میاں شہباز شریف سرخرو ہوئے……

49

میاں شہباز شریف صاحب اس قومی اسمبلی کا اختتام رواں ماہ کے پہلے عشرے میں کرنے والے ہیں جس کی ابتداء عمران خان نے کی تھی وزیراعظم کا انتخاب اس کا مواخذہ یا تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں ان ہاؤس تبدیلی کا باعث بننا جمہوری عمل کا حصہ تھا مگر خان ان کے معروف اسلامی ٹچ سپیکر ڈپٹی قاسم سوری واسد قیصر نے جو ڈرامہ آرائی کی اپنی مثال آپ ہے اس وقت یہ لوگ محض جمہوری عمل کے مخالف لگ رہے تھے بعدازاں کھلا کہ یہ سب سے زیادہ خود خان کے مخالف تھے،ایک ہی باد خزاں نے جھونکے نے سارے خزاں رسیدہ پتے جھاڑ کر خان کو سیاست کے اصلی رنگ سکھا دیئے، ایسے سبق آموز سلوک اور بے وفائی کے طلاطم کے بعد بھی اگر خان میں میچیورٹی نہ آئے تو پھر کبھی نہ آئے گی۔
خان کی انفرادی پاپولیرٹی،کرکٹ کا کرزمہ اور خوشامدیوں کی بہتات کے ساتھ ساتھ نئی نسل کی کج دو سوچ نے بظاہر خان کو لش پش کرکے تکبر کے پہاڑ پر کھڑا کردیا……
زرداری صاحب کی ابتدارسوائی اور انتہائی سیاست دان کے طورپر ہوئی آج لوگ ان کی زبان پر اعتبار کرتے ہیں لہٰذا طے ہوا کہ انہوں نے وقت سے بہت کچھ سیکھا……
پرویز الٰہی نے تمام عمر حکمران کو باوردی دیکھنے کی خواہش کی مگر آخر میں پنجاب اسمبلی میں تماشے لگاکر اپنی اور اپنے خاندان کی سیاسی ساکھ کا ”پٹھا“ بٹھا دیا کرپشن اس کے علاوہ ہے جو سارے سیاسی والدوں نے ہی اپنی اولاد کی محبت میں کی (کبھی کبھی تو لگتاہے جیسے ہمیں اپنی اولاد سے محبت نہیں تھی)
یہ ایک یادگار اسمبلی تھی جو پورے کے پورے پانچ برس مہنگائی میں اضافے کے علاوہ ایک دوسرے سے لڑنے میں صرف ہوئی ابتداء میں کوئی نہیں کہہ سکتا تھا کہ اس اسمبلی کے آخری سواء برس کو میاں محمد شہباز شریف چیئرکریں گے خان جس انتہا پہ جاکے ان کی ہرزہ سرائی کرتا ہے ہرجلسے میں نوجوان طبقے کے اخلاق کی تباہی مچاتے ہوئے چیری بلاسم بوٹ پالش اور نہ جانے کیاکیا غیر انسانی القابات سے نوازتا ……پتہ نہیں اس کی انسانی تحقیر کا کونسا لمحہ گرفت میں آیا کہ اس کی جگہ میاں شہباز شریف وزیراعظم کا حلف اٹھا رہے تھے ہم چار جماعتیں پڑھ کر ہمیشہ انسانی ڈگریوں کے سامنے آفاقی اصولوں کو فراموش کردیتے ہیں حالانکہ درجہ بندی کی جائے تو یوں بنتی ہے، انسانی اوسط ذہانت والی ڈگریاں، سوسائٹی کے لاز ملکی قوانین کے شکنجے موسمیاتی زیروبم اور ان سب سے اوپر فطرت، قدرت، آفاقی اصول جو پٹخ ڈالتے ہیں۔
آپ سوسائٹی سے انحراف کرو توتمام عمر بھگتنا پڑتا ہے مذہب سے انحراف موت کا باعث ہے ملکی قوانین سے انحراف سزاکا باعث مگر اگر کسی نے قدرت کو چھیڑ لیا نہ تو پھر اس کی خیرنہیں انسانی تحقیر نقلیں اتارنا وہ سترسال کی عمر میں مذاق اڑانا انسانی جسماور قدوقامت میں نقائص نکالنا خود جس رستے سے آنااسی کا طعنہ دوسروں کو دینا بہتر طور آخری سواء برس میں مولانا فضل الرحمان اس عمر میں فضلو اور ڈیزل کی گھٹیا نعرے باز میں جسے ایک سترسالہ بزرگ میوزک میلہ میں پوری نوجوان نسل کو بدتمیز بناتے ہوئے کررہا تھا ……فیصلہ کن اتحاد کو پہنچے اور پی ڈی ایم بنا جسے خان کے نوجوان نسل کی حمایت کے ساتھ انہیں ڈی ٹریک کرتے ہوئے ”چوروں کا ٹولہ“ کا لقب دے کر ہاتھ ملانے سے انکار کردیا۔
