، اور اس حمایت کے صلے میں پاکستان میں اپنی حکومت قائم کی، اپنے بھائی کو وزیراعظم بننے کی اجازت دی، پھر جو پرفارمنس اُن کے وزیر اعظم بھائی نے دکھائی، مہنگائی اور لاقانونیت کی جو نئی تاریخیں رقم کیں، جو کھلواڑ آئین کے ساتھ کھیلے، ان سب واقعات کی روشنی میں نواز شریف کی واپسی پر عوام کی طرف سے کوئی بڑی پذیرائی اُنہیں ملنے والی نہیں ہے، اُن کے استقبال کے لئے عوام کو تیار کرنے کے لئے بے چارے لیگی راہنما یا نون لیگ کی ٹکٹ کے خواہش مند جہاں جاتے ہیں اُنہیں بدترین شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، وہ تسلیم کریں نہ کریں اس مسلمہ حقیقت کو وہ جان ضرور چکے ہیں اس کے باوجود کہ مُلک میں غُربت اور بھوک بہت بڑھ چکی ہے قیمے والے نانوں اور بریانی وغیرہ کے روایتی دھوکے عوام کو اتنی آسانی سے اب نہیں دئیے جاسکتے، چنانچہ لیگیوں کو ایک نیا بیانیہ بنانا پڑ رہاہے، لوگوں کو ایک نئی لالچ دی جا رہی ہے کہ نواز شریف کا استقبال کرنے والے سیدھے جنت میں جائیں گے“، نواز شریف اس بیانیے پر یقیناً خوش ہی ہوئے ہوں گے کیونکہ وہ جان چُکے ہیں عمران خان ”مذہبی ٹچ“ کا فائدہ اُٹھا سکتا ہے وہ کیوں نہیں اُٹھا سکتے پاکستان میں جتنا لوگوں کو مذہبی بنیادوں پر بے وقوف بنایا جا سکتاہے شاید ہی اور کسی معاملے میں بنایا جاسکتا ہو، اب نواز شریف کی وطن واپسی کے بعد ہی دُنیا کو یہ پتہ چلے گا پاکستان میں کتنے لوگ جنت میں جانا چاہتے ہیں اور خان صاحب کی حمایت جاری رکھ کے یا نواز شریف کا استقبال نہ کر کے کتنے دوزخ میں جانا چاہتے ہیں؟ لوگوں کی اکثریت نے جنت میں جانے کا یہ آخری و سنہری موقع اگر گنوا دیا ساری عمر وہ پچھتاتے رہیں گے، میں خود یہ سوچ رہاہوں اُن کے استقبال کے لئے ضرور جاؤں، چلیں جنت اگر نہ بھی ملی جنت مرزا تو وہاں مل ہی جائے گی، پہلے ہم نے سُنا تھا جنت ماں کے قدموں میں ہوتی ہے اب پتہ چلا نواز شریف کے استقبال میں ہوتی ہے۔۔ نواز شریف کی وطن واپسی سے مُلک میں پتہ نہیں کوئی سکون ہوتاہے یا نہیں؟ لندن میں جہاں اُن کی رہائش گاہ تھی وہاں تھوڑا بہت سکون اب ضرور ہو جائے گا کہ اُن کی وہاں موجودگی سے روزانہ جو تماشے یا مظاہرے اُن کے حق میں یا خلاف ہوتے تھے اب عارضی یا مستقل طور پر شاید بند ہوجائیں، البتہ کچھ ”ٹک ٹاکروں“ کا ”کاروبار“ ضرور ٹھپ ہو جائے گا، اُن بے چاروں کا صبح و شام بس ایک ہی کام تھا باہر کھڑے ہو کر چور چور کے نعرے لگائیں اور طُوفان بدتمیزی برپا کر کے یہ ثابت کر دیں جو تربیت خان صاحب اُن کی کرتے رہے ہیں اُس کا خمیازہ اب اڈیالہ جیل میں بے یار و مددگار پڑے وہ ٹھیک بُھگت رہے ہیں، میں سوچ رہا ہوں بے چارے شایان علی کے ٹک ٹاک کا کاروبار تو نواز شریف کے لندن سے جانے کے بعد بالکل ہی تباہ ہو جائے گا، پاکستان اور عمران خان سے اُسے اگر سچی محبت ہے اُسے چاہئے وہ اب پاکستان تشریف لے آئے اور جو کام وہ لندن میں نواز شریف کے گھر کے باہر