پوری قوم جاہلیت کے سمندر میں کود پڑی ہے!

74

مفاہمت، برداشت اور رویوں میں لچک ایسی باتیں ہیں جن کا ذکر تو ہم بہت سنتے ہیں لیکن اس کی عملی شکل کم ہی دیکھنے میں آتی ہے۔ دہشت گردوں کی بات تو خیر کسی علیحدہ کالم میں تفصیل کے ساتھ کی جانی چاہیے فکر کی بات یہ ہے کہ عام زندگی میں سڑکوں، بازاروں میں، دوستیوں اور رشتہ داریوں میں عدم برداشت کا عنصر بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔

 

سیاستدان، مذہبی راہنما، اعلیٰ عدلیہ کے جج حضرات، سماجی شخصیات اور ہمارا میڈیا ایسے فورم ہیں کہ اگر یہاں سے امن، برداشت، رواداری اور قانون پر عملداری کا پیغام دیا جائے تو معاملات یقینا بہتری کی طرف جا سکتے ہیں لیکن صد افسوس کہ معاشرے میں بہتری لانے کی کوششیں کرنے کی بجائے افراتفری کے ماحول کو فروغ دیا جاتا ہے۔ غنڈے، بدمعاش اور آوارہ گرد عناصر محفلوں میں بیٹھ کر بہت فخر سے اپنے مجرمانہ اور سماج دشمنی کے واقعات بیان کرتے ہیں اور ہمارے نوجوان ایسی صورتحال سے نفرت کرنے کی بجائے اس سے متاثر ہو رہے ہیں۔

غربت، بے روزگاری اور سماجی ناانصافیاں بھی معاشرے کے بگاڑ کی وجہ بن رہی ہیں۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارا نوجوان اس قدر فرسٹریٹ ہے کہ اسے اپنے سامنے تین ہی راستے نظر آ رہے ہیں۔ پہلا یہ کہ وہ کسی نا کسی طور اس ملک سے فرار ہو جائے، دوسرا یہ کہ وہ جرائم، قانون شکنی اور سماج دشمنی جیسے کاموں کا حصہ بن جائے(ہم نے دیکھا ہے کہ مزکورہ وجوہات کی بنیاد پر ہی ماضی قریب میں سٹریٹ کرائم اور جسم فروشی جیسے کاموں میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے)، اور تیسرا یہ کہ وہ حالات کے سامنے بے بس ہو کر یا تو نشے کی صورت میں راہ فرار اختیار کرنے کی کوشش کرے اور یا پھر خود کشی کا راستہ اپنا لے۔

