مہنگا آٹا: جہالت کرپشن سے بڑا جرم ہے

27

جب اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں مچھر کی تخلیق کی مثال دی تو بنی اسرائیل نے اس کا مذاق اڑایا کہ آخر اس معمولی سی بات کے بیان کا مقصد کیا ہے بلاشبہ اس مثال سے ایمان والوں کا اللہ پر ایمان مضبوط ہو ا جبکہ تمسخر اڑانے والوں کے لیے یہ مثال مزید گمراہی کا باعث بنی۔ حکمت کی بات یہ تھی کہ ایک ہی واقعہ یا بیان کچھ لوگوں کو ایمان کی دولت سے سرفراز کر گیا اور کچھ لوگوں کے کفر میں مزید اضافہ کر گیا۔ یہ غور کرنے والوں کے لیے مقام عبرت ہے۔
پاکستان کی آئی ایم ایف کنٹرولڈ معیشت میں اگر یہ کہا جائے کہ گندم کی پیداوار ہمیں آئی ایم ایف سے نجات دلا سکتی ہے تو شاید کچھ لوگوں کے لیے اوپر کی مچھر کی مثال کی طر ح یہ باعث تمسخر ہو گا لیکن اگر آپ اس کی تہہ میں جائیں اور اپنی سوچ کی سمت درست کریں توواضح ہوتا ہے کہ حکومت نے جس زرعی سیکٹر کو نظر انداز کر رکھا ہے اس پر تھوڑی سی توجہ دی جائے تو ہمیں روس یوکرائن سے گندم درآمد کرنے کی ضرورت نہ پڑے اور جو قیمتی زرمبادلہ ہم گندم خریدنے پر ضائع کرتے ہیں وہ بچ جائے گا۔ گزشتہ کئی سال سے پاکستان میں پیدا ہونے والی گندم ہمارے لیے ناکافی ہوتی ہے گزشتہ سال پاکستان نے روس سے 2 بلین ڈالر سے زیادہ کی گندم درآمد کی بات بڑی سادہ ہے اگر یہی 2 ارب ڈالر ہم گندم پر نہ خرچ کرتے تو ہمیں آئی ایم ایف کے 23 ویں پیکیج کی ضرورت نہ پڑتی۔
پاکستان میں گزشتہ دو سالوں میں گندم کا شدید بحران اس وقت زیادہ سنگین ہوا جب وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے پنجاب سے وافر مقدار میں گندم ایکسپورٹ کرنے کا حکم دیا اور جب گندم ایکسپورٹ ہو گئی تو پتہ چلا کہ گندم تو وافر تھی ہی نہیں چنانچہ جتنی گندم ایکسپورٹ کی گئی اس سے ڈبل ہنگامی طور پر دوگنی قیمت پر امپورٹ کرنا پڑی گندم کی بات ہوتی ہے تو ہم اپنے کھیتوں اور کھلیانوں کی بجائے یوکرائن
اور روس کی جنگ کو اپنے مصائب کی وجہ قراور دینے لگ جاتے ہیں جو کہ قطعی طور پر غیر منطقی ہے اصل بات یہ ہے کہ شاید اعلیٰ سطح پر ارباب بست و کشاد نے تہیہ کر رکھا ہے کہ وہ معاملات کی نزاکت پر غور نہیں کریں گے چاہے اس کے لیے انہیں اپنی جان بھی دینی پڑے تو پرواہ نہیں۔
روس نے نوّے کی دہائی میں ٹکڑے ٹکڑے ہونے کے بعد جب اپنی بچی کھچی معیشت کو از سر نو منظم کرنا شروع کیا تو وہ دیکھتے ہی دیکھتے دنیا بھر میں گندم کا سب سے بڑا ایکسپورٹر بن گیا لیکن اس دوران مسلسل محنت اور سرکاری سر پرستی کی وجہ سے روس کی گندم کی پیداوار 1991ء کے مقابلے میں 3 گنا ہو چکی ہے اس وقت بھی روس تقریباً 50 ملین ٹن گندم سالانہ برآمد کر رہا ہے۔ ایک وہ وقت تھا جب 1960ء کی دہائی میں فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان نے ملک میں گرین انقلاب کا نعرہ لگایا تو انہوں نے گندم کی پیداوار پر خصوصی توجہ دی اس وقت گندم کی میکسی پاک ورائٹی نئی نئی دریافت ہوئی تھی۔ ایوب خان کی غذائی خود کفالت میں دلچسپی کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے اس وقت عالمی شہرت یافتہ گندم کے ماہر ڈاکٹر نارمن بور لانگ سے براہ راست خود بات کی اور فرٹیلائزر کی امپورٹ کے لیے انقلابی اقدامات کا ذاتی طور پر جائزہ لیا اس وقت کھاد اور بیج کی فراہم سے لے کر کسان کی گندم کی فروخت تک کے سارے عمل میں حکومت کی بے پناہ دلچسپی شامل تھی۔
ایوب خان کے بعد گندم کی سالانہ پیداوار جمود کا شکار ہو گئی اس میں اضافے کی شرح بہت معمولی رہی۔ پاکستان کو ہر سال 2 ملین ٹن گندم کی کمی کا سامنا ہے۔ 2030 ء تک ہماری سالانہ قومی گندم کی ڈیمانڈ 32 ملین ٹن جبکہ پیداوار30 ملین ٹن ہو گی 2ملین ٹن گندم کا شارٹ فال ہر سال اپنی جگہ پر برقرار ہے جس کی وجہ سے مافیا سیزن کے آغاز پر ہی گندم کی زخیرہ اندوزی شروع کر دیتا ہے جس سے قیمت میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ اگر چھوٹے کسان کو ترغیب دی جائے تو ہمارا شارٹ فال اتنا زیادہ سنگین نہیں ہو گا یہ موجودہ ڈھانچے میں ہی پورا ہو سکتا ہے بشرطیکہ گندم کی فی ایکٹر پیداوار میں اضافہ کر لیا جائے۔
اس وقت جہانگیر ترین جیسے بڑے فارمر کی فی ایکڑ پیداوار 60 من ہے جبکہ پس ماندہ چھوٹا کسان بمشکل 45 من فی ایکڑ پیداوار حاصل کر پاتا ہے یہ فرق صاف ظاہر کرتا کہ ترین فارمز پر جدید ترین مشینری زری آلات فرٹیلائزر وغیرہ استعمال ہوتے ہیں جبکہ چھوٹا کسان کھاد بلیک میں حاصل کرتا ہے غیر معیاری بیج اور 2 نمبر کیڑے مار سپرے استعمال کرنے پر مجبور ہوتا ہے پھر بجلی کے بڑھتے ہوئے بل اور فصل کی تیاری کے لیے پیشگی خرچ کا نہ ہونا اس کی پیداوار میں کمی کا سبب ہے۔ اس سارے معاملے میں حکومت کا کردار ایک خاموش تماشائی کا ہے وہ اپنے پٹوار خانے کے ذریعے صرف کاشت شدہ رقبے کی گنتی کرنے تک کی ذمہ داری نبھاتی ہے۔
روس کی مثال ہمارے سامنے ہے وہ گندم کی پیداوار میں پاکستان سے پیچھے ہوا کرتا تھا مگر گزشتہ 30 سال کے عرصے میں کہیں زیادہ آگے آ چکا ہے بلکہ روس یہ سمجھتا ہے کہ تیل کے فروخت میں اسے عالمی منڈی میں جس سخت مقابلے کا سامنا ہے گندم برآمد میں اس وقت اس کا کوئی حریف نہیں۔
گندم میں خود کفالت کا نہایت سادہ فارمولا یہ ہے کہ جو چھوٹا کسان اس وقت 45 من فی ایکڑ گندم پیدا کر رہا ہے اسے سہولیات دی جائیں تاکہ وہ اس میں اضافہ کر سکے تو ہمیں باہر سے گندم منگوانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ اس کے لیے نہ تو باہر کے ملکوں کے دورے کرنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی اسسٹنٹ کمشنر کے لیے 4 کروڑ کی ڈبل کیبن خریدنے کی ضرورت ہے۔ صرف اتنا کر دیں کہ کسان اس قابل ہو جائے کہ اپنی پیداوار میں معمولی سا اضافہ کرے۔ یہ مسئلہ کشمیر نہیں ہے۔ یاد رکھیں جہالت کرپشن سے بڑا جرم ہے۔

 

تبصرے بند ہیں.