ایک طرف بھارت سمیت کئی ترقی کے دعویدار ممالک خلانوردی کرتے چاند پر چڑھے چلے جا رہے ہیں۔ دوسری طرف زمین کو اتنا ہی ناقابلِ بود وباش بنانے میں ہمہ تن مشغول ہیں۔ اعلیٰ تعلیم اور سائنسی افق پر تھگلیاں لگاتے، یہاں عدم برداشت اور غنڈا گردی میں وحشت وسربیت کے سارے ریکارڈ توڑ رہے ہیں۔ خواہ وہ ڈیڑھ ارب آبادی کا بھارت ہو یا محض 90لاکھ آبادی رکھنے والا فلسطینی سرزمین پر قبضے کرتا، یہودی آبادکاری میں فلسطینیوں کا اجاڑتا اسرائیل ہو۔
بھارت اور اسرائیل گزشتہ کچھ عرصے میں پوری شدت سے مقامی آبادیوں، اقلیتوں پر وحشیانہ انداز میں یوں چڑھ دوڑے ہیں کہ میڈیا میں نازی جرمنی دور سے مماثلث کی بات ہونے لگی ہے۔ بھارت کو دیکھیے تو منی پور میں اچانک لہر اٹھی اور ہندو پرتشدد جتھوں نے پورے گاؤں جلا دیے۔ 100سے زائد بے گناہ شہریوں کو مار ڈالا۔ کیتھولک، پروٹسٹنٹ چرچوں کو تباہ کیا۔ عیسائیوں کو کھل کر نشانے پر رکھ لیا۔ 80دن تک انٹرنیٹ بلاک کیے رکھا کہ کسی کو خبر ہی نہ ہو۔ ڈیڑھ لاکھ افراد منی پور سے نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ عیسائی خواتین پر مجرمانہ حملوں کی درندگی کا ارتکاب بھی ہوا۔ مودی کو 80دن لگے زبان کھولنے اور مذمت کرنے پر! بھارت بھر کی عیسائی کونسل کے صدر آرک بشپ ڈی سوزا نے کہا: ’یہ وہ بھارت نہیں ہے جسے ہم جانتے تھے۔‘ مغربی دنیا کی آنکھوں کا تارا بھارت! ہم سے پوچھا ہوتا! زعفرانی ہندوتوا غنڈے عیسائی عورتوں کو برہنہ کرکے پھرانے پر اتر آئے تو دنیا نے بھارت کا حقیقی چہرہ دیکھا۔ اب جب بھارت بھر میں منی پور، ہریانہ، گجرات، آسام، تریپورہ سمیت جابجا اقلیتوں کا تحفظ تارتار ہوا تو دنیا کو کچھ ہوش آئی۔
بھارت میں تنفر کی شدید لہر اور اقلیتوں پر ٹوٹ پڑنے کی بدنامی، قتلِ عام نما حملوں کی پردہ پوشی درکار تھی، چنانچہ ’را‘ کے ذریعے (جس کے شواہد مل چکے ہیں) جڑانوالہ میں بھڑکا دیے جانے والے واقعہ برپا کر کے دنیا کی توجہ ہٹانے کا کماحقہ سامان کیا گیا اور دنیا کو تو موقع چاہیے پاکستان کو مطعون کرنے کا۔
پہلے ذرا بھارت میں مسلمانوں کی منظم نسل کشی کی مہم دیکھ لیجیے، پھر جڑانوالہ پر اسی تناظر میں بات ہوگی۔ ایک رپورٹ (’ہندو تہواروں کو ہتھیاروں سے لیس کیا جانا‘: مسلم نیوز) بھارت میں تسلسل سے 2022ءسے دیکھے جانے والے طریقِ واردات سے پردہ اٹھاتی ہے۔ ہندوتوا پارٹیوں کا اکٹھ بڑے جلوس لے کر رواں دواں ہوتا ہے، زعفرانی غنڈے نعرہ زن۔ مسلمانوں پر خودساختہ الزامات کی بوچھاڑ۔ ان کے خلاف معاشی، معاشرتی، کاروباری ہر قسم کے بائیکاٹ کی للکاریں۔ وڈیوز میں چہروں پر برستا تنفر، وحشت، خوفناک عزائم دیدنی ہیں۔ حتیٰ کہ ایک جگہ سٹیج پر نوعمر لڑکے لڑکیاں بھی (زیر تربیت ہندوتوا) نفرت انگیز ڈرامے رچاتے موجود ہیں۔ طے یہ کرلیا گیا کہ ہر ہندو تہوار پر یہ جتھے مسلح ہوکر نکلیں گے اور مسلمانوں کو للکاریں گے، ان سے نمٹیں گے۔ مثلاً دہلی میں اپریل 2022ءمیں شوبھا یاترا ،مسجد کے سامنے نکالی۔ مسجد پر جھنڈا لہرانے کی کوشش کرتے ہوئے تلواریں، چاقو، چھرے لہراتے ڈنڈے اٹھائے، مسلم دشمن نعرے لگاتے مسجد پر ٹوٹ پڑے۔ پولیس دارالحکومت میں تماشائی بنی دیکھتی رہی۔ مسلمان خود اپنی جانیں، مساجد، مقدسات گھربار بچا سکیں تو بچا لیں۔ ہریانہ میں
300بلڈوز ہوتے گھر، مساجد پر حملے ان کے ہاتھوں جابجا دیکھے جا سکتے ہیں۔ روتی عورتیں بچے بوڑھے۔ گلبرگا، کرناٹکا میں، راجستھان، غازی پور، جہانگیرپوری، دہلی، جھاڑکھنڈ، مدھیا پردیش، گجرات، گوا، ہر جگہ ماردھاڑ، بلڈوز کرنے کے مناظر دہرائے جا رہے ہیں۔ مسلمان رپورٹ درج کرانا چاہیں تو درج نہیں کی جاتی الٹا انہی کو ہراساں یا گرفتار کرلیا جاتا ہے۔ ایک نابینا کے گھر پر حملہ، خود نابینا پر تشدد، بیٹی کے کپڑے پھاڑے اور اس کی بے حرمتی کے ارادے کا اظہار کیا۔ خوف کی چادر مسلم آبادیوں پر تنی ہے۔ جماعت اسلامی ہند نے پریس کانفرنس (نئی دہلی) میں بتایا کہ 2019ءتا 2021ءملک بھر سے 13لاکھ سے زائد لڑکیاں اور خواتین لاپتا ہوئی ہیں نیشنل کرائم بیورو رپورٹ کے مطابق۔ جو رپورٹ نہیں ہوئیں وہ اس سے سوا ہیں۔ یہ ہے عالمی طاقتوں اور مشرقِ وسطیٰ کے محبوب مودی کا بھارت! اب بین الاقوامی ارادے بھارت کے اسلاموفوبیا گڑھ ہونے کا اعتراف کر رہے ہیں۔ ان حالات کو 1930 ءتا 1940ءنازی جرمن جتھوں سے تشبیہ دی جا رہی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ مغربی دنیا کل اور آج یہودیوں کے لیے حساس اور پشت پناہ تھی۔ مسلمانوں کا پرسانِ حال کوئی نہیں۔ بھارتی مسلمان ہوں یا کشمیری اور فلسطینی۔ بااثر مسلم ممالک بھارت کے ساتھ معاشی معاہدات، سرمایہ کاریوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ حتیٰ کہ کشمیری بھائیوں کی بھارتی شکنجے میں پھنسی جان کے علی الرغم اماراتی وہاں (غیرمشروط) سرمایہ کاری کے مواقع تلاش رہے ہیں!
بھارت میں ہندوتوا قیامتوں سے صرفِ نظر کرکے، علماءکی عالمی کانفرنس کا سعودی عرب میں ایجنڈا، مسلمانوں کو انتہاپسندی سے روکنے (یعنی خاموشی سے مار کھانے اور مر جانے) رواداری، برداشت (گھروں، مساجد کی بلڈوزنگ اور توہین قرآن پر؟) کا مادہ پیدا کرنے پر مرکوز ہے! یا للعجب!
