دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔۔اگرچہ بولتا کوئی نہیں ہے

38

یہ پیارا پاکستان ہے، سیاسی اور غیر سیاسی لوگ ہیں اور پارٹی ہو رہی ہے، رہے عوام تو وہ حیران ہیں کہ کیا ہو رہا ہے، ہر طرف سوال ہی سوال ہیں، چہ میگوئیاں، سرگوشیاں مگر عملی طور پر کچھ ہوتا نظر نہیں آ رہا، عوام کے سوالات چہ میگوئیوں اور سرگوشیوں کا جواب دینے والا کوئی نہیں، صابر ظفر کی ایک غزل کے یہ شعر ہمارے ملک کی سیاسی صورت حال کی غمازی کرتے محسوس ہوتے ہیں:
دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے
اگرچہ بولتا کوئی نہیں ہے
میں ایسے جمگھٹے میں کھو گیا ہوں
جہاں میرے سوا کوئی نہیں ہے
رکوں تو منزلیں ہی منزلیں ہیں
چلوں تو راستہ کوئی نہیں ہے
یوں لگتا ہے یہاں وہ سب کچھ ہو رہا ہے جو نہیں ہونا چاہئے اور وہ سب کچھ ہوتا نظر نہیں آتا جو ہونا چاہئے۔ اس وقت ضرورت بلکہ شدید ضرورت ہے جلد از جلد انتخابات کرانے کی تاکہ ایک منتخب حکومت اقتدار سنبھال سکے  یوں ملک میں مہینوں سے جاری سیاسی غیر یقینی صورت حال کا خاتمہ ہو سکے اور کچھ کاروباری تجارتی اور سرمایہ کارانہ سرگرمیاں فروغ پا سکیں، یہ بات تو بار بار سن رہے ہیں کہ انتخابات ہونے ہیں تاہم یہ ابھی تک پتہ نہیں چل سکا کہ الیکشن کا ڈول کب ڈالا جائے گا؟

پنجاب کی نگران حکومت کو ہی لے لیں، یہ حکومت اس سال کے آغاز میں قائم ہوئی تھی اور مقصد تھا 14 جنوری کو توڑی گئی پنجاب اسمبلی کے نوے روز کے اندر اندر انتخابات کرانا لیکن باقی سب کچھ تو ہوا، انتخابات نہ ہوئے، اور یہ معاملہ محض پنجاب اسمبلی تک محدود نہیں رہا، خیبر پختونخوا اسمبلی بھی پنجاب اسمبلی کے چار روز بعد 18 جنوری کو توڑی گئی تھی اور وہاں بھی جنوری سے ہی ایک نگران حکومت کام کر رہی ہے، وہاں بھی آئینی مدت کے اندر انتخابات نہیں کرائے جا سکے، تب انتخابات نہ کرا سکنے کے سلسلے میں کئی تاویلیں وضاحتیں اور وجوہات بیان کی گئی تھیں، ان وضاحتوں کی تفصیل میں پڑیں گے تو بات لمبی ہو جائے گی اس لیے آگے بڑھتے ہیں، بس اتنا جان لیجئے کہ اس وقت کی وفاقی حکومت دو صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کے موڈ میں نہیں تھی چنانچہ وہ نہیں کرائے گئے تھے، آئین گیا بھاڑ میں، ہاں یہ ہے کہ اگر امسال اپریل میں مذکورہ دو اسمبلیوں کے الیکشن ہو جاتے تو ممکن ہے آج ملک کی سیاسی صورت حال اس سے الگ ہوتی جو اس وقت ہے، یقینی طور پر حالات مختلف ہونے تھے۔

