وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی سرکاری ہسپتالوں کی حالت بہتر کرنے کے لئے دھڑا دھڑ چھاپے مار رہے ہیں مگر صحت سمیت ہر معاملہ میں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اب آپ چینی کا مہنگا ہونا ہی دیکھ لیجئے کہ میڈیا پر آنے والی ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق لاہور ہائیکورٹ سے جاری ہونے والے حکم امتناعی نے سٹے بازوں، ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کی چاندی کروا رکھی ہے۔ چینی پر بعض شہروں میں سو روپے تک منافع کمایا جا رہا ہے مگر میرا موضوع آج ادویات ہیں۔ پاکستان ڈرگ لیگل فورم کے صدر نور مہر بتا رہے تھے کہ پاکستان میں خام مال کی کمیابی، ایل سیز کے مسائل، وفاقی وزارت خزانہ کی پالیسیوں کے ساتھ ساتھ صوبائی ڈرگ انسپکٹروں کی نااہلی سے روزانہ بڑی تعداد میں مریض موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ ہم کسی حادثے یا دھماکے میں مرنے والوں کی تعداد تو بتا سکتے ہیں مگر شہروں میں ادویات نہ ملنے کی وجہ سے روزانہ کتنے مر رہے ہیں، اس بارے اعداد وشمار معلوم کرنے کا کوئی مستند طریقہ نہیں ہے۔ میں نے پنجاب کے وزیراعلیٰ کو مخاطب کیا، وہ ہسپتالوں میں جاتے ہیں اور انکار نہیں کہ سرکاری ہسپتالوں میں مجموعی طور پر جانے والے افراد کی تعداد لاکھوں میں ہے مگر وہ لوگ کروڑوں میں ہیں جنہیں زندہ رہنے کے لئے سستی اور معیاری ادویات روزانہ چاہیے ہوتی ہیں سو یہ تحریر صرف پنجاب کے نگران وزیراعلیٰ کے نام نہیں جن کے صحت کے شعبے میں بہتری کے لئے کاوشیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں بلکہ ہر صوبے کے ہر وزیراعلیٰ کے نام ہے۔
صورتحال کچھ یوں ہے کہ پنجاب اور لاہور میں ڈینگی آنے کے ساتھ ہی پیراسیٹامول ایک مرتبہ پھر نایاب ہو گئی ہے حالانکہ ایک برس کے دوران کی اس قیمت میں سو فیصد کے لگ بھگ اضافہ کیا گیا ہے۔ پیراسیٹامول اس وقت سے ہی کم مل رہی ہے جب سے کورونا آیا، کسی بھی میڈیکل سٹور پر چلے جائیں تو وہ ایک آدھ پتے سے زیادہ نہیں دیتا اوربعض تو صاف انکار بھی کر دیتے ہیں۔ بات صرف پیراسیٹامول کی نہیں ہے بلکہ اس وقت ڈھیر ساری ادویات کی شارٹیج ہو چکی ہے۔ کروڑوں مریض اور ان کے لواحقین ہاتھوں میں روپے اٹھائے جگہ جگہ پھر رہے ہیں مگر انہیں دوائیاں نہیں مل رہیں جیسے ملک بھر میں مرگی کے مریضوں کی دوا ’ٹیگرال‘ چار گنا زیادہ قیمت پر بھی دستیاب نہیں۔ مارکیٹ سے شوگر کے مریضوں کی دوا ’انسولین‘ کی مختلف اقسام غائب ہو چکی ہیں اور پانچ گنا قیمت پر بلیک میں مل رہی ہیں۔ نیند اور موڈ کے حوالے سے معروف دوا ’ریٹالین‘ بھی مارکیٹ میں موجود نہیں اور سی طرح ایلوپیتھک کی معروف سستی دوا ’فولک ایسڈ‘ بھی نہیں مل رہی۔ دل اور گردوں کے مرض میں خون پتلا رکھنے والی دوا ’ہیپارین‘ بھی میڈیکل سٹورز سے نہیں مل رہی جس کی وجہ سے مریضوں کے آپریشن تک ملتوی ہو رہے ہیں اور تو اورزخموں پر لگانے والا پاوڈر ’سیکا ٹرین‘، ٹیوب ’پولی فیکس‘ اور’مائسٹراسین‘ بھی ناپید ہے۔ معدے کے انفیکشن کی دوا ’فلیجل‘ بھی دستیاب نہیں ہے۔ میری انفارمیشن یہ تھی کہ ان تمام ادویات کی قیمتوں اور فراہمی کے حوالے سے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے مگر سینئر ہیلتھ رپورٹر میاں محمد نوید بتا رہے تھے کہ اس سلسلے میں اہم ترین کردار ڈرگ انسپکٹروں کا ہے جو صوبائی حکومت کے ماتحت ہیں۔ سو یہاں وزیراعلیٰ کی بھی ذمہ داری ہے کہ جہاں انہوں نے سرکاری ہسپتالوں کے حوالے سے ڈنڈا اٹھایا ہوا ہے وہاں وہ ادویات کی فراہمی یقینی بنانے کے لئے بھی جوتا اٹھا لیں کیونکہ کوئی پرائیویٹ ہسپتال جائے یا سرکاری بعد میں، کھانی اس نے دوائیاں ہی ہوتی ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں میں جانے والے اگر ہزاروں لوگ ناقص انتظامات پر مسائل کا شکار ہوتے ہیں تو یہاں دل، گردوں، ذیابیطس سمیت دیگر امراض کے شکار کی تعداد معلوم کر لیں، وہ کروڑوں میں ہیں، وہ سب سستی اور معیاری ادویات نہ ملنے پر حکومت کو ہی بددعائیں دیتے ہیں اور جب کسی کا پیار ا ادویات نہ ملنے پر مرتا ہے تواس کی ذمہ داری بھی کسی نہ کسی پر عائد ہوتی ہے۔
یہ درست ہے کہ مشکل ترین معاشی حالات میں بھی ہماری فارماسیوٹیکل انڈسٹری نے ترقی کی ہے اور ہماری ادویات ایکسپورٹ بھی ہوتی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ترقی غریب مریضوں کی زندگیوں کی قیمت پر کی جا رہی ہے تو ہمیں اس کی اخلاقی بنیاد پر ضرور غور کرنا ہوگا۔ اگر آپ ادویات کا قحط پیدا کرکے اور انہیں کئی کئی گنا مہنگی بیچ کے منافع کماتے ہیں تو یقینی طور پر آپ جہنم کی آگ کما رہے ہیں۔ معاملہ صرف یہ نہیں کہ ادویات دستیاب نہیں بلکہ یہ بھی ہے کہ کمیشن او رکرپشن کے الزامات کے ساتھ پاکستان میں ادویات انڈیا سمیت پوری دنیا سے مہنگی بلکہ مہنگی ترین رجسٹرڈ کی جار ہی ہیں جیسے فارماسسٹ ایسوسی ایشن کے مطابق پاکستان میں بریسٹ کینسر کی دوا ’ابرانس‘ 74 ہزار510 روپوں کی رجسٹرڈ کی گئی ہے جبکہ انڈیا میں یہی دوا پانچ سے چھ ہزار روپوں میں مل رہی ہے۔ پھیپھڑوں کے کینسر کی فائزر کمپنی کی ہی دوا ’لور بریکوا‘ انڈیا میں دو لاکھ نوے ہزار انڈین روپوں کی ہے جو پاکستانی روپوں میں ساڑھے آٹھ لاکھ سے بھی اوپر کی بن جاتی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ کینسر کے مریضوں کے لئے دوا ’لوریکا‘ کی قیمت آٹھ لاکھ چھیالیس ہزار آٹھ سو ستاون روپے ہے اور اس دوا کی یہ قیمت جنوبی ایشیاء یعنی انڈیا، بنگلہ دیش سے ترکی تک ہر جگہ کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ میں اس سے پہلے انڈیا کے مقابلے میں پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں بہت زیادہ ہونے پر بات کر چکا مگر گاڑی تو ایک سہولت ہے یا عیاشی ہے جبکہ دوا زندگی ہے۔ کورونا کے دوران بھی ادویات کی خریداری کے بہت سارے سکینڈلز سامنے آئے اورجو بھی وزیر صحت بنا وہ مبینہ طور پر لمبا مال بنانے کے بعد گیا مگر کسی کو پکڑا تک نہ جا سکا۔
افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہمارے الیکٹرانک اورپرنٹ میڈیا کے بڑوں کے پاس عوام کے حقیقی مسائل کو اجاگر کرنے کا وقت تک نہیں ہے۔ عوام تک سیاست کے نام پر الزامات اور گالی گلوچ میں کہیں زیادہ دلچسپی لیتے ہیں جس کا نتیجہ ہے کہ صحت ہو یا تعلیم، انفراسٹرکچر ہو یا کوئی بھی دوسرا شعبہ، وہ نظرانداز ہو رہا ہے۔ کربناک حقیقت یہ ہے کہ ادویات کی اصل قیمتیں وفاقی یا صوبائی کسی بھی وزارت صحت کی ویب سائیٹ پر موجود نہیں ا ور اگر موجود ہیں تو اپڈیٹڈ نہیں۔ یہ طویل عرصے سے مطالبہ ہے کہ ڈرگ ایکٹ 1976 کے مطابق تمام ادویات برانڈز کی بجائے جنرک میڈیسن سسٹم کے تحت رجسٹرڈ ہوں اورپاکستان میں ایک مالیکیول، ایک سالٹ ایک قیمت کا اصول رائج کیا جائے ورنہ حالات یہ ہیں کہ ایک ہی قسم کی دوا ہر کمپنی اپنی الگ لانچ کر دیتی ہے۔ لمبا مال خرچ کر کے من پسند قیمت مقرر کروائی جاتی ہے اور پھر ڈاکٹروں کو رشوت دے کر مریضوں کے نسخوں پرلکھوائی جاتی ہے۔ ایسے میں غریب مریض دوا کے بغیر مر رہے ہیں مگر دوائیاں رجسٹرڈ کرنے والوں، بنانے والوں اور بیچنے والوں کو اپنی موت بھولی ہوئی ہے۔
Prev Post
تبصرے بند ہیں.