اسے ہم کچھ بھی سمجھا یا نام دیا جا سکتا ہے کہ ملک میں پہلے ہی 200کے لگ بھگ سیاسی جماعتوں موجود ہونے کے باوجود ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کی ضرورت کا تسلسل سے تذکرہ ہو رہا ہے۔ یہ تذکرہ جہاں سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے غیر متحرک سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کرتے چلے آ رہے ہیں وہاں ان کے دو قابلِ اعتماد ساتھی مفتاح اسماعیل اور سابق سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر بھی اس تذکرے میں ان کے ہم نوا ہیں۔ مفتاح اسماعیل کے بارے میں تقریباً سبھی جانتے ہیں کہ ان کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے اور وہ میاں شہباز شریف کی حکومت میں چند ماہ کے لیے وزیرِ خزانہ اور اس سے قبل 2017-18ء میں شاہد خاقان عباسی کے وزارتِ عظمیٰ کے دور میں بھی کم و بیش چھ سات ماہ کے لیے وزیرِ خزانہ رہے تھے۔ سابق سینٹر مصطفی نواز کھوکھر کا تعلق پیپلز پارٹی سے رہا ہے۔ وہ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی اہم سیاسی شخصیت حاجی محمد نواز کھوکھر مرحوم جو نوے کی دہائی میں میاں نواز شریف کی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دور میں قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر تھے اور بعد میں پیپلز پارٹی میں شامل ہو گئے کے صاحبزادے ہیں۔ مصطفی نواز کھوکھر کی پیپلز پارٹی سے وابستگی اتنی بڑھ کر تھی کہ انہیں پیپلز پارٹی کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری کا ترجمان ہی نہ مقرر کیا گیا بلکہ سندھ سے ان کا تعلق نہ ہونے کے باوجود سینٹ کی سندھ کی نشستوں میں سے ایک پر انہیں سینٹر منتخب بھی کرایا گیا۔ جناب شاہد خاقان عباسی کا اوڑھنا، بچھونا شروع سے مسلم لیگ (ن) چلی آ رہی ہے۔ میاں نواز شریف کے ادوارِ حکومت میں وہ ایک سے زائد بار وفاقی وزیر رہے۔ جولائی 2017 میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں میاں نواز شریف نا اہل قرار پائے اور انہیں وزارتِ عظمیٰ کا منصب چھوڑنا پڑا تو مسلم لیگ (ن) کی حکومت باقی ماندہ نو دس ماہ کے لیے شاہد خاقان عباسی کے وزیرِاعظم کے طور پر چناؤ کو فوقیت دی گئی۔ یقینا یہ مسلم لیگ (ن) کے ان پر بے پناہ اعتماد کا اظہار تھا۔ یہ اعتماد بعد میں مزید ابھر کا سامنے آیا۔ جب جولائی2018 کے عام انتخابات میں شاہد خاقان عباسی مری اور اسلام آباد کی قومی اسمبلی کی دو نشستوں جہاں سے وہ انتخابات میں حصہ لے رہے تھے کامیاب نہ ہو سکے تو ضمنی انتخابات میں لاہور کی قومی اسمبلی کی ایک نشست جو غالباً حمزہ شہباز شریف کے استعفے سے خالی ہوئی تھی انہیں کامیاب کرایا گیا۔
جناب شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، مصطفےٰ نواز کھوکھر کی سیاسی اور جماعتی وابستگیوں کی اس تفصیل سے پتہ چلتا ہے کہ تینوں کی ٹھوس جماعتی وابستگیاں ہی نہیں رہی ہیں بلکہ ان کی بنا پر وہ اپنی اپنی سیاسی جماعتوں میں اعلیٰ مناصب پر فائز رہے ہیں وہاں قدر و منزلت کی نگاہوں سے بھی دیکھے جاتے رہے ہیں۔ اب وہ اپنی سیاسی جماعتوں سے تعلق توڑ کر ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کی ضرورت کا پر چار کر رہے ہیں تو بلا شبہ اس کی کو ئی بڑی وجہ یا جواز ہو سکتا ہے۔ کہا جا سکتا ہے کہ ان کے اپنی سیاسی جماعتوں کی اعلیٰ ترین قیادت سے گلے شکوے اور شکر رنجی ہو سکتی ہے۔ یہ وجہ یا جواز اس لیے قرین قیاس ہے کہ پہلے آٹھ دس ماہ کے دوران ٹی وی ٹاک شوز اور میڈیا کے دیگر فورمز پر دیئے جانے والے ان کے بیانات، انٹرویوز اور گفتگوؤں سے شکر رنجی اور گلے شکوے کا اظہار سامنے آتا رہا ہے۔ یہ گلے شکوے یا شکر رنجی کیسے پیدا ہوئی، تینوں کے حوالے سے اس کے بارے میں اپنے اپنے اسباب ہیں۔
