ایک ریاست کا بادشاہ عوام پر بڑا ظلم کرتا تھا، ہر فرد پر اُس نے ہر طرح کا ٹیکس لگا دیا تھا، عوام پھر بھی برداشت کر رہے تھے ایک دن بادشاہ نے وزیر خاص کو بلایا اور کہا مَیں نے عوام پر جتنا ظلم کِیا جا سکتا تھا کِیا ہے، جتنا ٹیکس لگایا جا سکتا تھا لگایا ہے، عجیب ڈھیٹ قوم ہے خاموشی سے برداشت کر رہی ہے میرے پاس کوئی شکایت کرنے یا ٹیکسز کی واپسی کا مطالبہ لے کر نہیں آیا مشورہ دو ایسا کیا کروں؟ جومیری رعایا مجھ سے انصاف اور رعایت مانگنے میرے دروازے پر آئے، وزیر نے اپنی کھوپڑی گھمائی اور مشورہ دیا بادشاہ سلامت آپ حکم فرما دیں، آئندہ شہر سے باہر جو بھی مزدوری کرنے جائے گا وہ فلاں پُل پر سے گزر کر جائے گا، وہاں بیٹھے ہمارے سرکاری اہلکاروں سے دس دس جوتے کھا کر جائے گا، بادشاہ کو وزیر کا مشورہ بڑا پسندآیا، دوسرے دن ہی بادشاہ کے حکم پر عمل شروع کر دیا گیا جو بھی شہر سے باہر جاتا پُل سے گزر کر جاتا، بادشاہ کے حکم کے مطابق دس دس جوتے کھا کر جاتا، کسی نے دس دس جوتوں کی وجہ نہیں پوچھی، کسی نے احتجاج نہیں کیا، کچھ دن گزرے ہوں گے بادشاہ کو اطلاع دی گئی محل کے باہر لوگوں کا ہجوم ہے آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں، بادشاہ بڑا خوش ہوا، آج عوام مجھ سے انصاف مانگیں گے،بادشاہ کی عدالت لگ گئی، محل کے باہر جمع ہونے والوں نے بولنا شروع کیا،بادشاہ سلامت آپ نے ظلم کی انتہا کر دی،ہم نے برداشت کیا آپ نے ٹیکسز کی بھرمار کر دی، ہم نے خاموشی سے ادا کئے، اب بات ہمارے بچوں کی روزی روٹی پر آ گئی ہے اب ہم بالکل برداشت نہیں کر سکتے، بادشاہ نے خوشی خوشی کہا:بولو آپ لوگ کیا چاہتے ہو، عوام ایک ساتھ بولے بادشاہ سلامت ہم شہر سے باہر مزدوری، ملازمت اور کاروبار کے لئے جاتے ہیں پورے شہر کو پُل پر سے گزرنا پڑتا ہے وہاں آپ کے جوتے مارنے والے صرف دو بندے موجود ہوتے ہیں باہر نکلنے کے لئے کئی کئی گھنٹے لگ جاتے ہیں ہماری آپ سے التجا ہے کہ شہر کے باہر جانے والے راستوں پر جوتے مارنے والوں کی تعداد بڑھائی جائے تاکہ جوتے کھا کر ہم جلدی فارغ ہوں اور شہر سے باہر نکل جائیں،ہمیں دیر نہ ہو، جن معاشروں میں حکومتوں نے انصاف فراہم کیا ہے وہاں امن و امان بھی مثالی ہے، جرم اور مجرم کی کوئی بھی حمایت نہیں کرتا لیکن بے گناہ اور گنہگار میں فرق نہ کرنے سے بھی مسائل حل نہیں ہوتے،قانون کی حکمرانی سب کے لئے یکساں جب تک نہیں ہو گی اس وقت تک ہم ترقی یافتہ اقوام اور ممالک کی صف میں شامل نہیں ہو سکیں گے 75سال سے حکمران قوم سے قربانی مانگتے چلے آ رہے ہیں اور پاکستانی قوم قربانی دیتی چلی آرہی ہے، دنیا میں پاکستان واحد ارض پاک ہے کہ جہاں چار موسموں کے رنگ دیکھے جا سکتے ہیں لیکن ایک ایسا موسم بھی ہے جو ہمیشہ سدا بہار رہتا ہے اور وہ ہے سیاست کا موسم، سیاستدانوں کی بلا سے کوئی مرے یا جیئے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا بجلی بلوں کی وجہ سے خودکشیاں کرو،مہنگائی کی وجہ سے موت کو گلے لگاؤ، مہنگے علاج کیلئے بچے