ادھر فلسطینیوں کی کس مپرسی کی انتہا یہ ہے کہ ایک سابق اسرائیلی میجر جنرل عامریم لیون جو موساد کا بھی سربراہ رہ چکا ہے چلّا اٹھا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں ان کے ملک کی کارروائیاں نازی جرمنی کے تابع نسلی امتیاز سے مشابہ ہیں۔ اسرائیلی براڈ کاسٹر ’کان ریڈیو‘ سے بات کرتے ہوئے جنرل نے کہا کہ اسرائیلی فوج اب جنگی جرائم میں شریکِ کار بن چکی ہے۔ جو نازی جرمنی میں ہوا یہ اسی کی یاد تازہ کر رہا ہے۔ جب پوچھا گیا کہ کیا اسرائیلی اقدامات یورپ میں ہونے والے ہولوکاسٹ تک پہنچانے والے حالات جیسے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہیبرون میں گھوم پھر کر دیکھ لو کہ عرب وہاں سڑکوں پر چل پھر نہیں سکتے۔ اگرچہ یہ تکلیف دہ اور ناخوشگوار ہے۔ یہ بات کہنا مشکل ہے مگر سچ یہی ہے۔ آواز اٹھانے والے اسرائیل میں یہودی جرنیل اور بھارت میں ہندو خاتون اروندھتی رائے ہے مسلمانوں کے حق میں۔ مسلم قیادت منہ موڑے اپنے مفادات سمیٹ رہی ہے۔ یاد رہے کہ مودی امارات سے سب سے بڑا سول ایوارڈ پا چکا ہے!
پاکستان ہمیشہ سے اقلیتوں کی جنت رہا۔ جڑانوالہ واقعہ ہونے کی دیر تھی، (بھارت اور سویڈن میں اسلاموفوبیا تناظر میں دیکھیے۔) حقائق کی تفتیش تحقیق سے بھی پہلے پورا ملک ججوں، جرنیلوں، میڈیا، دینی شخصیات سمیت اقلیت کی نازبرداری میں ہمہ تن مصروف ہوگیا۔ مسلمان کے مزاج میں چرچ جلانا یا ان کے مقدسات کی بے حرمتی نہیں ہے۔ یہ طے شدہ واردات تھی، تاہم چھوٹی سی آبادی، تنگ گلیوں میں بہت چھوٹے مکانوں میں جزوی نقصان کے عوض(سرکاری تخمینے سے بھی پہلے!) فوری 20 لاکھ فی گھر کا اعلان۔ (عوام کی جیب میں ہاتھ ڈال کر یہ پیسہ نکالا جاتا ہے۔ مال مفت دل بے رحم۔ مہنگائی، بے روزگاری سے خودکشی کرتے اور بچوں کو زہر دے کر مارتے عوام!)منی پور میں تادیر چپکے رہنے والے امریکا نے فوراََہمیں ڈپٹ لگا دی! یہ بھی مدنظر رہے ہمیں رواداری بھاشن دینے والوں کے، کہ اتنی سی آبادی میں ہر نوعیت کے 19چرچ تھے؟ زیادہ تر غیررجسٹرڈ۔ مساجد مدارس پر قدغن اور اقلیت پر مہربانی کے اس غیرمعمولی مظاہرے کے باوجود ہمارا دیوار سے لگا دیا جانا؟ مغرب میں بھی مساجد بنانے چلانے اور اسلاموفوبک وارداتوں کا عالم ملاحظہ رہے۔ سویڈن، ڈنمارک اور اب نیدرلینڈ میں توہین قرآن کا لامنتہا تسلسل۔ اس پر بھی بین المذاہب ’ہارمنی‘ کا ہارمونیم ہم ہی بجاتے رہیں؟
نیدرلینڈ میں جب قرآن پھاڑ پھینکنے والے کو مسلمانوں نے پکڑنا چاہا تو مقامی پولیس نے مجرم کو تحفظ دیا! اس تناظر میںہمارے فدا اور نچھاور ہونے کے باوجود ہم ہی برے ہیں۔ بھارت میں مسلمانوں کے قتلِ عام پر ہمارا میڈیا، دانشور منہ موڑے بیٹھے ہیں۔ فلسطین سے گویا ہمارا کوئی رشتہ ناتا ہی نہیں۔ کون سا ملک ہے جو پاکستان کی طرح اقلیت کو دوہرے ووٹ کا حق دیتا ہے۔ سارا نزلہ توہینِ رسالت قانون ہی پر گرایا جاتا ہے تاکہ توہینی واقعات کے ارتکاب کی کھلی چھٹی ہو۔ پاکستان اپنی معاشی کسمپرسی کے ہاتھوں، ’غریب کی جورو سب کی بھابھی ‘ کے مصداق ہو چکا ہے۔ انصاف اور غیرت کے سبھی تقاضے بھلاکر!
افسوس کہ ملت کی جو عظمت تھی گنوا دی
Prev Post
تبصرے بند ہیں.