انبیاء کی سرزمین – ارضِ فلسطین 1948ء سے اسرائیلی صیہونی بربریت کی وجہ سے دنیا کی سب سے بڑی مقتل گاہ بنی ہوئی ہے جہاں ہر روز فلسطینی نوجوانوں، خواتین، بچوں کے جنازے اُٹھائے جاتے ہیں، جبکہ انسانی حقوق کے علمبردار نام نہاد عالمی ادارے، اقوامِ متحدہ اور مغربی ممالک اِس صیہونی اسرائیلی بربریت کے سامنے نہ صرف بے بس ہیں بلکہ برملا اُن کی حمایت کا اعلان کرتے چلے آرہے ہیں۔ رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہو، جمعۃالمبارک کا مقدس دن ہو یا کوئی اور مقدس اسلامی تہوار، کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب نہتے فلسطینی عوام اسرائیلی بربریت کا نشانہ نہ بنتے ہوں۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے اسرائیلی سکیورٹی اہلکاروں کیساتھ فلسطینی نسل کشی کی اس مہم میں فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرکے قائم کی جانے والی غیرقانونی صیہونی بستیوں کے رہائشی بھی شامل ہوگئے ہیں، اور موقع پاتے ہی وہ بھی اس ظلم و بربریت میں اسرائیلی سکیورٹی اہلکاروں کے شانہ بشانہ مسجدِ اقصٰی میں عبادت میں مصروف یا ناجائز صیہونی بستیوں کے قیام کے خلاف احتجاج کرنے والے نہتے فلسطینی نوجوانوں، خواتین اور بچوں پر صیہونی فوج کی سرپرستی میں حملہ آور ہوتے رہتے ہیں۔
لیکن اب کی بار ’تنگ آمد بجنگ آمد‘ کے مصداق حماس نے ناجائز اسرائیلی صیہونی ریاست کے خلاف غیر متوقع اور غیرمعمولی کامیاب آپریشن کرکے وہ سبق سکھا دیا ہے جو رہتی دُنیا تک ان کی نسلوں کے ذہن پر نقش رہے گا۔ 07 اکتوبر 2023ء کو علی الصبح غزہ سے حماس مجاہدین کے شہید عزالدین القسام بریگیڈ نے ”طوفان الاقصٰی“ نامی آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں کی طرف ہزاروں میزائلوں کی ایسی بارش کردی جس نے پوری دُنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا۔ خود اسرائیلی حکام حیران اور سکتے میں ہیں کہ حماس نے جدید ترین اسرائیلی ڈیفنس سسٹم کو کس طرح ناکام بناکر اتنا بڑا حملہ کردیا؟ تینوں راستوں یعنی زمینی، فضائی اور بحری راستے سے ہونے والے اس غیرمتوقع حملے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق 750 صیہونی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوچکے، جبکہ سیکڑوں اسرائیلی فوجیوں / صیہونیوں سمیت اسرائیلی میجر جنرلز کو بھی حماس کے مجاہدین نے یرغمال بنا کر غزہ منتقل کردیا ہے۔ پیراگلائیڈرز کے ذریعے صیہونیوں کے زیر قبضہ فلسطینی علاقوں میں اْترنے والے القسام بریگیڈ کے مجاہدین 28 سال سے غزہ اور اسرائیلی علاقے کو تقسیم کرنے والی آہنی باڑ کوکو بلڈوزر کے ذریعے توڑتے ہوئے اسرائیل کے زیر قبضہ علاقوں میں داخل ہوئے، ڈرون حملوں کے ذریعے تباہ شدہ اسرائیلی ٹینک کو قبضے میں لیکر اسرائیلی فوجیوں کو یرغمال بنا لیا اور مزید پیش قدمی جاری رکھتے ہوئے اسرائیلی فوجی اڈوں سمیت اہم تنصیبات پر قبضہ کرلیا۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اسرائیل اپنی تمام تر فوجی قوت، ٹینکوں اور فوجوں کی ڈیپلائمنٹ کے باجود مجاہدین سے تاحال یہ علاقے واگزار کرانے میں ناکام ہے۔ شوقِ شہادت اور جذبہ ایمانی سے سرشار فلسطینی مجاہدین کی اس غیرمعمولی اور غیر متوقع کامیابی پر ملتِ اسلامیہ میں خوشی اور اُمید کی لہر دوڑ گئی ہے۔ خود یہ دلیر مجاہدین پوری قوت اور دلیری کیساتھ اللہ اکبر کے نعرے لگاتے ہوئے اسرائیلی ٹینکوں، جنگی طیاروں اور مشین گنوں کا نہ صرف کامیابی سے مقابلہ کر رہے ہیں بلکہ برملا کہہ رہے ہیں کہ وہ دن آ گیا جس کا ہمیں برسوں سے انتظار تھا۔ جوابی کارروائی میں بزدل اسرائیل نے جنگی طیاروں کے ذریعے غزہ شہر کے رہائشی عمارتوں، خان یونس میں مسجد، نیز سکولز، ہسپتالوں سمیت پبلک مقامات کو نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں کم و بیش 500 سے زائد فلسطینی نوجوانوں، خواتین، بچوں اور بزرگوں نے جامِ شہادت نوش کیا، جبکہ 22 سو کے قریب فلسطینی زخمی ہیں۔ غزہ پر اسرائیل کی اس وحشیانہ بمباری کے نتیجے میں سیکڑوں مکانات اور میڈیا سینٹر بھی زمین بوس ہوگئے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف تاحال مجاہدین اسرائیل کی گلی کوچوں میں صیہونی قابض افواج کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق القسام بریگیڈ کے مجاہدین نیاسرائیل کے زیر قبضہ شہر عسقلان اور بن گوریون ہوائی اڈے پر بڑے راکٹ حملے کیے ہیں۔ حماس نے قابض صہیونی فوج کے خلاف فلسطینی مزاحمتی تحریک کی اب تک کی سب سے بڑی اور کامیاب کارروائی کر کے اسرائیل کو ذلت آمیز شکست سے دوچار اور صہیونی فو ج کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے کو ملیا میٹ کر دیا ہے۔ جوابی کارروائی میں غزہ کے رہائشی علاقوں پر اسرائیلی جنگی طیاروں کی وحشیانہ بمباری کیساتھ ساتھ ٹینکوں اور زمینی دستوں کے ذریعے غزہ کا محاصرہ کرکے نہتے شہریوں کے قتلِ عام کا سلسلہ جاری ہے۔ اس وحشیانہ اسرائیلی بمباری اور قتلِ عام کے خلاف پوری دنیا میں بڑی تعداد میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے ہیں۔ امریکا، فرانس، جرمنی سمیت متعدد یورپی ممالک نے ایک مرتبہ پھر ناجائز اسرائیلی ریاست کی حمایت کا اعلان دوہرایا ہے۔ ایران، لبنان، افغانستان، شام، کویت وغیرہ نے کھل کر فلسطینی عوام کی حمایت کی ہے، جبکہ پاکستان، سعودی عرب، ترکیہ، چین، روس نے محتاط انداز میں فلسطین کی حمایت کیساتھ بین الاقوامی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اس دیرینہ مسئلہ کو حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اس معاملے پر اقوامِ متحدہ کی طرف سے بلایا گیا سلامتی کونسل کا بند کمرے کا اجلاس بھی بغیر کسی متفقہ قرارداد یا فیصلے کے ختم ہوگیا ہے۔
انبیاء کی سرزمین پر ناجائز اسرائیلی ریاست کا وجود امت مسلمہ کے دل میں خنجر کی طرح پیوست ہے۔ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے اسرائیل کو مغرب کی ناجائز اولاد قرار دیا۔ حالیہ اسرائیلی بربریت کے خلاف کراچی سے لیکر مراکش تک پوری امت مسلمہ سڑکوں پر نکل کر سراپا احتجاج بن گئی۔ اسرائیل کے خلاف لندن میں بھی بھرپور مظاہرہ اور احتجاج کیا گیا۔ وسطی لندن کی فضا آزاد فلسطین اور تکبیر کے نعروں سے گونج اٹھی۔ مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ اسرائیل سے انسانی جانوں کے ضیاع کا حساب لیا جائے اور اسرائیل کو دہشت گرد قرار دیا جائے۔ ادھر پاکستان میں بھی اسلام آباد، پشاور، لاہور، کوئٹہ اور کراچی میں بھی اسرائیلی جارحیت کے خلاف بڑے بڑے مظاہرے اور احتجاج منعقد ہوئے جس میں تقریباً تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف اور فلسطینیوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا۔ امیر جماعتِ اسلامی پاکستان سراج الحق نے اپنے فلسطینی بہن، بھائیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے ہفتہ فلسطین منانے کا اعلان کیا ہے۔ 15 اکتوبر 2023ء کو جماعتِ اسلامی کراچی کے تحت شاہراہِ فیصل پر ’الاقصٰی ملین مارچ‘ ہوگا جس میں تمام مکاتبِ فکر سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام و مشائخِ عظام، سیاسی جماعتوں کے قائدین، وکلاء برادری، تاجر، ڈاکٹرز، انجینئرز، صحافی، سول سوسائٹی ارکان سمیت مختلف شعبہ ہائے زندگی کے افراد بھرپور شرکت کریں گے۔