فروخت کروان کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی، رینگے بھی کیوں انہیں تو کوئی پریشانی ہے نہیں وہ جب کہتے ہیں کہ عوام کی خوشحالی کیلئے پالیسیاں بنا رہے ہیں تو در اصل وہ اپنے لئے سوچ بچار کر رہے ہوتے ہیں پرویز مشرف کے دور میں عوام مہنگائی کی وجہ سے سراپا احتجاج ہوئے تو موصوف نے کہا تھاکہ ہر بندے کے پاس تو موبائل فون ہے پھر بھی مہنگائی کا رونا رویا جا رہا ہے مہنگے آٹا کا شورپڑا تو وہ کہتے تھے کہ عوام ڈبل روٹی کھائیں وہ ہر مسئلے کا حل بتاتے تھے جیسے آج نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ فرما رہے ہیں کہ حالات اتنے خراب نہیں جتنا واویلا کیا جا رہا ہے نصف صدی سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود سیاستدانوں نے عوام کی محبتوں کا صلہ دینے کے لیے کبھی نہیں سوچا، ملک میں حقیقی تبدیلی کے لئے سماجی و معاشی انصاف ناگزیر ہے معیشت کی بحالی اور سرکار ی محاصل کا دائرہ وسیع کئے بغیر غربت و افلاس کا خاتمہ کبھی ممکن نہیں ہے اور اس کے لئے آج محض وعدوں کے بجائے عملی اقدامات کی ضرورت ہے آئندہ انتخابات کے بعد جو بھی سیاسی قیادت ملک پر قابض ہو اسے ملک کے معاشی حالات کے پس منظر میں ایسی پالیسی بنانا ہوگی کہ ملک کو درپیش سنگین مسائل کے حل میں مدد مل سکے اگر نئی قیادت نے سابقہ حکمرانوں والا رویہ اختیار کیا تو یہ ملک کیلئے نیک شگون نہیں ہوگا کیونکہ عوام پہلے ہی ان کے دلفریب وعدوں کے ڈسے ہوئے ہیں ماضی میں ہمیشہ موقف اختیار کیا کہ بحران ورثے میں ملے ہیں انہیں کوئی پوچھے کہ ورثے میں ملنے والے بحرانوں سے نمٹنے کے لئے اقتدار سنبھالنے سے پہلے کیا کوئی منصوبہ بندی کی تھی؟یا اب کچھ کیا جا رہا ہے یا وعدوں پر ہی ٹرکھایا جائے گا، حکمرانوں کی غلط سوچ روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کیونکہ یہ صرف الزام تراشی کرتے ہیں، جبکہ ناقص معاشی پالیسی کی وجہ سے غربت کے گراف میں مزید اضافہ ہوا، تمام وسائل چند خاندانوں میں تقسیم ہو کر رہ گئے اور مساویانہ تقسیم کا کوئی تصور ہی سامنے نہ آیا، لوٹ مار کی انتہا ہر دور میں عروج پررہی جس سے غیر ملکی امداد کا غلط استعمال ایک معمول بن کر رہ گیا یہاں تک کہ آئی ایم ایف سمیت دیگر اداروں اور دوستوں نے بھی مالی امداد سے ہاتھ کھینچ لیا،مسائل مسائل کی رٹ لگانے کے بجائے ان سے جان چھڑانے کے لئے وسیع تر مشاورت کے ذریعے ایک موثر لائحہ عمل ابھی سے تیار کرلینا چاہئے تاکہ اقتدار سنبھالنے کے بعد بحرانوں کے حل کا آغاز ہوسکے، ملک کو سیاسی استحکام کی ضرورت ہے، ملک پر مسلط حکمرانوں نے عوام کی بہتری کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا، لوٹ مار کی اور جائیدادیں اور شوگر ملیں بنائیں، کوئی ادارہ ان کا احتساب نہیں کر سکا، عوام پر بوجھ ڈالنے کے بجائے صاحب حیثیت افراد پر ٹیکس لگایا جائے، عوام کو بھیڑ بکریاں نہ سمجھا جائے،ورنہ قوم کی حالت کبھی نہ سدھرے گی اور اسی طرح جوتے کھاتی رہے گی۔
Next Post
تبصرے بند ہیں.