ایک وقت کی روٹی

79

مہنگائی فی الحقیقت بے قابو ہو چکی ہے اشیا ضرور یہ بالعموم اور اشیا خورونوش کی قیمتوں کو بالخصوص پَر لگ چکے ہیں چینی دو سو روپے کلو کا ریکارڈ بھی قائم کر چکی ہے بجلی کی قیمت بارے کچھ کہنا شاید وقت کا زیاں ہو گا کیونکہ قوم اس حوالے سے اپنے خیالات ملک گیر سطح پر ہڑتال کے ذریعے ظاہر کر چکی ہے اور حکمرانوں کے کانوں پر جوں بھی نہیں رینگی ہے ہمارے ٹیکنو کریٹ قسم کے حکمران جس میں ڈاکٹر شمشاد اختر جیسی قد آور، تجربہ کار اور بین الاقوامی اداروں میں کام کرنے کا وسیع تجربہ رکھنے والی شخصیت بھی شامل ہیں، عوامی مسائل کا ادراک کرنے اور انہیں حل کرنے میں قطعاً دلچسپی نہیں رکھتے ہیں۔ حالت یہ ہے کہ حکمران ٹیم میں سب سے زیادہ پیشہ ورانہ مہارت اور تجربہ رکھنے والی ڈاکٹر شمشاد کا یہ بیان کہ ”معاملات اتنے خراب ہیں مجھے پتا نہیں تھا“ افسوس ناک ہے پھر معاشی نابغہ ڈاکٹر وقار مسعود کے ساتھ ڈاکٹر صاحبہ کے جھگڑے کی خبریں افسوس ناک ہی نہیں مایوس کن بھی ہیں۔
بجلی بلوں پر ریلیف کے حوالے سے آئی ایم ایف نے حکومتی درخواست مسترد کر دی ہے حکومت ریلیف کے حوالے سے درست اعدادوشمار پیش کرنے میں ناکام نظر آئی۔ حکومتی اندازوں کے مطابق ریلیف دینے سے قومی خزانے پر 6 ارب روپے کا بوجھ پڑتا ہے جبکہ آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ یہ بوجھ 15 ارب روپے کا ہے اس لئے ضروری ہے بقول آئی ایم ایف کہ حکومت اس اعداد و شمار کی روشنی میں دوبارہ درخواست پیش کرے، پلان ترتیب دے۔ حکومت نے بلوں میں ریلیف دینے کے لئے آئی ایم ایف کو بجٹ سے آؤٹ نہ ہونے کی یقین دہانی بھی کرائی۔ بلوں کی 4 ماہ میں وصول کرنے کی درخواست بھی کی گئی لیکن حکومتی ریلیف پلان پر آئی ایم ایف کے ساتھ اتفاق نہ ہو سکا گویا سردست بجلی کے بل ادا کرنے کی تلوار عوام کے سروں پر لٹک رہی ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا تعلق آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے اس معاہدے کی شرائط کے ساتھ ہے جو اتحادی حکمران کر گئے ہیں، ہمارے حکمرانوں نے آئی ایم ایف کے ترلے منتیں کیں، ان کے پاؤں پکڑے، اپنے کانوں پر ہاتھ لگایا اور انہیں منایا، معاہدے پر دستخط کئے اور پھر عوام سے مبارکبادیں وصول کیں۔ شہباز شریف ہوں یا آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمان ہوں یا اسحاق ڈار سب نے خوشی کے شادیانے بجائے بلند بانگ دعوے کئے کہ ہمارا معاہدہ ہو گیا، آئی ایم ایف مان گیا ہے۔ اب بجلی، گیس، پٹرول کی قیمتوں میں اضافہ اس معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد کرنے کا نتیجہ ہے تو ہم برا منا رہے
ہیں۔ حیران کن بات ہے کہ عوامی معاملات مکمل طور پر غتر بود ہو چکے ہیں عوام کی معیشت دیوالیہ ہو چکی ہے اور اس بارے میں ہرگز ہرگز دو آرا نہیں ہیں دو وقت کی نہیں اب تو صرف ایک وقت کی روٹی کا حصول بھی مشکل ہو چکا ہے۔ توانائی کا شعبہ بہت سے ایسے مسائل میں الجھ چکا ہے کہ ان کا حل نظر نہیں آ رہا ہے۔ گردشی قرضہ ہے کہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے عالمی مارکیٹ میں تیل وگیس کے نرخوں میں اتار چڑھاؤ کے ساتھ ساتھ ڈالر کی قیمت میں عدم استحکام کے باعث ہمارے ہاں بجلی کی پیداواری لاگت اور گیس کے ترسیلی اخراجات میں شدید اتار چڑھاؤ کے باعث معاملات میں ٹھہراؤ ممکن نظر نہیں آ رہا ہے۔ اس پر مستزاد ہمارے پالیسی سازوں کی نا اہلیاں اور بدنیتیں معاملات کو بگاڑنے میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں۔ سیاسی عدم استحکام نے معاملات کو بگاڑنے اور بگاڑتے ہی چلے جانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے توانائی کے شعبے کا بگاڑ اب اس سطح تک جا پہنچا ہے کہ اسے جاری تناظر میں درست کرنا ہرگزممکن نہیں ہے۔ ویسے بگاڑ کو درست کرنے کی ”سیاسی خواہش“ بھی کہیں نہیں پائی جاتی ہے ہمارے کارپردازوں نے عوامی احتجاج کا رخ موڑنے اور انہیں ٹرک کی بتی کے پیچھے لگانے کے لئے فری بجلی استعمال کرنے والوں کے پیچھے لگا دیا۔ جب بجلی کے بلوں کے حوالے سے عوامی شوروغوغا عروج پر تھا تو ہمارے رائے عامہ کے ادارے بشمول پرنٹ، الیکٹرانک میڈیا اور دیگر نے مفت بجلی استعمال کرنے والوں کا پروپیگنڈہ کرنا شروع کر دیا تاثر یہ دیا گیا کہ اگر بجلی کی مفت سہولت بند کر دی جائے تو بجلی کی قیمت کا مسئلہ حل ہو جائے گا حالانکہ ایسا ہونا قطعاً ناممکن ہے اولاً جن لوگوں کو بجلی کے یونٹ مفت استعمال کرنے کی سہولت دی گئی ہے۔ وہ ان کی ملازمت کی شرائط کا حصہ ہے جس طرح ملازمین کو میڈیکل، بچہ پیدائش، بچہ تعلیم، نقل مکانی وغیرہم کی گرانٹس دی جاتی ہیں اسی طرح واپڈا ملازمین کو ان کے گریڈ کے مطابق مفت بجلی کی سہولت بھی دی جاتی ہے اسے واپس لینا ممکن نہیں ہے ملازمین یہ سب کچھ ایک معاہدے کے تحت حاصل کرتے ہیں یہ معاہدہ آئین اور قانون کے مطالق ہوتا ہے اسے کسی احتجاج کے نتیجے میں واپس نہیں لیا جا سکتا ہے اور عملاً ایسا ہی ہوا ہے شوروغوغا تو بہت ہوا لیکن پرنالا وہیں کا وہیں ہے۔ حکمرانوں نے درست کہا تھا کہ بل تو دینا پڑیں گے اور عملاً ایسا ہی ہونے جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف نے قسطیں کرنے کی بھی اجازت نہیں دی ہے۔
اس بارے میں کسی کو ابہام نہیں رہنا چاہئے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے کردہ شرائط کے مطابق بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں ایک خاص حد تک بڑھانا ہونگی عوام روئے، چیخے، یا چلائے اسے بلند قیمتیں ادا کرنا ہونگی۔ کسی قسم کی رعایت یا سہولت کا سوچنا بھی نہیں۔ عوامی مظاہرے، سول نافرمانی کی دھمکیاں وغیرہ کچھ بھی تبدیلی نہیں لا سکیں گی۔ پٹرول، بڑھتی ہوئی قیمت ادا کرکے ہی ملے گا، گیس کی بھی بڑھتی ہوئی قیمت ادا کرنا ہو گی، بجلی کے ناروا بل مع 7، 8 قسم کے اضافی ٹیکس بھی ادا کرنا ہونگے۔
دوسری طرف اندرون ملک پیدا ہونے والی اشیاء ضروریہ بشمول گندم، چینی، مکئی، جوار وغیرہ کی قیمتوں میں اضافہ بھی برداشت کرنا ہو گا۔ آج چینی اگر 200 روپے کلو تک جا پہنچی ہے تو اس کی وجہ گنے کی قیمت میں اضافہ نہیں ہے بلکہ یہ چینی مافیا کا نفع اندوزی کا لامتناہی رجحان ہے، سمگلنگ ہے، ذخیرہ اندوزی ہے، جس نے چینی کی قیمت کو پَر لگا دیئے ہیں۔ یہ سب لوگ کون ہیں؟ یہ مافیا کون ہیں، مل مالکان کون ہیں؟ یہ سب حکمران اشرافیہ ہے جو ہماری سیاست پر، ہماری معیشت پر، ہماری معاشرت پر سانپ کی طرح پھن پھیلائے مسلط ہے، یہ کسی کو خاطر میں نہیں لاتا ہے، یہ من مانیاں کرتا ہے، عوام کے احتجاج کی پرکاہ کے برابر حیثیت نہیں ہے۔ عوام کو مکمل بغاوت کرنے کے لئے حوصلہ کرنا ہو گا، جرأت رندانہ کا ثبوت دینا ہو گا۔ وگرنہ ایک وقت بھی روٹی کا حصول بھی ناممکن ہونے جا رہا ہے۔

تبصرے بند ہیں.