میرا خان سے صرف ایک ہی سوال رہا ہے کہ تمام ملک چور سہی ڈاکو سہی تم چوروں کے سربراہ کیوں بننا چاہتے ہو؟؟ کیا تم کیچڑ میں رہ کر خود کو الگ کرسکتے ہو جاؤ جاکر کہیں اپنے جیسے ”سینت“ ڈھونڈو ہمیں تو صرف ایک ہی انسانی حقوق کے علمبردار کا پتہ تھا جسے دنیا ایدھی کہی کر پکارتی ہے اور جو نہ جانے کیسے ہم میں پیدا ہوگیا دوسرے عظیم انسان اگر تم تھے تو اس کے جنازے تک میں کیوں نہیں گئے……
مجھے یاد ہے ہزاروں مسخ شدہ میتیں نہلانے والے کی جب طبیعت بگڑی تو آصفہ بھٹو علاج کی پیشکش لے کر پہنچی تب بھی میں نے کالم لکھا کہ وہ بیرون ملک علاجوں اور پرتعیش زندگی سے بہت اوپر کا شخص ہے اس پیڈسٹل پر یہ ساری چیزیں چھوٹی ہو جاتی ہیں۔
اب آتے ہیں وزیراعظم شہباز شریف کی شخصیت پر جن کے لئے اول وآخر بڑے بھائی کی محبت لبریز رہتی ہے یہ دعا بھی ہے اور خواہش بھی کہ ماضی کی پریس کانفرنسوں کی طرح ایک بار پھر دونوں بھائی اکٹھا بیٹھیں اور لوگ سیاست میں رواداری اور وفا کا منظر ایک ساتھ دیکھیں……
90شاہراہ پر بارہا دیکھا جب میاں نواز شریف محفل کی صدارت کرتے اور سینئر صحافیوں اور کالم نگاروں کے سوالات شروع ہوتے تو میاں شہباز شریف کیسے مؤدب انداز میں کہتے کہ اس کانفرنس کی میزبانی یا اینکرنگ میں خود کروں گا ان کے بیٹھنے کے انداز میں بھی بڑے بھائی کے لئے اس قدر محبت اور عزت ہوتی آنکھیں تک جھکائے رکھتے اور یہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ میاں نوازشریف میاں شہباز کی انتہائی پھرتیلی اور سخت ایڈمنسٹریشن کے تذکرے پر ہمیشہ زیرلب مسکراکر بات کرتے انہیں اپنے چھوٹے بھائی سے جو محبت ہے وقت نے ثابت کی ہے۔
سیاست سے الگ رشتوں میں محبت میرا اس لئے بھی پسندیدھ موضوع ہے کہ یہ آنے والے حکمران کی شخصیت کا براہ راست اثر ہے جو عوام پر پڑتا ہے……
دوسری جانب خان صاحب کے کزن اور بہنوئی حفیظ اللہ نیازی،انعام اللہ نیازی و دیگر احباب بہنوں کے خراب ہوتے گھر کوئی چیز ایسی نہیں جس پر صحبت کا شائبہ بھی ہو لوگوں نے اسے کردار کا نام دیا حالانکہ بیوی کووٹس اپ پر طلاق دینا پہلی بیوی کی کلچر اور مذہب کی قربانی کو نظرانداز کرجانا اور صرف آخر ایک پورا بھرا پڑاگھر اجاڑ دینا جو کسی کا ننھیال تھا تو کس کا دھیال……
یہ کہاں کا سڑونگ کریکٹر ہے یہ ذات کی کمزوریاں بدزبانی اور نوجوان بے بہرہ ”سلیٹ“ جیسے ذہنوں کی تباہی اس درجہ جزئیات ہیں کہ اللہ کی پناہ خانہ خدا میں کعبۃ اللہ کے سامنے عورتوں پر نعرے لگوادینے والے کو کیا کہیں بہت ”رف“ آدمی ہے مزید برآں اپنے ایک انٹرویومیں فرما رہے تھے میں غیر رومینٹک آدمی ہوں ان کے خیال میں یہ اچھی بات ہے……
میاں شہباز شریف اب جارہے ہیں اگلا انتخاب سب کے لئے ابھی معمہ ہے شطرنج کے کھیل میں تیزی آچکی ہے سیٹوں سے اترنا اور مقدموں کا کھلنا تو ویسے ہی مربوط ہے ہمارے ہاں ……لیکن جس تیزی سے اپنے ہاں کلین چٹ ملتی ہے اس نے سیاست دانوں کو بے نیاز کررکھا ہے۔