میں تو پہلے بھی کئی مرتبہ حکومت کو مشورہ دے چکا ہوں کہ پیسوں کے بلیک وائٹ ہونے اور اندھا دھند ٹیکس جمع کرنے کا بھوت اپنے سر سے اتار کر ایسی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرے کہ جس سے ملک میں روزگار کے مواقع پیدا ہوں لیکن بے سود۔ ہمارے حکمران بے چارے بھی کیا کریں۔ انہیں اپنی عیاشیوں، کرپشن، پروٹوکول اور دیگر اللے تللوں سے فرصت ملے تو ہی وہ عوام کے متعلق کچھ سوچیں۔
بات تھی معاشرے میں بڑھتے ہوئے عدم برداشت کی۔ ویسے تو ہم ہر وقت کسی نا کسی سطح پر اس کے مظاہرے دیکھتے رہتے ہیں لیکن اس کا تازہ ترین نمونہ ایک ٹی ٹاک شو میں دیکھنے میں آیا جب دوران گفتگو پاکستان تحریک انصاف کے راہنما اور پیشہ کے اعتبار سے ایک وکیل شیر افضل مروت اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے ایک سینیٹر افنان اللہ نہ صرف ہاتھا پائی اور دست وگریبان ہونے پر اتر آئے بلکہ انہوں نے ایک دوسرے کو گالیاں اور دھمکیاں بھی دیں۔
بات یہ نہیں کہ کس نے کیا کہا اور کس نے اس کاروائی کا آغاز کیا۔ بات تو یہ ہے کہ کیا اس قسم کے فورم پر اس قسم کا تماشہ ہونا چاہیے تھا؟ اور اگر ہو ہی گیا ہے تو سیاسی پارٹیوں، سماجی حلقوں اور میڈیا کی جانب سے اس کا کیا ردعمل آیا ہے؟ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام میڈیا گروپ اگر مستقل طور پر نہیں تو کم از کم کچھ وقت کے لیے ان دونوں صاحبان کی کسی بھی ٹاک شو میں شرکت پر پابندی لگا دیتے۔ لیکن مسلہ تو ریٹنگ کا ہے۔ اگر اس قسم کے تماشے ہائی لائٹ نہیں ہوں گے تو چینل کی ریٹنگ کس طرح بڑھے گی؟
اس صورتحال میں پہلی بات تو یہ ہے کہ اس سطح پر پارٹی کی نمائندگی کرنے والوں کی کچھ نا کچھ تربیت کر کے ہی انہیں اہم فورمز پر بھیجا جانا چاہیے تاکہ اگر وہ لوگوں کے لیے کوئی اچھی مثال قائم نہیں کرسکتے تو کم از کم کوئی تماشہ تو نہ کھڑا کریں۔اگرچہ اخلاقی حدود میں رہنے کے لیے کسی اینکر کی مداخلت سے زیادہ سیلف ڈسپلن کی ضرورت ہے لیکن پھر بھی برادر حامد میر صاحب کو ایک ٹاک شو میں کہتے ہوئے سنا کہ انہوں نے تو اپنے پروگرام کے شرکا کے لیے ایس او پیز طے کیے ہوئے ہیں اور وہ شرکا کو انہیں کے اندر محدود رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یقینا تمام ہی ٹی وی چینلز اور اینکر پرسنز کو اسی قسم کے انتظامات کرنا چاہیں۔
سینیٹر افنان اللہ اور شیر افضل مروت نے جو تماشہ لگایا وہ تو خیر اپنی جگہ پر قابل مذمت ہے ہی لیکن اس کے ردعمل میں سوشل میڈیا پر پارٹی کارکنان اور قائدین کی جانب سے چلائی جانے والی مہم تو اور بھی زیادہ حیران کن اور افسوسناک ہے۔
بجائے اس کے کہ ایک ٹاک شو میں دھینگا مشتی کرنے پر ان دونوں صاحبان پر تنقید کی جاتی اور انہیں شرمندہ کرنے کی کوشش کی جاتی،اس وقت بحث تو یہ چھڑی ہے کہ کس نے زیادہ تھپڑ اور مکے مارے، کس نے کس کو نیچے گرایا اوراس ہاتھا پائی میں کس کا پلہ بھاری رہا۔
ہم جیسے لوگ تو دو افراد کی نامعقولیت پر ہی نالاں تھے لیکن یہاں تو پوری قوم ہی لنگوٹ کس کر اس جہالت کے سمندر میں کود پڑی ہے۔
ہم قوم کی تربیت کی بات تو کرتے ہیں لیکن اب تو اس بات پر بہت زیادہ کنفیوژن پیدا ہو چکی ہے کہ اس تربیت کا آغاز اوپر سے نیچے کی طرف کیا جائے یا نیچے سے اوپر۔ کبھی پتنگ بازی کیا کرتے تھے تو ڈور آپس میں اس برے طریقے سے الجھ جاتی تھی کہ اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہتا تھا کہ الجھے ہوئے حصہ کو کاٹ کر پھینک دیا جائے، ورنہ ساری ڈور کا ستیا ناس ہونے کا امکان ہوتا تھا۔ ہمارے سماجی معاملات بھی اس قدر الجھ چکے ہیں کہ اگر ہم نے فوری طور پر اپنی سوچ کے لیول کو سیاست اور فرقہ بندی اور گروہ بندی سے بالا تر نہ کیا تو پھر معاملات میں بہتری آنا تو درکنار ان کے مزید بگڑنے کے بھرپور امکانات ہیں۔

تبصرے بند ہیں.