افسوس ناک امر یہ ہے کہ اس وقت پاکستانی عوام کی مشکلات اور مسائل پر بات نہ ہونے کے برابر ہے عوام کن حالات میں ہیں اس کی خستگی منظر عام پر نہ آجائے اس کے لیے ”زیر نگران“ حکومت عوام کو جذباتی نعروں میں الجھا رہی ہے کبھی کوئی ایشو ہائی لائٹ کیا جاتا ہے تو کبھی جنگ کے ڈراوے دیئے جارہے ہیں۔ جبکہ جو کام کرنے والے ہیں ان کی طرف پوری حکومتی مشینری کی کوئی خاص توجہ ہی نہیں ہے پاکستان ریلوے سے لیکر دیگر تمام محکموں اور اداروں کی کارکردگی سوالیہ نشان بن چکی ہے۔ ریلوے حادثات معمول بن چکے ہیں جبکہ ٹرینوں کے اوقات کار بری طرح متاثر ہیں، مگر متعلقہ وزیر یا دیگر محکموں کے وزرا کرام دن میں کئی کئی بار چینلز پر رونما ہو کر قوم کو صرف یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ مہنگائی اتنی بھی نہیں کہ لوگ احتجاج پر اتر آئیں، کیا یہ لطیفہ نہیں؟
دوسری جانب پاکستان میں مختلف قسم کی بیماریوں کا جہاں تیزی سے پھیلنا تشویشناک امر ہے وہاں سرکاری اداروں کی اپنے فرائض سے پہلوتہی کی بھی نشاندہی ہوتی ہے بلکہ شنید ہے حکومت ٹیچنگ ہسپتالوں کو پرائیویٹ پارٹنر شپ کے تحت چلانا چاہ رہی جس کا ایک سیدھا سا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ حکومت معاشی طور پر بالکل ناکام ہو چکی ہے۔ بیماریاں پھیلنے کی بہت سی وجوہات میں ماحولیاتی آلودگی، ناقص خوراک اور آلودہ پانی بھی شامل ہے۔ دیکھنے میں یہ آ رہا ہے کہ ملک بھر میں ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لیے حکومتوں کی جانب سے روایتی تساہل پسندی کا مظاہرہ اور عوامی خدمت کا زیادہ تر انحصار زبانی جمع خرچ پر ہے۔ حکومتی ادارے بڑھتی ہوئی بیماریوں پر قابو پانے کے لیے جہاں اپنے فرائض ایمانداری سے ادا کریں وہاں شہریوں میں بھی ان بیماریوں سے بچاؤ کے لیے آگاہی مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
وزارت قومی صحت کے مطابق پاکستان میں ہیپاٹائٹس کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ پندرہ بیس لاکھ تک جا پہنچی ہے، جب کہ ہر سال اس میں پانچ لاکھ نئے کیسز کا اضافہ ہو رہا ہے۔ کبھی یہاں ڈینگی حملہ آور ہو جاتا ہے تو کبھی سوائن فلو کا قاتل وائرس بڑی تیزی سے پھیلنا شروع ہو جاتا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں دو کروڑ سے زائد افراد گردوں کی مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں۔ ہر سال پچاس ہزار افراد گردوں کے فیل ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ایڈز میں مبتلا مریضوں کی کل تعداد 1لاکھ 60ہزار سے زائد بتائی جاتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ایڈز کے مرض میں مبتلا 14سال تک کی عمر کے بچوں کی تعداد 1500 سے زائد اور6 ہزار سے زائد خواتین اس مہلک بیماری کا شکار ہیں، مردوں میں بھی ایڈز کا تیزی سے پھیلاؤ دیکھنے میں آیا ہے جبکہ پاکستان میں ایک کروڑ سے زائد افراد منشیات کا استعمال کر رہے ہیں اور المیہ یہ ہے کہ انہیں علاج معالجے کی کوئی مناسب سہولت ہی میسر نہیں۔ یہ بھی بتایا جاتا ہے کہ پاکستان میں ہر5 واں شخص دل کے عارضہ میں مبتلا ہے، ملک بھر میں دل کے مریضوں کی تعداد ایک کروڑ تیس لاکھ سے زائد بتائی جاتی ہے۔
