ہمارے ایک دوست ہیں قریشی صاحب وہ کو آپریٹو میں ایک ذمہ دار عہدے پر کام کرتے تھے۔ عمران نیازی کا دور تھا مختلف سیاستدانوں، حکمرانوں اور حکمران طبقوں کی بات ہو رہی تھی۔ قریشی صاحب نے ایک واقعہ سنایا کہ عمران نیازی غالباً 1987 میں ٹیم سمیت مدعو کیے گئے۔ ادارے نے کسی تقریب کا انعقاد کیا۔ اس میں قومی کرکٹ ٹیم کو بھی بلایا گیا نیازی صاحب تب کپتان تھے یہ ادارے کے ذمہ داران کے پاس ٹیم سے الگ اور کچھ پہلے ہی آ گئے جو غیر رسمی آمد تھی۔ ادارے نے بتایا کہ وہ ٹیم کو پانچ لاکھ روپے دے رہے ہیں۔ عمران نیازی نے خفگی کا اظہار کیا کہ 5 لاکھ؟ اس میں سے میرے حصے تو 30/35 ہزار ہی آئیں گے، آپ 4 لاکھ مجھے دیں اور ایک لاکھ روپیہ سٹیج پر اعلان کر کے ٹیم کے نام پر دے دیں۔ ادارے کے سرکردہ لوگوں نے کہا کہ ہماری اپنی بھی ساکھ ہے، ہم کیا اچھے لگیں گے کہ پاکستان ٹیم کو صرف ایک لاکھ روپیہ دے رہے ہیں گو کہ تب ایک لاکھ کی بھی وقعت تھی۔ بہرحال طے ہوا کہ عمران خان کو 3 لاکھ (انڈر دی ٹیبل) اور 2 لاکھ علانیہ طور پر ٹیم کو دے دیے جائیں گے لہٰذا ایسا ہی ہوا اور یقینا اس دو لاکھ میں بھی عمران نیازی صاحب نے اپنا حصہ بقدر جسہ وصول کیا ہو گا۔ میرے خیال میں جسٹس (ر) ثاقب نثار کو اس واقعہ کا علم نہ ہو گا ورنہ جتنے اعلیٰ پائے کے وہ منصف تھے کبھی ”صادق اور امین“ قرار نہ دیتے حالانکہ یہ لقب کسی کو دینا ہی ناجائز ہے۔ اسی طرح اگلے دن ہمارے ایک دوست (حال مقیم کینیڈا) جناب حاجی جمیل اسحاق عرب امارات میں رہتے تھے، ان دنوں نوجوان تھے، ابوظہبی میں اپنے والد کے ساتھ رہتے اور کاروبار کرتے تھے۔ ان کے والد صاحب بہت بڑے کاروباری آدمی اور عرب شیخ صاحبان میں گہرا اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ عمران نیازی کو ہسپتال کے لیے زمین اور میاں شریف سے خطیر رقم مل چکی تھی۔ اب ہسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ کے لیے یہ مختلف ممالک اور ملک میں شہروں میں جایا کرتے تھے۔ خود بتاتے ہیں کہ چندہ لینے کے لیے میں نے سکول کے بچوں کا انتخاب کیا کہ وہ والدین کو ترغیب بھی دیں گے اور والدین ظاہر ہے بچوں کی فرمائش کو نظر انداز نہیں کرتے۔ لہٰذا نیازی صاحب جس سکول میں جاتے بچے جوش و خروش سے چلے آتے، گو کہ رقم تو والد کی خرچ ہوتی تھی لیکن بچوں کی مائیں بھی اس کو ایک اہم تقریب سمجھتیں۔ نیازی صاحب نے اندرون ملک فنڈ ریزنگ کے لیے بچوں کا انتخاب کیا، یہی وتیرہ انہوں نے سیاست میں اپنایا۔ بھلے پوتوں نواسوں والے ہوں مگر ذہنی طور پر بچے (نابالغ لوگ) ان کا شکار رہے اور ہیں بھی۔ بہرحال آتے ہیں حاجی جمیل اسحاق صاحب کی طرف وہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد نے ان کو ذمہ داری دی کہ فلاں فلاں شیخ (عربی شیخ) سے میری بات ہو گئی ہے، عمران خان کو ان کے پاس لے جانا وہ کل آ رہا ہے۔ مگر تم آج ہی تمام شیخ کے گھر دیکھ آنا تاکہ عمران کو لے کر ڈھونڈتے نہ پھرو، آپ کو پہلے ہی علم ہو۔ لہٰذا اگلے دن نیازی صاحب کو حاجی صاحب (تب نوجوان تھے، آج 50 سال سے اوپر ہیں) ایئر پورٹ سے لیا اور باری باری تمام شیخ 5/6 لوگوں کے ہاں لے گئے۔ حاجی جمیل صاحب فرماتے ہیں کہ عمران نیازی نے ایک کیسٹ منہ میں فٹ کی ہوئی تھی کہ نواز شریف اور بے نظیر دونوں کرپٹ ہیں جیسے کئی مانگنے والے گلیوں بازاروں میں مانگنے کی مسلسل زحمت کے بجائے اپنی آواز کی ریکارڈنگ چلائے جاتے ہیں کہ مجھے یہ بیماری ہے، قرضہ ہے، گھر گر گیا ہے، فلاں فلاں مر گیا ہے، اگلے لمحے کو کچھ کھانے کو نہیں یا سودا بیچنے والے کیلا 120 روپے درجن، سیب 150 روپے کلو کی کیسٹ چلائے رکھتے ہیں عمران نیازی کی تب کیسٹ تھی نواز شریف اور بے نظیر دونوں کرپٹ ہیں (بی بی کی شہادت کے بعد اس کیسٹ میں زرداری آ گئے)۔ حاجی جمیل اسحاق کہتے ہیں، چلتے چلتے شیخ زید النیہان صاحب کے داماد کے پاس چلے گئے اور عمران نیازی نے وہی کیسٹ چلائی۔ قارئین! عربی بات کہنے میں بڑے بے باک ہوتے ہیں، انہوں نے ترجمان بھی رکھے ہوتے ہیں جونہی عمران نیازی نے کیسٹ آن کی کہ نواز شریف کرپٹ، بے نظیر کرپٹ تو شیخ صاحب نے فوراً غصے سے روکا ٹوکا اور کہا، مسٹر عمران خبردار میاں نواز شریف کے خلاف بات کی اور بی بی کے لیے کوئی لفظ بولا۔ ان کا زیادہ رد عمل نواز شریف پر اس لیے آیا کہ انہوں نے ہی ہسپتال کی بنیادیں فراہم کی تھیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ کیا کھا گیا ہے نواز شریف تمہارا یا پاکستان کا؟ عمران نیازی نے کہا بہت، شیخ صاحب نے کہا بولو کیا بہت ملین ٹریلین کتنا کھا گیا ہے۔ عمران نیازی نے کہا بہت ٹریلین ڈالر کھا گیا ہے۔ اس نے کہا، میں ہندسہ لکھتا ہوں تم آگے صفر ڈال لو اور مجھ سے لے لو مگر یہ بات نہ کرنا، ہم یہ برداشت نہیں کریں گے۔ جتنی رقم تم بتا رہے ہو اتنی اس کے لیے مونگ پھلی کا دانہ ہے۔ پھر انہوں نے نیازی صاحب کو واقعہ سنایا کہ جنرل ضیا کا دور تھا اس سے کوئی کام تھا، وہ پاکستان آئے، ضیا سے ملے۔ اُس نے کہا کہ آپ کو میں ایک صنعتکار کے ہاں ٹھہراؤں گا، آپ اس کے مہمان ہوں گے۔ تب نواز شریف وزیر خزانہ پنجاب بھی نہ ہوئے تھے۔ شیخ صاحب نے کہا کہ جب ہم نواز شریف کے ہاں گئے، ان کے مہمان نوازی اور اخلاق دیکھ کر، دلداری دیکھ کر اپنے دل میں سوچنے لگے کہ شیخ (عربی) تو یہ ہے ہم کیسے شیخ ہیں۔ 80/81 کی بات ہو گی کیونکہ اس کے بعد تو وہ وزیر خزانہ پنجاب بن گئے۔ ابوظہبی کے شیخ کا موڈ خراب ہو گیا، اس نے عمران نیازی کو ایک لفافہ دیا اور حاجی صاحب فرماتے ہیں کہ انہوں نے 20/20 ہزار ریال ہمیں بھی لفافوں میں دے دیئے۔ عمران نیازی کی کیسٹ کو بریک لگی اور وہاں سے ”عزت افزائی کے بعد“ واپس آ گئے۔ دیانت داری، احسان اور نیکی کے بدلے اور منہ کی کھانے کے یہ واقعات ذہن میں آئے، سوچا آپ سے بھی شیئر کر دوں۔ یہ نیازی صاحب کی ذاتی زندگی نہیں پبلک زندگی سے متعلق ہے ورنہ ذاتیات پر جانا غیر مناسب ہے اور ویسے بھی کوئی ضرورت نہیں وہ سب کے سامنے ہے اور ان کے فالورز اس کو قبول کر چکے ہیں۔
آئندہ انتخابات جب بھی ہوں گے ن لیگ اور اتحادی نمبر 1، پیپلز پارٹی اور اتحادی نمبر 2، آزاد نمبر 3 اور مولانا و اتحادی 4 پر ہوں گے۔ عمران نیازی اپنی فلم کا دی اینڈ خود لکھ چکے ہیں۔ گفتگو میں واقعات آ ہی جاتے ہیں۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.