کرتا تھا اب لاہور میں نواز شریف کے گھر کے باہر شروع کر دے، اسی بہانے اُسے اپنی دلیری و بہادری صحیح معنوں میں جانچنے کا موقع بھی مل جائے گا، ویسے مستقبل میں اگر اس مْلک کے اصلی و مستقل حکمرانوں کو ضرورت محسوس ہوئی وہ اس کام کے لئے اُسے خود بُلا لیں گے، طاہر القادری اب بُڈھے ہوگئے ہیں، جو کام اُن سے لیا جاتا رہاہے شایان علی سے بھی لیا جا سکتا ہے کہ جوان اب بُڈھوں سے زیادہ مقبول ہیں، طاہر القادری کے مُتبادل کے طور پر شایان علی اچھا رہے گا، جیسے بہت سے معاملات میں بلاول بھٹو زرداری کے متبادل کے طور پر ایان علی بہت اچھی رہے گی۔۔ بعض بے وقوف لوگ یہ سمجھتے تھے نواز شریف کو وطن واپسی کا راستہ کسی نئے جال میں پھنسانے کے لئے دکھایا ہے، اب تک کے حالات کے مطابق وہ کسی غلط فہمی کا شکار ہیں، عدلیہ میں اُن کے لئے نئے سہولت کاروں کا بندوبست فرما دیا گیاہے، اُن کی حفاظتی ضمانتیں منظور ہو رہی ہیں، مستقبل قریب میں ممکن ہے کچھ نئی سہولتیں بھی اْنہیں مل جائیں، اُن کے کیسز ویسے ہی ختم ہو جائیں جیسے بنائے گئے تھے، یہ ”سہولتیں“ اگر نواز شریف اور زرداری کو بار بار دی جا سکتی ہیں ہو سکتا ہے کل کلاں خان صاحب کو بھی دینی پڑ جائیں سو پی ٹی آئی کے کچھ ڈٹے یا بچے ہوئے لوگوں کو مستقل طور پر نا اُمید ہونے کی فی الحال کوئی ضرورت نہیں، 1999 کی”بارہویں شریف“ یعنی 12 اکتوبر کو جنرل مشرف نے نواز شریف کا اقتدار جب لُوٹا اور اُس کے بعد اُنہیں مُلک بدر کیا اُس وقت تقریباً پُورا پاکستان اُس یقین میں مُبتلا ہو گیا تھا یہ اب کبھی اقتدار میں نہیں آئیں گے، پھر سب نے دیکھا ایسے حالات پیدا ہوئے 2013 کے الیکشن میں اُنہیں دوبارہ اقتدار میں لانا مجبوری بن گیا، اُس کے بعد پھر اُنہیں نکالا گیا، اب پھر لایا جا رہا ہے، ہمارے اکثر سیاستدان باقاعدہ بندر بنے ہوئے ہیں، دُور کہیں ڈگڈگی کی ہلکی سی آواز اُنہیں سُنائی دے فوراً ناچنے لگتے ہیں، سو وقت حالات اور مجبوریوں کے مطابق اگر نواز شریف کو بار بار اقتدار میں لایا جا سکتا ہے، عمران خان کو کیوں نہیں لایا جا سکتا؟ یہ الگ بات ہے جو تماشے خان صاحب نے کئے بظاہر اپنے اقتدار کے سارے دروازے اُنہوں نے بند کر لئے ہیں، اُن کے پاس اب صرف ایک ”بہشتی دروازہ“ ہی کُھلا رہ گیا ہے، وہاں تک بھی رسائی اُنہیں نہیں دی جا رہی۔۔ جہاں تک نواز شریف کا تعلق ہے اُن کے حامی ہمیشہ اُنہیں ”شیر“ قرار دیتے رہے ہیں، نون لیگ کا انتخابی نشان بھی شیرہے،ہم نے یہ محاورہ سُنا تھا ”کس شیر کی آمدہے کہ رن کانپ رہاہے“ اب جو شیر بلکہ ”بُڈھا شیر“ آ رہا ہے اُس کی آمد پر صرف ”رن وے“ ہی کانپ جائے بڑی بات ہے، اُن کا حال اْس ”دلہن“ جیسا ہے جو تین بار سُسرال سے ذلیل ہو کر نکلنے کے بعد ایک بار پھر”تسمے“ باندھنے یا پالش وغیرہ کرنے واپس سُسرال جانا چاہتی ہے، میاں بیوی و سُسرال وغیرہ راضی تو کیا کرے گا قاضی؟ سوائے حفاظتی ضمانتیں دینے کے۔۔
توفیق بٹ
تبصرے بند ہیں.