ایک اندازے کے مطابق، پاکستان میں عام ذہنی بیماریوں میں مبتلا افراد کی تعداد تقریباً پانچ کروڑ سے زائد ہے، جس میں ڈیڑھ سے ساڑھے تین کروڑ بالغ افراد مختلف قسم کی ذہنی بیماریوں سے متاثر ہیں جو آبادی کا تقریباً 10 سے 20 فیصد بنتا ہے۔گھریلو ناچاقیاں، معاشرتی نا ہمواریاں، ذہنی انتشار، مایوسی، یہ وہ تمام عناصر ہیں جو پاکستان میں نوجوانوں کو ذہنی الجھنوں کا شکار بنا رہے ہیں۔ ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ ملک میں دماغی امراض سے متاثرہ افراد کی تعداد میں دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے جس میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے۔ تقریباً دو کروڑ بچوں اور کم عمر افراد جو کل آبادی کے 10 فیصد بنتے ہیں کو ماہر نفسیات کی ضرورت درپیش ہے۔ پاکستان کی تقریباً 10 سے 16 فیصد آبادی ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہے، اور ان میں اکثریت خواتین کی ہے لیکن پھر بھی ہم اس معاملے میں شرمناک حد تک بے حس ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق چوبیس کروڑ سے زائد آبادی کے لیے صرف چار ساڑھے چاروسو کے قریب سائیکاٹرسٹ اور 5 ذہنی امراض کے ہسپتال موجود ہیں۔ اگر اس کا تناسب دیکھا جائے، تو 5 لاکھ لوگوں کے لیے صرف ایک سائیکاٹرسٹ موجود ہے۔
افسوس کی بات یہ ہے، کہ ان کو مطلوب توجہ نہیں مل پاتی۔ توجہ نا ملنے کی وجہ یہ ہے کہ کئی مریض خود علاج کرانا نہیں چاہتے، یا علاج بیچ میں چھوڑ دیتے ہیں۔ذہنی امراض کے علاج کی سہولیات تک رسائی نا ہونے کی صورت میں لوگ جھاڑ پھونک والے بابوں، حکیموں، کا رخ کرتے ہیں، جہاں سے ان کے اس بائیو کیمیکل مسئلے کا کوئی حل نہیں ہو پاتا۔ یہ بات اس لیے بھی تکلیف دہ ہے، کیونکہ تحقیق کے مطابق اگر بیماری کی جلد تشخیص کے بعد فوراً علاج شروع ہو جائے، تو مریض کی حالت مزید بگڑنے سے بچائی جا سکتی ہے۔اس کے علاوہ بڑھتا ہوا عدم تحفظ، غربت، سیاسی بے یقینی، جینیاتی فیکٹر اور بیروزگاری وغیرہ جیسے مسائل سے پاکستان میں ذہنی صحت کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ پاکستانی خواتین کے لیے تو یہ خطرہ اور بھی زیادہ ہے، کیونکہ وہ گھریلو تشدد، سسرالیوں کے زہریلے رویوں اور جنسی تفریق کا بار بار شکار ہوتی ہیں۔ اس طرح کے ماحول میں میرے نزدیک دماغی امراض صرف بڑھیں گے ہی۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہماری حکومت انسانی حقوق کے تحفظ کی اپنی ذمہ داری کو پورا کرے، خواتین کو بااختیار کرے، اور ذہنی امراض کے بارے میں آگہی بڑھائے۔ انفرادی سطح پر اس بات کی ضرورت ہے، کہ ان حساس معاملوں میں بدنامی و رسوائی کی فکر کرنے کے بجائے علاج کی جانب جایا جائے۔ ہم کم سے کم اتنا تو کر ہی سکتے ہیں کہ ذہنی طور پر بیمار افراد کو سپورٹ کریں۔
ایک ایسا ملک جہاں پہلے ہی اتنے مسائل و بیماریاں موجود ہیں، وہاں لوگوں کا بڑھتی ہوئی تعداد میں ذہنی امراض کا شکار ہونا اب اور برداشت نہیں کیا جانا چاہیے۔ پاکستان میں حکومت صحت عامہ کے شعبے پر کس تناسب سے سرکاری رقوم خرچ کرتی ہے، اس بارے میں انسانی حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے ”جس ملک میں زیادہ وسائل حکومتی اللوں تللوں میں اڑا دیئے جائیں یا غیر پیداواری شعبوں کے لیے مختص کیے جاتے ہوں، وہاں صحت عامہ اور تعلیم کے شعبوں کا حال ایسا ہی رہے گا جیسا ہم سب دیکھ رہے ہیں“۔ آج بھی پاکستان میں شہروں اور خاص کر دیہات میں بہت سے لوگ صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ مندرجہ بالا رپورٹ اور اعداد و شمار حتمی تو نہیں ہیں لیکن بجلی اور مہنگائی کی موجودہ صورت حال اس سے بھی زیادہ گمبھیر ہو سکتی ہے اگر کوئی باقائدہ سروے کرایا جائے تو خوفناک حقائق سامنے آ سکتے ہیں۔ ایسی عوام کی ایسی صورت حال کے بعد کیا پاکستان میں ایک صحت مند اور پڑھے لکھے معاشرے کا تصور ممکن ہو سکے گا۔؟ آخر میں ایک سوال کیا ذہنی، جسمانی اور روحانی طور بیمار قوم کا حکمران ہونا بذات خود شرم کی بات نہیں؟
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.