لاکھوں مسلمانوں کی قربانیوں سے پاکستان وجود میں آیا

41

برصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظمؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں کلمہ طیبہ کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا۔ایک طرف قومیت تھی تو دوسری طرف دو قومی نظریہ تھا۔ اس وقت کچھ لوگ متحدہ قومیت اور کچھ لوگ اسلامی قومیت کے حامی تھے۔ انہوں نے مسلم لیگ کے دوقومی نظریہ کی حمایت کی۔
پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر 14-13 اگست کی درمیانی شب 12 بجے دنیا کے نقشے پر ظہور پذیر ہوا۔ آ ل انڈیا کانگریس، جمعیت علما ہند، مجلس احرار اور متحدہ قومیت کے رہنماؤں مولانا حسین احمد مدنی، مولانا ابوالکلام آزاد اور پنجاب میں یونینسٹ پارٹی کی پرزور مخالفت کے باوجود پاکستان کا قیام ایک تاریخی معجزہ ہے۔ انگریز حکمران کانگریس، جمعیت علماء ہند اورمجلس احرار کی پشت پر تھے لیکن برصغیر کے مسلمانوں نے قائد اعظمؒ کی قیادت میں انگریزوں، ہندوؤں اور متحدہ قومیت کے حامیوں کو شکست دی اور علامہ اقبالؒ کے 1930ء کے مشہور زمانہ خطبہ الٰہ آباد کی روشنی میں شمالی ہندوستان میں اکثریت کی بنیاد پر علیحدہ وطن معرض وجود میں آیا۔ قانون آزادی ہند1947ء سے پہلے طے ہوا تھا کہ پنجاب اور بنگال تقسیم نہیں ہوں گے لیکن انگریز وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور کانگریسی رہنماؤں کی سازش کی وجہ سے پنجاب اور بنگال کو تقسیم کر دیا گیا۔
تحریک پاکستان کے کارکن کی حیثیت سے راقم الحروف کہنا چاہتا ہے کہ پنجاب میں مسلم لیگ نے کل 86مسلم نشستوں میں سے 79نشستیں جیت لیں اس طرح پنجاب میں مسلم لیگ واحد اکثریتی جماعت تھی لیکن انگریز گورنر نے پنجاب مسلم لیگ پارلیمانی پارٹی کے رہنما نواب افتخار الحسن ممدوٹ کو حکومت سازی کی دعوت نہ دی کیونکہ وہ انگریز وائسرائے کے زیر اثر تھے۔ متحدہ قومیت کے علمبرداراور قائد اعظمؒ کے بقول کانگریسی شو بوائے مولانا ابوالکلام آزاد دہلی سے بذریعہ جہاز لاہور آئے اور انہوں نے کانگریس، اکالی دل اور یونینسٹ پارٹی سے ملاقاتیں کیں۔ پھر یونینسٹ پارٹی نے کانگریس اور اکالی دل کے ساتھ مل کر خضر حیات ٹوانہ کی قیادت میں حکومت بنائی۔ اس فیصلے کے خلاف پنجاب بھر میں بالعموم اور ہندوستان کے بڑے سیاسی مرکز امرتسر میں زبردست مظاہرے شروع ہوگئے اور ٹوانہ کو ایک ماہ بعد ہی مستعفی ہونا پڑا۔
راقم الحروف سیکڑوں مسلم لیگی کارکنوں اور رہنماؤں بشمول شیخ صادق حسن، مولوی سراج الدین پال ایڈووکیٹ، خواجہ محمد رفیق، ذکی الدین پال، تقی الدین پال اور عزالدین پال جو ان مظاہروں کی قیادت کرتے تھے، کے ساتھ مظاہروں میں شریک ہوتا تھا۔ مجھے بخوبی یاد ہے کہ جب مسلم نوجوان خضر حیات ٹوانہ کے خلا ف مظاہرے کرتے تو ہندو سکھ مظاہرین پر پتھراؤ کرتے تھے۔
13 اور 14 کی درمیانی رات کو کپور تھلہ، نابھہ، پٹیالہ اور چمبہ کی ریاستوں کی پولیس اور سکھوں پر مشتمل مسلح جتھوں نے چاروں طرف سے امرتسر پر حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں ہزاروں مسلمان شہید ہوگئے۔ نام نہاد اکالی رہنما ماسٹر تارا سنگھ نے پنجاب اسمبلی کے سامنے کرپان لہرا کر کہا تھا کہ ہم پنجاب میں مسلمانوں کا قتل عام کریں گے۔ وائسرائے ہند، پنجاب کے انگریز گورنر اور لیفٹیننٹ کرنل ایوب خان مسلمانوں کا قتل عام روکنے میں ناکام رہے۔