غاصب اور ناجائز اسرائیلی صیہونی ریاست کے خلاف حماس کی اس تاریخ ساز اور کامیاب کارروائی نے ایک مرتبہ پھر قرآن مجید کی اس آیتِ مبارکہ کی حقیقت کو سچ ثابت کردِکھایا ہے کہ
بارہا ایسا ہوا ہے کہ ایک قلیل گروہ اللہ کے اِذن سے ایک بڑے گروہ پر غالب آگیا ہے۔ اور اللہ صبر کرنے والوں کا ساتھی ہے (البقرۃ: 249)
انشاء اللہ! اہلِ ایمان کے خلاف شیطان کا ہر حربہ ناکام و نامراد ہوگا اور کفر کی قوتوں کو ذلت ورسوائی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ بدقسمتی سے آج دنیا کے کم و بیش 58 مسلم ممالک کے حکمرانوں نے غلامی کی طوق گلے میں ڈال کر اُمتِ مسلمہ کی قیادت سے خود کو دستبردار اور الگ تھلگ کرکے رکھا ہوا ہے۔ تاہم عوامی سطح پر ملتِ اسلامیہ کا ہر ہر فرد اور باضمیر، امن پسند غیر مسلم اقوام بھی ناجائز صیہونی ریاست کی اس ظلم و بربریت کے خلاف اہلِ فلسطین کے ساتھ اپنی بھرپور یکجہتی کا اظہار کر رہے ہیں۔
جب تک اُمتِ مسلمہ کا ایک فرد بھی زندہ ہے انبیاء کی مقدس سرزمین فلسطین پر اسرائیل کا ناجائز قبضہ کسی بھی قیمت پر برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اسلامی ممالک کے حکمران بھی اب دینی غیرت اور حمیت کا مظاہرہ کریں اور اسرائیل سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کی بجائے اس کی انسانیت سوز جارحیت اور فلسطینی نسل کشی کے خلاف متحد و متفق ہوکر عملی اقدامات کریں۔ قبلہ اول کی آزادی اور ارضِ فلسطین پر اسرائیل کے ناجائز غاصبانہ قبضے کے خاتمے کے لیے اُمت مسلمہ کے حکمرانوں کو فیصلہ کن کردار ادا کرنا ہوگا، وگرنہ تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو اپنے مقدس گھر خانہ کعبہ کی حفاظت ابابیلوں کے ذریعے کرنے والا اللہ تعالیٰ اس بات پر قادر ہے کہ وہ اِسی بظاہر ناتواں اور کمزور فلسطینی عوام سے ہی یہ کام لے کر ابرہہ کے فوج کی طرح صیہونیوں کو بھی نیست و نابود کردے۔ دورِ جدید کی جنگوں کا سبق تو یہی ہے کہ بے سر و سامانی کے باوجود افغان عوام نے جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہزار گنا بڑے دشمن نام نہاد ’سپر پاور‘ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کرکے یہ ثابت کردیا کہ جنگیں عددی اکثریت یا ٹیکنالوجی سے نہیں بلکہ جذبہ ایمانی سے جیتی جاتی ہیں۔
قبلہ اول کی آزادی کے لیے جہاد کرنا پوری امت پر فرض ہے۔ ناجائز اسرائیلی صیہونی غاصبوں کے خلاف اہلِ غزہ کے مجاہدین، شہداء اور زخمیوں کا پیغام یہی ہے کہ قبلہ اول کی حفاظت کے لیے اُمتِ مسلمہ کا بچہ بچہ اْن کا ساتھ دے۔ سعودی عرب سمیت بعض مسلم ممالک کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کی گھناؤنی سازش ختم کی جائے، اہلِ عرب و عجم اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے اُن کی مدد کے لیے میدانِ عمل میں کُود جائیں۔ انشاء اللہ اب وہ وقت آگیا ہے کہ فلسطین اور کشمیر اگر اقوامِ متحدہ یا او آئی سی کی قرار دادوں سے نہیں تو اُمتِ مسلمہ کے اتحاد سے ضرور آزاد ہوگا۔
تبصرے بند ہیں.