میں شہباز شریف صاحب کے حوالے سے جب وہ سی ایم پنجاب تھے عمدہ ترین کامیابی پربے اندازہ اعترافی کالم لکھ چکی ہوں میری زندگی کے ایک ذاتی معرکے میں انہوں نے ساتھ مدمقابل کا دیا تھا میرا نہیں تاہم اعتراف وہ جو بندہ ذاتی مفاد چھوڑ کر کرے انہوں نے وطن اور اس میں پنجاب کے دل لاہور کو ”دلہن“ کی طرح سجارکھا ہے نہ وہ سوتے ہیں نہ آرام کرتے ہیں صحت کا خیال بس دن رات کام کام اور صرف کام ان کے ہمراھ کام کرنے والوں کا بھی یہی حال رہتا ہے مجھے یاد ہے ڈینگی جیسی بلاکع بھی انہوں نے کس طرح شبانہ روز دوڑ دھوپ جانفشانی اور درد مندی سے بھگایا وہ خود لوگوں کے گھروں میں جا پہنچے تھے ایئرکولرز اور کھڑے پانیوں کو ڈبے پکڑپکڑ کے نکال رہے تھے مبادا لاروا پل جائے جو آگہی مہم سری لنکاہ سے ڈاکٹروں فوجیں اور دنیا بھر کے ماہرین بلوائے ڈاکٹر جاوید اکرم کہا کرتے تھے اگر اس کی روک تھام نہ ہوئی تو پوری کی پوری نسل غایب ہو جائے گی اور ڈینگی سرویلنس کا آغاز چونکہ میاں شہباز شریف نے کہا تھا آج تک ٹیمیں گلی گلی ضلع ضلع لارواڈھونڈتی پھرتی ہیں ڈاکٹر جاوید اکرم افسران اور ہم کالم نگار صبح چھ بجے 1801ماڈل ٹاؤن منہ اندھیرے بیٹھے ہوتے یہی وجہ ہے کہ وہ تمام دوڑیں بیماریوں کی روک تھام ڈاکوؤں کی مسخ کنی اور غریبوں کے بچوں کو وی آئی پی سکول دانش تک پہنچانے میں لگادیتے ہیں لہٰذا انہیں کبھی خان کی ہرزہ سرائی کا جواب دینے کی فرصت نہیں ملی۔
میں انہیں کامیاب اننگزکھیلنے پر مبارکباد دیتی ہوں سب سے بڑھ کر یہ کہ انہوں نے اپنے خاندان سے لیا جانے والا بدترین انتقام اقامہ پر عدالتی رخصتی میاں نواز شریف کی اور بیسیوں جھوٹے مقدمات جعلی فرد جرم سے خود کو اور اپنے خاندان کو نکالا باعزت طریقے سے مدت پوری کی نگران حکومتوں کو بھی تک کر بیٹھنے نہیں دیا پوری طرح متحرک اور پر اجیکٹس میں مصروف رکھا محسن نقوی بالکل میاں شہباز شریف کی طرز پر ہی ہرہسپتال سیلاب مسائل مصائب اور قریہ قریہ پھررہے ہیں حالانکہ وہ چاہتے تو نجم سیٹھی کی طرح سی ایم آفس میں دوستوں کی محفل لگاکر ٹائم”ٹپا“ سکتے تھے مگر انہوں نے کام کو ترجیح دی وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف کے بارے میں میں نے لکھا تھا کہ ماضی میں لوگ اپنا ایک بچہ مزار پر چڑھا دیا کرتے تھے ان کے گھروالوں نے بھی انہیں لوگوں کی خدمت کے لئے وقف کریادان کردیا جب یہ کالم چھپا تو بہت اعترافی فون آئے میاں شہباز شریف نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ مجھے اپنے بارے یہ کلمات پڑھ کر ڈرلگتا ہے کہ کاش میں لوگوں کی توقعات پر پورا اتر سکوں ……
آج مبارکباد کالمحہ ہے کہ اہل سیاست کا جو بھی کام ہے ان کو مبارک میاں شہبازشریف جنہوں نے خود کو ہمیشہ خادم اعلیٰ کہا وزیراعلیٰ نہیں اللہ تعالیٰ نے انہیں عوام کی ”خدمت“ کے لیے چن رکھا ہے ……انتہائی بکھری ہوئی سیاسی بساط اور لٹی پٹی معیشت کو اکٹھا کرکے یہاں تک لے آئے ہیں …… اللہ آگے بھی حامی ناصر ہو ……
صوفیہ بیدار

تبصرے بند ہیں.