ریاست بنام عمران خان

132

کہتے ہیں کہ نومئی کے واقعات کے نامزد ملزم عمران احمد خان نیازی اپنے اوپر فرد جرم سے انکار کرتے ہیں اور صفائی میں دو بڑے دلائل دیتے ہیں،ا ول، جس وقت یہ واقعات ہوئے وہ گرفتاری کی حالت میں تھے، دوم، جی ایچ کیو سے شہدا کی یادگاروں تک پر حملوں سے انہیں نقصان ہوا، فائدہ ان کے سیاسی مخالفین بالخصوص نون لیگ نے اٹھایا، حملے ایک سازش تھے لہٰذا وہ بے گناہ ہیں۔

ہمیں عمران احمد خان نیازی کے موقف کوان کے ماضی، حالات، قانون، روابط، مؤقف اور شواہد کی روشنی میں دیکھنا ہو گا اور جاننا ہوگا کہ اگر ریاست انہیں ملزم سمجھ رہی ہے تواس کی بنیاد کیا ہے۔ یہ الزام صداقت عباسی ہی نہیں بلکہ بہت سارے دوسرے گواہوں کے بیانات کی روشنی میں ثابت ہوچکا کہ گرفتار ہونے کے باوجو دان تمام واقعات کی منصوبہ بندی انہوں نے ہی کی(بلکہ اگلے مرحلے میں ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کا نام بھی سامنے آ گیا ہے)۔ ان حملوں کو انہوں نے اپنی رہائی کے بعد خطاب اور گفتگو میں خود ہی یہ کہتے ہوئے جواز دیا کہ جب ان کو وردی والوں نے گرفتار کیا تو کیا ردعمل کہیں اور ہونا تھا یعنی وہ ان حملوں کی نوعیت اور مقاصدسے متفق تھے جسے اعتراف جرم کا درجہ بھی دیا جا سکتا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ملزم عمران احمد خان نیازی اس منصوبہ بندی کی اہلیت رکھتے تھے تو اس کا جواب ہے کہ تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے محروم ہونے کے بعد وہ ریاستی اداروں کے سربراہوں اور افسران پر سیاسی حملوں کی سوچی سمجھی حکمت عملی اپنائے ہوئے تھے اور اپنی تقریروں میں میر جعفر، میر صادق اور ڈرٹی ہیری جیسے الفاظ استعمال کر کے اپنے فالوورز کی ایک خاص ذہنی تربیت کررہے تھے۔ ان کے بیرون ملک موجود فالوورز کی سرگرمیوں کو بھی استغاثے کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے جو افسران کی تصویروں تک کو نشانہ بنا رہے تھے۔ یہ امر ہر کسی پر واضح ہے کہ ملزم عمران احمد خان نیازی اپنے مخالفین کے خلاف انتہا پسندانہ رویوں کے حامل ہیں اور ان کے بطور سیاستدان اور بطور حکمران روئیے اس امر کی گواہی دیتے ہیں کہ وہ گفتگو سے عمل تک میں اعتدال اور توازن سے محروم ہیں۔ انہوں نے سیاسی مخالفت کو ذاتی دشمنی کا درجہ اور تعلیم دی اور یہی فطرت نو مئی کے واقعات میں کارفرما نظر آتی ہے۔

ملزم عمران احمد خان نیازی کے پاس دوسری دلیل یہ ہے کہ اس واقعے کا فائدہ مسلم لیگ نون نے اٹھایا اور یہ کہ حملے ایک سازش تھے۔ یہ بات اس حد تک تو درست ہے کہ ایک سیاسی رہنما کی غلطیوں کا فائدہ ہمیشہ اس کے مخالفین ہی اٹھاتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ملزم عمران احمد خان کے نیازی اپنے تئیں سمجھ رہے تھے کہ وہ پاکستان بدلنے اور ایک نئی تاریخ لکھنے جا رہے تھے۔ ان کے پاس درست یا غلط اطلاعات تھیں کہ ادارے کے اندر سے انہیں وسیع حمایت حاصل ہے۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاوسز پر ان کے لوگ قبضے کر لیں گے اور وہ پاکستان کی تاریخ میں اردوان بن کے سامنے آئیں گے۔ انہوں نے یہ بیانیہ اس حد تک اپنی پارٹی کے اندر پہنچا دیا تھا کہ ان کے بلوائیوں کی اکثریت ان جذبات کا برملا اظہار کر رہی تھی۔ جناح ہاؤس سے لوٹ مار کرنے والوں کے بیانات سن لیجئے، وہ اسے اپنے باپ کی جاگیر قرار دے کرہی لوٹ مار کر رہے تھے۔ اب حقیقت یہ ہے کہ ملزم عمران احمد خان نیازی جرم تو کر لیا مگر اس کے ذریعے جو فائدہ وہ اٹھانا چاہتے تھے وہ نہیں اٹھا سکے۔ اب وہ کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچ رہے ہیں۔وہ دلیل دیتے ہیں کہ ان کے کارکنوں کا راستہ کیوں نہیں روکا گیا اور اسی دلیل میں اس کا جواب موجود ہے کہ وہ بہت ساری لاشیں بھی چاہتے تھے جنہیں وہ امریکہ اور اسرائیل کی لابنگ فرموں کے ذریعے دنیا کے سامنے بیچ سکیں۔سچ تو یہ ہے کہ انتظامیہ اور فوج نے واقعی ایک میچور رسپانس دیا اور انہیں منصوبہ بندی کے مطابق لاشیں نہیں مل سکیں۔فائدے کا سوال ایسے ہی ہے کہ ایک قاتل کسی دشمن کو قتل کر دے اور کہے کہ مجھے نہ پکڑو، اس کی اولادکو پکڑو کہ اسے وراثت کی صورت فائدہ ہو رہا ہے۔