جیسے اوپر کہا گیا کہ مصطفےٰ نواز کھوکھر کو پیپلز پارٹی سے وابستگی ورثے میں ملی۔ ان کے والد گرامی مرحوم حاجی نواز کھوکھر کی پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین جناب آصف علی زرداری کے گہری چھنتی تھی۔ اسی بنا پر اور اس سے مستزاد وہ ایک ذہین اور پر عزم نوجوان سیاسی رہنما کے طور پر پیپلز پارٹی میں قدر و منزلت کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے انہیں بلاول بھٹو زرداری کا ترجمان ہی نہ مقرر کیا بلکہ سندھ کا ڈومیسائل نہ ہونے کے باوجود انہیں سندھ کی سینیٹ کی نشست سے بطورِ سینیٹر منتخب کرایا۔ پھر ایک ایسا موقع آیا کہ ان کے ایک دو بیانات یا اظہارِ خیال کو جواز بنا کر انہیں باور کرایا گیا کہ قومی سیاست یا اپنی سیاسی جماعت میں ان کی جو حیثیت یا قدر و منزلت ہے وہ ان کی ذاتی صلاحیتوں یا کسی کارکردگی کا نتیجہ نہیں بلکہ پارٹی کی اعلیٰ ترین قیادت (پارٹی چیئرمین اور شریک چیئرمین) کی نظرِ کرم کی مرہونِ منت ہے۔ وہ اگر اپنے آپ کو تگڑم خان سمجھتے ہیں تو یہ ان کی خام خیالی ہے۔ اس طرح ایسی صورتِ حال پیدا ہوئی جو مصطفےٰ نواز کھوکھر کے لیے قابلِ قبول نہیں تھی چنانچہ انہوں نے سینیٹ کی نشست سے ہی استعفیٰ نہ دیدیا بلکہ پیپلز پارٹی سے اپنی راہیں جدا کر لیں اور پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت سے ان کی شکر رنجی اور گلے شکووں کا اظہار بھی کسی نہ کسی صورت میں ہونے لگا۔ یہی اظہارِ خیال آگے چل کر بتدریج ان کی ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کی ضرورت کا پرچارک کرنے کی شکل کا روپ دھارنا شروع ہو گیا جو اب ہمارے سامنے ہے۔
مفتاح اسماعیل کا اپنی جماعت مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت سے شکر رنجی اور گلے شکووں کا معاملہ کچھ زیادہ پرانا نہیں۔ پچھلے سال میاں شہباز شریف کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تو مفتاح اسماعیل کو وزارتِ خزانہ کا منصب سونپا گیا۔ ان کے لیے ملکی معیشت کو سنبھالنا اور آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات کو آگے لے کر چلنا واقعی انتہائی کٹھن اور دشوار تھا۔ بلاشبہ انھوں نے بڑی محنت اور جانفشانی سے کام لیا۔ آئی ایم ایف کو راضی کرنے اوراس کے معطل شدہ پروگرام کو جاری کرنے کے لیے انھیں کچھ سخت فیصلے بھی کرنا پڑے۔ اس پر عوام کی ناراضی اپنی جگہ، انھیں حکومتی حلقوں بالخصوص اپنی جماعت کی اعلیٰ قیادت جس میں محترمہ مریم نواز، سلمان شہباز اور جناب اسحاق ڈار وغیرہ شامل تھے کی طرف سے تند و تیز تنقید کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اس کا بڑا مقصد اسحاق ڈار کی وطن واپسی کے بعد ان کے لیے وزیرِ خزانہ کا منصب سنبھالنے کی راہ ہموار کرنا تھا۔ چنانچہ یہی ہوا۔ اسحاق ڈار لندن سے وطن واپس آئے تو ملکی معیشت کی بہتری اور ڈالر کی قیمت کو بڑھنے سے روکنے کے نام پر مفتاح اسماعیل سے استعفیٰ لے کر جناب اسحاق ڈار کو وزیرِ خزانہ کے منصب پر فائز کر دیا گیا۔ اس پر مفتاح اسماعیل اور اس کے ساتھ ان کے مربی اور مہربان سابق وزیرِ اعظم اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر نائب صدر شاہد خاقان عباسی کا دل گرفتہ بھی لازمی امر تھا۔ پھر ایسے ہی ہوا۔ ایک طرف بطورِ وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار سے ملکی معیشت نہ سنبھالی جا سکی۔ ڈالر کی قیمت ہی روز بروز نہ بڑھتی گئی بلکہ آئی ایم ایف جسے مفتاح اسماعیل بڑی مشکل سے رام کر سکے تھے کی شرائط بھی سخت سے سخت تر ہوتی گئیں۔ ظاہر ہے مفتاح اسماعیل اس صورتِ حال پر کیسے خاموش رہ سکتے تھے۔ انہوں نے اور ان کے مربی اور مہربان شاہد خاقان عباسی جیسے اہم افراد نے اسحاق ڈار کو کھلم کھلا اور اپنی اعلیٰ ترین جماعتی قیادت کو دبے لفظوں میں جہاں تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا وہاں یہ بھی کہنا شروع کر دیا کہ ملکی مسائل اتنے گمبھیر ہیں کہ ان کا حل ڈھونڈنا اور ملک کو مسائل اور مشکلات سے نکالنا اکیلے حکومت خواہ وہ کسی بھی سیاسی جماعت یا سیاسی جماعتوں کی کیوں نہ ہو کے بس کی بات نہیں، نہ ہی ہماری سیاسی جماعتوں اور ان کی مجوزہ قیادت کی اتنی اہلیت اور صلاحیت ہے کہ وہ ان مسائل کو حل کر سکیں۔ ضروری ہے کہ وسیع تر قومی مشاورت سے ان مسائل کا حل ڈھونڈا جائے۔ اس کے لیے اگر کوئی نئی سیاسی جماعت قائم اور نئی قیادت سامنے لانا پڑے تو اس کی بھی سبیل کرنی چاہیے۔ اس طرح ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کی ضرورت بتدریج بحث و مباحثہ کا موضوع بننا شروع ہو گئی۔ (جاری ہے)
تبصرے بند ہیں.