فرانس کی ملکہ میری انتونیا نے کہا ”لوگوں کے پاس اگر کھانے کو روٹی نہیں تو کیک کھالیں“۔ میری انتونیا کا یہی جملہ انقلابِ فرانس کی بنیاد بنا۔ پھر چشمِ فلک نے دیکھا کہ بدبودار کسان اُٹھے اور مراعات یافتہ طبقہ اشرافیہ کے سَروں کی فصل یوں کاٹی کہ فرانس کی گلیاں خونم خون ہوگئیں۔ اِنہی سروں میں ملکہ میری انتونیا اورشاہ لوئی کا سربھی تھا۔ تاریخ گواہ کہ بدبودار کسان پیرس کی گلیوںمیں شاہ لوئی کے سَرسے فُٹ بال کھیلتے رہے۔ میں نے اِنہی کالموں میں لکھا کہ پاکستان بھی فرانس جیسے خونی انقلاب کی طرف بڑھ رہاہے۔ آج بھی اشرافیہ اور مراعات یافتہ طبقہ اپنی عیاشیوں میں گم اور بھوکوں مرتی قوم سڑکوں پر احتجاج کرتی ہوئی۔ ضروریاتِ زندگی کی ہر شے عوام کی پہنچ سے باہر۔ جہاں ایک پنکھے کا بِل دَس بارہ ہزار روپے ماہانہ آئے وہاں انقلاب تو آیاہی کرتے ہیں۔ٹیکسوں کی صورت میں عوام کی رگوں سے نچوڑے گئے خون سے وزیرِاعظم، وفاقی وزراءاور صوبائی حکومتوں کو بجلی، گیس اور پٹرول سمیت ہرشے مفت نصیب ہورہی ہے۔ عدلیہ کی مراعات کی طرف نظر دوڑانے پر انسان حیرتوں میں گُم ہو جاتاہے۔ یہ فہرست اتنی طویل کہ گنتے جائیے اور سر دھنتے جائیے۔ ہے کوئی مائی کا لال معیشت دان جو 50 ہزار روپے ماہانہ پانے والے کہ گھر کا بجٹ بنا کر دکھاسکے۔
یوں تو مہنگائی کے اِس طوفان میں سابقہ جمہوری حکومتوں کا بھی حصہ ہے لیکن اصل مجرم لاڈلا جو اب اٹک جیل میں بیٹھا چیخیں مار رہاہے۔لاڈلے کے ساڑھے تین سالہ دورِحکومت میں سیاسی قیدیوں کی فہرست طویل جس میں میاں نوازشریف، میاں شہبازشریف، حمزہ شہباز، آصف زرداری، خواجہ آصف، خواجہ سعدرفیق، احسن اقبال، راناثناءاللہ، مریم نواز اور فریال تالپور شامل ہیں۔ سیاسی قیدیوں کی فہرست گنوانے پہ آؤں تو پورا کالم کم لیکن میں نے صرف اُن چند اہلِ سیاست کا ذکر کیاہے جن کے سامنے لاڈلا ابھی طفلِ مکتب۔ اُس کی سیاست غروروتکبر، ضد، انانیت اور نرگسیت پر مشتمل تھی جو ڈکٹیٹروں کا خاصا ہے، سیاستدانوں کا نہیں۔ مجھے یقین کہ اگر سابق آرمی چیف جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید کو لاڈلے کی اِن ”خوبیوں“ کا ادراک ہوجاتا تو وہ کبھی اِس ”لنگڑے گھوڑے“ پر داو¿ نہ لگاتے۔ سطورِبالا میں جن سیاستدانوں کا ذکر کیا گیااُنہوں نے کارزارِسیاست میں قدم رکھنے کے بعد متعدد بار قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر اُف تک نہ کی۔ اُدھر لاڈلا ہے کہ محض چند دنوں میں ہی اٹک جیل سے اُس کی چیخیں سنائی دینے لگیں حالانکہ اپنے دَورِحکومت میں تو وہ تین بار کے منتخب وزیرِاعظم میاں نوازشریف سمیت ہرقیدی کوC کلاس دینے کا قائل تھا۔ واشنگٹن ڈی سی میں اُسی نے پاکستانی کمیونٹی کو خطاب کرتے ہوئے کہاتھا کہ اگر میاں نوازشریف کو مطلوبہ سہولتیں دے دی جائیں تو پھر وہ جیل تو نہ ہوئی۔ پھر اُس نے مُنہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ”میں پاکستان جا کر یہ تمام سہولیات واپس لے لوںگا“۔ یہ بھی محض اتفاق ہی ہے کہ اُن دنوں ہم بھی واشنگٹن ہی میں تھے۔
ہماری اطلاع کے مطابق لاڈلے کو اٹک جیل میں B کلاس کی تمام سہولیات میسر ہیں البتہ اُنہیں گلہ ہے کہ اُن کی بیرک میں کیمرے لگے ہوئے ہیں اور واش روم کی دیوار چھوٹی ہے جس پر خواجہ آصف نے ٹویٹ کیا ”عمران خاں نے جیل میں رہائش پہ کیمروں کی تنصیب پر شدید اعتراض کیاہے۔ جب میں کوٹ لکھ پت جیل میں عمران خاں کی فرمائش پر قیدتھا تو اپنی بیرک کے کیمرے گنتا تھا تو بھول جاتاتھا۔ یہ کیمرے عمران خاںکی فرمائش پر لگے تھے۔ اللہ سے ہر وقت معافی مانگنی چاہیے۔ وقت سدا ایک جیسانہیں رہتا“۔ یہی تو مکافاتِ عمل جس کا لاڈلا شکار۔ حیرت ہے کہ جب میاں نوازشریف اور مریم نواز جیل میں تھے تب تو کسی چیف جسٹس کو خیال نہیں آیا کہ حکومت سے اُن کی حالتِ زار معلوم کرنے کا حکم صادر فرماتے۔ اب چیف جسٹس ہائیکورٹ محترم عمرعطا بندیال نے اٹک جیل میں لاڈلے کی حالت معلوم کرنے کا حکم صادر فرمایا۔ اُنہوں نے 23 اگست کو لاڈلے کی اپیل پر فیصلہ ہی سنادیا کہ ٹرائل کورٹ کا حکم درست نہیں۔ اُنہوں نے فرمایا کہ چونکہ یہی کیس اسلام آباد ہائیکورٹ میں زیرِسماعت ہے اِس لیے پہلے ہائیکورٹ کے فیصلے کا انتظار کر لیتے ہیں۔ فیصلے میں لکھاگیا ”اسلام آباد ہائیکورٹ کے احترام میں عدالت کل تک کا انتظار کرے گی۔ اُنہوں نے کیس کی سماعت 24 اگست دوپہر 2 بجے تک ملتوی کر دی۔ محترم عمرعطاءبندیال
کے ریمارکس سے صاف عیاں ہوتاہے کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس محترم عامر فاروق پر محض لاڈلے کی خاطر دباؤ ڈالا جا رہاہے۔ عدل کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ایک چیف جسٹس دوسرے چیف جسٹس پر ایک ہی دن میں فیصلہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالے لیکن لاڈلا تو لاڈلاہے جس کی خاطر آئین وقانون کی ہر کتاب سے صرفِ نظر کیا جا سکتاہے۔ محترم چیف جسٹس عامرفاروق نے بہرحال یہ دباؤ قبول نہیں کیا۔ 24 اگست کو اُن کی عدالت میں کیس کی سماعت ہوئی جسے 25 اگست تک ملتوی کر دیاگیا اور 25 اگست کو الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز بیمار ہوگئے تو عدالتی کارروائی سوموار 28 اگست تک ملتوی کر دی گئی جس پر لاڈلے کے وکیل لطیف کھوسہ نے تَپ کر کہہ دیا کہ اب وہ اِس عدالت میں پیش نہیں ہو گا۔ حیرت ہے کہ ایک طرف تو لطیف کھوسہ کا کہناہے کہ ٹرائل کورٹ کے جج ہمایوں دلاور نے فیصلہ کرنے میں انتہائی عجلت سے کام لیا جبکہ دوسری طرف وہ اِسی عجلت کا تقاضا اسلام آباد ہائیکورٹ سے کر رہاہے۔ محترم عامر فاروق نے لطیف کھوسہ کو باربار یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ دوسرے فریق کو سُنے بغیر فیصلہ نہیں کیا جا سکتا لیکن کھوسہ صاحب کا تقاضا تھا کہ پہلے لاڈلے کی سزا معطل کی جائے، کیس کی شنوائی بعد میں ہوتی رہے گی۔ ایسی باتیں کسی سینئر وکیل کی زبان سے سُن کر ہنسی آتی ہے۔ بہرحال اِسی غصے میں کھوسہ صاحب اپنے حواری وکلاءسمیت لفٹ میں سوار ہوگئے لیکن مقررہ وزن سے زیادہ تعداد ہونے کی بناپر لفٹ خراب ہوکر دوسری منزل پر رُک گئی۔ پون گھنٹے بعد کھوسہ صاحب اور دیگر افراد کو لفٹ کا دروازہ توڑکر نکالاگیا۔
عمران خاں اب بھی اٹک جیل میں ہے اور فی الحال رہائی کی کوئی صورت بھی نہیں۔ وجہ یہ کہ دیگر کئی کیسز میں بھی لاڈلے کے وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں اور شنید ہے کہ جب 24 اگست کو اسلام آباد ہائیکورٹ میں سماعت ہو رہی تھی تو عمومی سوچ یہی تھی کہ لاڈلے کو ضمانت مل جائے گی۔ تب بھی اٹک جیل کے باہر پولیس کی بھاری نفری پہنچ چکی تھی۔ اِس وقت لاڈلا FIA کو مطلوب ہے اور نیب کوبھی۔ اِس کے علاوہ 9 مئی کی دہشت گردی کی کارروائیوں میں بھی اُس کی ضمانت کینسل ہوچکی ہے۔ اِس لیے میرا خیال ہے کہ لاڈلے کے ساتھ بھی وہی سلوک ہونے والاہے جو تحریکِ انصاف کے صدر چودھری پرویزالٰہی کے ساتھ ہو رہاہے۔ لاڈلے کو مسلط کرنے کی سازش میں جنرل احمدشجاح پاشا اور جنرل ظہیرالاسلام بھی برابر کے شریک ہیں۔ بھوکوں مرتی قوم کا سوال ہے کہ آخر یہ لوگ گھروں میں بیٹھے چین کی بانسری کیوں بجا رہے ہیں؟۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.