اب حالات یہ ہیں کہ تین تین ماہ کے لیے قائم ہونے والی پنجاب اور خیبر پختونخوا کی نگران حکومتیں نو نو ماہ گزرنے کے باوجود قائم ہیں اور ضمنی انتخابات تو الگ رہے ملک بھر میں عام انتخابات کے بھی کہیں کوئی آثار نظر نہیں آتے، نگران سیٹ اپ ایک فیئر اینڈ فری الیکشن کی تیاریوں کے علاوہ باقی سب کچھ کر رہا ہے۔ نگران وزیر اعلیٰ پنجاب کبھی چین اور کبھی کسی اور ملک کا دورہ کر رہے ہیں، ہسپتالوں کے معائنے ہو رہے ہیں اور ان کی حالت بہتر بنانے کے احکامات جاری ہو رہے ہیں، تھانوں پر چھاپے مارے جا رہے ہیں اور ڈیوٹی ایمان داری سے انجام نہ دینے والوں کو سزائیں دی جا رہی ہیں، ابھی گزشتہ روز ہی نگران وزیر اعلیٰ پنجاب نے علی الصبح تھانہ ڈیفنس اے کا دورہ کیا اور تھانے کے معاملات کا جائزہ لینے کے علاوہ گداگری کے الزام میں گرفتار کئے گئے ایک شخص کو رہائی بھی دلائی، اسی روز نگران وزیر اعلیٰ نے جنرل ہسپتال لاہورکا دورہ کیا، انہوں نے کم و بیش آدھے گھنٹے تک ایمرجنسی کا معائنہ کیا، مریضوں اور تیمارداروں سے ملاقات کر کے علاج معالجے کی سہولتوں اور مفت ادویات کے بارے میں دریافت کیا اور ہسپتال کی انتظامیہ کو مریضوں کی شکایات کے فی الفور ازالے اور بروقت چیک اپ کا حکم دیا۔ مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد اور وفود سے ملاقاتیں کرنا، ان کے مسائل اور مطالبات سننا، ان مسائل کے حل کی یقین دہانی کرانا، حکومت کے انتظامی معاملات کو دیکھنا، حالات اور وقت کے مطابق مناسب فیصلے کرنا کابینہ کے اجلاس اور فیصلے مختلف سکولوں کے دورے وہاں تعلیمی معاملات کا جائزہ لینا اور احکامات جاری کرنا یہ سب بھی جناب نگران وزیر اعلیٰ کے حوالے سے روزمرہ کی خبروں کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس مختصر سی تفصیل میں جانے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ اگر حکومتی بات کی جائے تو سب ٹھیک محسوس ہوتا ہے لیکن یہ  ون مین شو لگتا ہے، پنجاب کی کابینہ کہاں ہے اور کیا کر رہی ہے اس کی کوئی خبر واضح نہیں ہوتی، جو کچھ گزشتہ نو ماہ سے ہو رہا ہے اسے دیکھا جائے تو لگتا ہی نہیں کہ وہ اور ان کی کابینہ کے لوگ ایک نگران دور کے لوگ ہیں، ان کے کام نگرانوں والے ہیں نہ پانچ سالہ حکومت والے، یہ درست ہے وزیر اعلیٰ پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں اور وہ محنت بھی کر رہے ہیں مگر محسوس ہوتا ہے کہ اکثر فیصلے وہ نہیں کرتے کہیں اور سے ہو رہے ہیں، ایسا کیوں محسوس ہوتا ہے اور کیا فیصلے واقعی کہیں اور ہو رہے ہیں، میں اس بارے میں کچھ کہنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، ایک اور بات بھی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی ہے کہ وزیر اطلاعات عامر میر کے علاوہ کوئی وزیر کم ہی نظر آتا ہے، وزیر تعلیم منصور قادر بھی متحرک رہتے تھے، شائد وہ کسی نجی دورے پر ہیں؟ افسران مجموعی طور پر اچھا کام کر رہے ہیں اور ان پر مسلم لیگ (ن) کے لوگوں  کے کام کرنے کے علاوہ کوئی دباؤ بھی نہیں ہے، کس جماعت کو کتنی لفٹ کرانی ہے یہ بیوروکریسی  نے خود بھی سمجھ لیا ہے انہوں نے آئندہ سیٹ اپ میں اچھی پوسٹنگ بھی تو لینی ہیں، جو افسر  یہ نہیں سمجھتا وہ کھڈے لائن یا او ایس ڈی، پیپلز پارٹی والے اس پر بہت پریشان ہیں جبکہ ایک بڑی جماعت والے تو ویسے ہی چھپتے پھر رہے ہیں انہوں نے سرکاری دفتروں میں کیا جانا ہے،جہاں تک پولیس کے بڑوں کا تعلق ہے تو وہ ان دنوں صرف اپنی فورس کا مورال ہائی کرنے میں لگے ہوئے ہیں،کرائمز کا گراف  اوپر سے اوپر، تھانہ کلچر رچ سے رچ ہوتا جا رہا ہے،اس لئے  تھانوں کے دوروں اور احکامات جاری کرنے کا کیا فائدہ؟

اس وقت کچھ حلقوں کا خیال ہے کہ معاشی استحکام لا کر ہی عوام کو ریلیف دیا جاسکتا ہے۔ مطلب یہ کہ پہلے معاشی استحکام لایا جائے اس کے بعد انتخابات کرائے جائیں اور ایک نئی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کی جائے، کچھ تاویلیں بھی پیش کی جا رہی ہیں لیکن میرے خیال میں ملک کے وسیع تر مفاد میں یہی ہے کہ عام انتخابات کا مقررہ وقت پر انعقاد یقینی بنایا جائے تاکہ پانچ سال کے لیے ایک مستحکم حکومت کی بنیاد رکھی جا سکے جو ملک اور عوام کے لیے ٹھوس اور جامع فیصلے کر سکے۔

پانچ سال کے لیے قائم ہونے والی منتخب حکومت ڈلیور کرے گی تو عوام میں خود بخود اداروں کی مقبولیت اور اعتماد بحال ہو جائے گا، آئینی میعاد سے تجاوز کا سوچنے والوں کو اس امر کا ادراک نہیں ادراک ہوتا تو یہ سب کچھ نہ ہو رہا ہوتا جو اس وقت ہو رہا ہے،اس کی بجائے عام انتخابات کی تیاریاں ہو رہی ہوتیں،
دریچہ بے صدا کوئی نہیں ہے
اگرچہ بولتا کوئی نہیں ہے

تبصرے بند ہیں.