سانحہ جڑانوالہ۔۔۔۔۔۔!

23

مسئلہ تربیت کا لگتا ہے، ورنہ تو قرآن پاک کی آیت مبارکہ کا مفہوم ہے کہ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو اگر کوئی فاسق آدمی تمہارے پاس کوئی خبر لائے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کوئی نقصان پہنچا بیٹھو کسی قوم کو بے علمی (و نادانی)کی بنا پر تو پھر اس کے نتیجے میں تمہیں خود اپنے کیے پر شرمندگی اٹھانا پڑے۔ مسئلہ تربیت کا لگتا ہے، ورنہ آپ آئین پاکستان کو پڑھ لیں، کہاں یہ لکھا ہے کہ آپ بغیر تحقیق کے خود فیصلے شروع کر دیں۔ مسئلہ تربیت کا ہی لگتا ہے کہ یہاں ہجوم نے فیصلے شروع کر دیے ہیں، بلکہ ہمارا تو حساب ایسا ہو چکا ہے کہ کہیں بھیڑ لگی ہو تو ہم اپنا پورا وقت اس بھیڑ کو سمجھنے میں لگا دیتے ہیں، بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہاں ”تماشا“ ہو رہا ہے۔۔۔ واقعی! یہ ملک تماش گاہ بن چکا ہے۔ میں جب بھی بیرون ملک جاتی ہوں، سیکڑوں سوالوں کے جواب دینا پڑتے ہیں، اس ملک میں کوئی رول اینڈ لا ہے کہ نہیں؟ ہمارا ملک کب ٹھیک ہو گا، یہ ملک ٹھیک ہو گا بھی یا نہیں؟ اس ملک کے باسیوں میں اتنی بے چینی کیوں پائی جاتی ہے؟ یقین مانیں میرے پاس الفاظ نہیں ہوتے۔۔۔ اور پھر جب جڑانوالہ جیسے واقعات رونما ہوتے ہیں تو سر شرم سے جھک جاتے ہیں۔ ہم اکثریت ہیں، ہمیں اقلیت سے کیسے خطرہ ہو سکتا ہے! لیکن کوئی سمجھنے کو تیار ہی نہیں کہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونے والا ہے؟ آپ جڑانوالہ کی ایک لڑکی سندس کی روداد سن لیں، وہ کہتی ہیں ”بدھ کے روز یہاں شور مچا تھا کہ وہ آ رہے ہیں، سب کو مار دیں گے، آگ لگا دیں گے۔ اپنے بچے لو اور یہاں سے بھاگ جاؤ، اس لیے ہم بھاگ گئے اور قریبی کھیتوں میں خوف کے عالم میں رات گزاری، پھر اگلے دن جمعرات کو جب واپس گھر آئے تو اپنے گھر کو دیکھ کر چیخیں نکل گئیں، ہم دھاڑیں مار مار کر رونے لگے، میری تین ماہ بعد شادی تھی، میرے بابا نے ساری زندگی ایک ایک پائی جمع کر کے میرے جہیز کا سامان بنایا تھا، وہ سب کچھ جلا کر راکھ بنا دیا گیا تھا،گھر جیسے یہاں ڈاکہ پڑا ہے۔ سامان ٹوٹا پھوٹا اور بکھرا پڑا تھا، لوگ کھانے والے برتن اور پہننے والے کپڑے بھی لے گئے تھے“۔ سندس کی شادی اسی سال کے نومبر میں ہے۔ سندس کو نہیں معلوم کہ اب اتنے کم وقت میں جہیز کا سامان کہاں سے آئے گا اور آئندہ زندگی کیسی ہو گی لیکن وہ اکیلی نہیں کیونکہ جڑانوالہ کی مسیحی برادری کی زیادہ تر بستیوں کی یہی کہانی ہے۔ انہیں نہیں معلوم کہ وہ دوبارہ کبھی اسی بستی میں اسی طرح بغیر خوف اور خطرے کے رہ پائیں گے۔ اہم بات یہ ہے کہ واقعہ یعنی ”واردات“ وہی پرانی تھی، کہ جڑانوالہ کے علاقے کے سنیما چوک کے پہلو میں مسلمانوں کے محلے کی ایک گلی کی نکڑ سے چند اوراق ملے تھے، جس کے بعد وہاں لوگوں میں سخت غصہ تھا۔ مقامی لوگ کہتے ہیں کہ یہ قرآن کے اوراق تھے جن کی مبینہ طور پر بے حرمتی کی گئی تھی۔ ان کے مطابق مبینہ بے حرمتی کرنے والے باپ اور بیٹے کی تصویر بھی ایک ورق پر موجود تھی اور ان کا نام پتا بھی لکھا ہوا تھا۔ (حالانکہ جنہوں نے یہ کام کرنا تھا، وہ کیوں کر اپنا نام اور تصاویر جلے ہوئے نسخوں کے ساتھ رکھتے) خیر اس بات کی اطلاع ساتھ جڑے مسیحی برادری کے محلے تک پہنچ چکی تھی۔ وہاں کے رہنے والوں کو معلوم تھا کہ اس کا کیا مطلب ہو سکتا ہے۔ پھر کچھ ہی دیر میں پاس کی مسجد سے اعلانات ہونے لگے۔ ان اعلانات میں مسلمانوں کو سڑکوں پر آ کر احتجاج کرنے کا کہا جا رہا تھا۔ اس کے بعد جو لوگ کسی امید پر پیچھے رکے تھے وہ بھی گھر چھوڑ کر بھاگ گئے۔ جن کے رشتہ دار قریب فیصل آباد شہر میں رہتے ہیں وہ ان کے پاس چلے گئے، جن کا کوئی اور نہیں تھا انھوں نے اپنی خواتین اور بچوں سمیت کھیتوں میں پناہ لی۔ کچھ ہی دیر میں جتھوں کی شکل میں ہجوم عیسیٰ نگری کے کیتھولک سینٹ پال چرچ کے سامنے جمع ہونا شروع ہو گیا۔ ان میں سے کچھ نے ڈنڈے اٹھا رکھے تھے، کچھ کے پاس مٹی کے تیل کی بوتلیں تھیں۔ وہ چرچ کو جلانا چاہتے تھے۔ ابتدائی طور پر چند پولیس اہلکاروں اور مقامی مسیحی برادری کے چند بچے کھچے مردوں نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن ہجوم بڑھتا جا رہا تھا اور جلد ہی انہوں نے چرچ پر دھاوا بول دیا۔ یہ قیامت کا منظر ہو گا، ان لوگوں کے لیے جو گزشتہ کئی دہائیوں سے یہاں رہ رہے تھے، ہجوم نے چرچ میں گھس کر توڑ پھوڑ کی، سامان اٹھا کر باہر پھینکا اور پھر چرچ کو آگ لگا دی۔ وہ وہاں سے مڑے تو چرچ کے آس پاس اور سامنے والے کئی گھروں کو آگ لگائی۔ یہ دو یا تین مرلے کے چھوٹے چھوٹے گھر ہیں جو پرانے طرز پر بنے ہیں۔ پھر ہجوم میں سے کسی نے آواز دی کہ ان مردوں کا گھر چرچ کے عقب والی گلی میں ہے جنھوں نے مبینہ طور پر قرآن کے اوراق کی بے حرمتی کی تھی۔ توڑ پھوڑ کرتا ہوا ہجوم اس گلی کی طرف چل پڑا۔ پھر اگلے چند ہی منٹوں میں اس خاندان کا گھر، موٹرسائیکلیں، گھر کا سامان مکمل طور پر جل کر خاک ہو چکا تھا۔ اس سارے سانحے کی پوری دنیا میں میڈیا کوریج ہوئی اور ایک بار پھر پاکستان دنیائے عالم میں رسوا ہوا۔ کیوں کہ اس سانحے میں ایک دو نہیں پورے 20 چھوٹے بڑے چرچ کو آگ لگائی گئی اور 100سے زائدگھروں کو جلایا گیا۔ بہرحال جو بھی ہوا، اس سے بڑا ظلم کسی ریاست میں نہیں ہو سکتا۔ ہم روزانہ بھارت کا ”مکروہ“ چہرہ دکھاتے ہیں مگر اپنا چہرہ دیکھنا بھول جاتے ہیں۔ ہمیں پاکستان میں رہتے ہوئے شاید یہ بات زیادہ عجیب نہیں لگتی مگر دنیا ہمیں جس زاویے سے دیکھتی ہے وہ بہت خطرناک ہے۔ وہ ہمیں شدت پسند، انتہا پسند، دقیق نظریے کے حامل تنگ نظر لوگ، متعصب کم ہمت و کم حوصلے والے افراد، بیزار لوگ اور ناجانے کن کن القابات سے پکارتے ہیں۔ جب ہمارے ہاں کوئی ایسا واقعہ رونما ہو جاتا ہے پھر تو انتہا ہو جاتی ہے۔ آئین کے رکھوالے اس حوالے سے مستقل خاموش ہیں۔ اُمید ہے اس سانحے کے بعد ہمارے فیصلہ کرنے والے ادارے اس پر بھی سنجیدگی سے غور کریں گے۔ ورنہ ہم اپنے اقلیتی بھائیوں سے اتنا تو کہہ ہی سکتے ہیں ”آئی ایم سوری“، اُس کے بعد آپ کون اور میں کون؟

تبصرے بند ہیں.