مغربی پنجاب میں تعینات لیفٹیننٹ کرنل محمد موسیٰ نے پنجاب کے مسلمانوں کے قتل عام کو روکنے کیلئے بلوچ رجمنٹ امرتسر بلوائی اور مسلم فوجیوں کی کارروائی سے کثیر تعداد میں سکھ مارے گئے۔ بلوچ رجمنٹ کے کمانڈر نے اعلان کیا کہ امرتسر اور گردونواح کے مسلمان ریلوے سٹیشن پر جمع ہوجائیں جنہیں یہاں سے فوج کی نگرانی میں لاہور منتقل کیا جائیگا۔
13 اگست کو امرتسر سے پہلی ٹرین لاہور روانہ ہوئی جو والٹن (لاہور) میں آ کر رکی۔ اسی لئے مسلم لیگی حکومت نے والٹن میں باب پاکستان بنانے کا فیصلہ کیا جس کا تین دفعہ سنگ بنیاد رکھا جا چکا ہے مگر تاحال والٹن میں باب پاکستان تعمیر نہ ہوسکا۔
راقم الحروف ان ہزاروں مسلمانوں میں شامل تھا جو اس وقت امرتسر ریلوے سٹیشن پر موجود تھے۔ 12 بجے سے چند منٹ پہلے بتایا گیا کہ چند منٹ بعد نیا اعلان ہوگا۔ 12 بجے یہ اعلان کیا گیا کہ یہ پاکستان براڈ کاسٹنگ سروس، ریڈیو پاکستان ہے۔ انگریزی میں یہ اعلان ظہور آذر اور اردو میں مصطفی علی ہمدانی نے کیا۔ اس کے بعد مصطفی علی ہمدانی کی زبانی خبریں سنیں۔ جب یہ اعلان ہوا تو امرتسر ریلوے سٹیشن اور شہر بھر میں پاکستان زندہ باد کے پرجوش نعرے لگائے گئے اور پھر تقریباً ایک گھنٹہ بعد امرتسر سے مہاجرین کو لے کر دوسری ٹرین پاکستان روانہ ہوئی۔ نماز فجر سے ایک گھنٹہ قبل یہ ٹرین منٹگمری پہنچی۔ مہاجرین کو منٹگمری کے سکولوں اور کالجوں میں ٹھہرایا گیا۔
خضر حیا ت ٹوانہ کے مستعفی ہونے کے بعد انگریز گورنر نے آئین کے مطابق اسمبلی میں اکثریتی پارٹی مسلم لیگ کے قائد نواب افتخار الحسن ممدوٹ کو حکومت بنانے کی دعوت دینے کی بجائے گورنر راج نافذ کر دیا۔ بعد ازاں گورنر جنرل قائد اعظمؒ نے انگریز گورنر کو برطرف کر دیا اور عبدالرب نشتر پنجاب کے گورنر بنے جنہوں نے اپنے فرائض سنبھالتے ہی نواب افتخار الحسن ممدوٹ کو بطور وزیر اعلیٰ پنجاب، حلف اٹھانے کی دعوت دی۔ افتخار حسین ممدوٹ مسلم لیگ کے فعال، زیرک اور دانشمند رہنما تھے۔ عہدہ سنبھالتے ہی انہوں نے علامہ اسدؒ کی زیر نگرانی پنجاب میں محکمہ نفاذ اسلام کے قیام کا اعلان کیا۔ نواب ممدوٹ نے ان سے کہا کہ چونکہ پاکستان اسلام اور دو قومی نظریہ کی بنیاد پر قائم ہوا ہے اور ایسا ادارہ ہونا چاہیے جو نظریاتی مسائل کو زیر بحث لا سکے۔
علامہ اسدؒ کوپاکستان کی وزارت خارجہ کے شعبہ مشرق وسطی میں منتقل کر دیا گیا جہاں انہوں نے دیگر مسلم ممالک سے پاکستان کے تعلقات مضبوط کرنے کا کام بخوبی انجام دیا۔ انہوں نے 1952ء تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے پہلے سفیر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔علمی وتحقیقی کارناموں کے ساتھ ہی عالمی صحافت پر گہری نظر اور پختہ سیاسی شعور کے باعث انہوں نے بحیثیت سفارت کا ر بھی اپنی اعلیٰ صلاحیتوں کا خوب مظاہرہ کیا۔علامہ اسدؒ پاکستان کے پہلے شہری تھے جنہیں حکومت پاکستان نے پاسپورٹ جاری کیا۔ یہ پاسپورٹ قائد اعظمؒ کو جاری ہوا نہ لیاقت علی خانؒ کو۔

تبصرے بند ہیں.