معاملہ اتنا سیدھا سادا بھی نہیں کہ ایک سیاسی رہنما کی حکومت جانے یا گرفتاری پر احتجاج ہوا بلکہ سیاسی رہنما کا ذاتی پس منظر دیکھنا بھی ضروری ہے۔ عمران احمد خان نیازی نے جو ریاست کے ساتھ جوکچھ کیا اس کے بارے ملک و ملت کا درد رکھنے والے حکیم محمد سعید، ڈاکٹر اسرار احمد اورعبدالستار ایدھی برسوں بلکہ عشروں پہلے ہی بتا چکے تھے، افسوس، ان کی باتیں نظرانداز کی گئیں۔ ہمیں اس معاملے کی تحقیق و تفتیش میں یہ بھی دیکھنا ہوگا کہ وہ کون سی قوتیں ہیں جو پاک فوج کو نیچا دکھانا چاہتی ہیں، اس کا قوم کے ساتھ رشتہ توڑنا چاہتی ہیں تو ہمیں دو ہی بڑے نام اسرائیل اور انڈیا ملتے ہیں۔ اب یہ محض اتفاق ہے کہ ان دونوں کے ساتھ عمران احمد خان نیازی کا بلاواسطہ یا بالواسطہ تعلق ثابت شدہ ہے۔ اسرائیل کے طاقتور یہودیوں کے ساتھ ان کے خاندانی تعلقات ہیں۔ یہ تعلقات ایسے ہیں کہ اب ان کی اولاد بھی ان کے پاس ہی ہے اور مجھے کہنے میں عار نہیں کہ انسان اپنی اولاد کے لئے بہت کچھ کر جاتا ہے۔ دوسرا نام ہندوستان کا ہے۔ انکشاف ہوا ہے کہ ملزم عمران احمد خان نیازی کے واٹس ایپ گروپ میں پالیسی گائیڈ لائنز دینے والا فوجی بھگوڑا عادل راجا را کے ایجنٹوں سے گائیڈ لائنز لیتا تھا۔ ملزم عمران احمد خان نیازی اپنے ٹوئیٹر گروپ میں اس کی گائیڈ لائنز شیئر کرتے تھے جس کے بعد پوری پارٹی وہی لائن لیتی تھی۔ عادل راجا کے ذریعے ایک خوفناک ٹرائیکا سامنے آتا ہے یعنی ایک طرف وہ عمران احمد خان نیازی جو جی ایچ کیو پر حملہ کرواتا ہے بیچ میں عادل راجا اور دوسری طرف بھارت کی خفیہ ایجنسی را۔

ملزم عمران احمد خان نیازی کے خلاف نو مئی کے واقعات میں ریاست کا مقدمہ ہر حوالے سے مضبوط ہے کہ اگر قانونی حوالہ دیکھا جائے تو سیاسی جماعتیں پرتشدد سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہوسکتیں مگر ملزم کے لئے اس کی پارٹی نے زمان پارک لاہور سے اسلام آباد تک ہر جگہ ریڈ لائن عبور کی۔ پولیس سمیت دیگر سیکورٹی فورسز کی مزاحمت ہی نہیں بلکہ پٹرول بموں تک سے باقاعدہ حملے اس نے معمول بنا لئے تھے۔ سیاسی حوالہ دیکھا جائے تو یہ اس کے ذریعے سپہ سالار کو ہٹانا اور اپنی مرضی کا آرمی چیف لا کر اقتدار پر قبضہ چاہتا تھا مگر یہ خوفناک سازش بھی ناکام ہوئی۔ اس کے تعلقات اور روابط اسرائیل اور انڈیا سے ہیں اور امریکا سمیت دیگر ممالک سے اس کی ناجائز فنڈنگ پہلے ثابت ہو چکی ہے۔ واقعاتی شہادتیں بے شمار ہیں جو اس کے روئیے اور گفتگو سے اس کے عزائم کو آشکار کرتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ریاست پر حملہ کرنے کا ملزم عمران احمد خان نیازی ہر طرح سے شکنجے میں پھنس چکا ہے، اس کا ماضی، رویہ، حلقہ احباب اور چال چلن خود چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ یہ مجرم ہے۔

تبصرے بند ہیں.