قارئین مجھے ان دنوں ایک بار پھر یورپ کا”دورہ“ پڑا ہوا ہے، میں ان دنوں یورپ کے سب سے قیمتی اور خوبصورت مْلک سوئیٹزرلینڈ میں ہوں، پاکستان کی غلیظ سیاست اور اپنے جیسے لوگوں کے غلیظ رویوں سے جب بہت زیادہ اْکتا جاتا ہوں میں اْن ممالک میں چلا جاتا ہوں جہاں سب سے بڑی رحمت اور نعمت یہ ہے کوئی کسی سے حسد نہیں کرتا، کوئی کسی سے انتقام نہیں لیتا، جہاں اپنی غلطیوں پر کوئی معافی مانگے نہ مانگے لوگ خود ایک دوسرے کو معاف کر دیتے ہیں، جہاں لوگ جھوٹ نہیں بولتے منافقت اور ظلم نہیں کرتے ایک دوسرے کا حق نہیں مارتے، جہاں ترقی اور کامیابی کے لئے ایک دوسرے کو مفید مشورے دینا تعلق کا باقاعدہ حق سمجھا جاتا ہے، ان میں اورہم میں فرق یہ ہے ہم اللہ کو مانتے ہیں وہ اللہ کی مانتے ہیں، اگر وہ کلمہ پڑھ لیں، ایک دو کاموں سے گریز فرما لیں خدا کی قسم اْن سے بہتر مسلمان کوئی ہوہی نہیں سکتا، یہاں کسی کو کسی سے کوئی ایسا خطرہ نہیں کہ جب کوئی چاہے اپنے مذموم مقاصد اور انتقامی حسد کے لئے دوسروں کی عزت اْچھال دے، پاکستان میں یہ سارے کام ہم ایک ”نعمت“ بلکہ”اللہ کی رحمت“ سمجھ کر کرتے ہیں، شاید اسی لئے درد دل رکھنے والے لوگ پاکستان سے اب کْوچ کرتے جا رہے ہیں ”انشا جی اْٹھو اب کْوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا“، ایک آخری اْمید لوگوں کو خان صاحب سے تھی، اْمید کا جتنا ستیا ناس اْنہوں نے کیا شاید ہی کسی نے کیا ہوگا، ہمارے پاس اب کْچھ نہیں بچا، صرف وہی بچے ہیں جن کی فطرت میں لْوٹ مار کرنا ہے، فطرت نہیں بدلتی، دس ہزار بار بھی یہ لوگ اقتدار میں آجائیں وہی کریں گے اپنی فطرت کے مطابق جو پہلے کرتے رہے، البتہ ان پہلوؤں سے ذرا ہٹ کر مایوسی کے گہرے بادلوں میں روشنی کی چھوٹی سی کوئی کرن، اْمید کا ننھا سا کوئی دیا جلتا دکھائی دے ہم ”مسافروں“ کو اس کی بہت خوشی ہوتی ہے، آج کا اس کالم میں روشنی کی اسی چھوٹی سی کرن اْمید کے اسی ننھے سے دیئے پر لکھنا چاہتا ہوں، اپنے بیرون مْلک کسی وزٹ کے دوران میں کالم یا کوئی اور تحریر وغیرہ نہیں لکھتا، پاکستان میں سب سے بڑی آلودگی ان دنوں ”آوازوں“ کی ہے، بولنے اور بکنے میں فرق ہی نہیں رہا، میں اکثر کچھ صحافی دوستوں خصوصاً اینکرز سے یہ عرض کرتا ہوں کچھ دیر کے لئے وہ بولنا اور لکھنا بند کر دیں، اگر اْن کے مسلسل بولنے اور لکھنے سے معاشرے پر کوئی مثبت اثرات مرتب نہیں ہو رہے، بلکہ بگاڑ مزید بڑھتا جا رہا ہے تو بولنے اور لکھنے کے کچھ”ناغے“ کر لیں، وہی وقت وہ اپنی فیملی اور دوستوں کو دیں، پاکستان سے ذرا باہر نکل کر دیکھیں دْنیا کتنی خوبصورت ہے، شاید کچھ روز کے لئے اْن کے نہ بولنے اور نہ لکھنے سے کچھ بہتری آجائے……
ابھی جس ”خوشخبری“پر میں لکھنا چاہتا ہوں اْس پر لکھنے کے لئے یورپ میں مقیم کچھ پاکستانی دوستوں نے مجھے مجبور کیا ہے، پچھلے ایک مہینے سے میں سوشل میڈیا سے ہر ممکن حد تک پرہیز کر رہا ہوں جس کے میری صحت خصوصاً”دماغی صحت“ پر انتہائی خوشگوار اثرات قائم ہو رہے ہیں، صرف اپنی فیس بْک وال پر روزانہ ایک آدھ وڈیو لگا دیتا ہوں لوگ یہ دیکھ سکیں دْنیا کتنی خوبصورت ہے، اگلے روز سوئیٹزرلینڈ میں مقیم کچھ پاکستانی دوستوں نے میرے اعزاز میں ناشتے کا اہتمام کیا، وہاں مجھے یہ اطلاع دی گئی پاکستان میں اس بار محرم الحرام میں خصوصاًنویں دسویں محرم کو پنجاب میں گزشتہ کئی برسوں کی روایت کے مطابق ڈبل سواری پر پابندی لگی نہ موبائل فون سروس بند ہوئی، مجھے اس خبر پر بالکل یقین نہیں آیا، میں نے فوراً پاکستان میں اپنی فیملی سے رابطہ کیا، اْنہوں نے تصدیق کی ایسا ہی ہوا ہے، میں نے فوراًحیرت اور خوشی کے اس معاملے پر آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو میسج کیا، اپنے طویل جوابی وائس میسج میں اْنہوں نے اس کا کریڈٹ خود قبول کرنے کے بجائے اْسے صرف اور صرف اللہ کا فضل قرار دیا اور فرمایا یہ میری انتہائی محنتی ٹیم کی شبانہ روز کاوشوں کا نتیجہ ہے، میں اْن کے کسی اچھے عمل پر جب بھی اْنہیں سراہتا ہوں وہ ہمیشہ ایک ہی بات کہتے ہیں ”میری ذات ذرہ بے نشاں“، میں اْن کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں آپ کی یہ عاجزی و انکساری اپنی جگہ درست ہے مگر یہ حقیقت ہے آپ کی ذات زرہ بے نشاں نہیں ہے، خوبصورت اور یادگار نشانیوں کا پورا ایک پہاڑ ہے، بطور آئی جی پنجاب اپنی تعیناتی کے دوران سسٹم کے اندر رہتے ہوئے اور کسی سے ٹکراؤ کی پالیسی نہ اپناتے ہوئے ایسے ایسے کام آپ نے کئے کہ بطور ایک پاکستانی اپنی فطرت اور روایت کے مطابق میں شاید یاد رکہوں نہ رکہوں مگر اللہ اس کا اجر آپ کو ضرور دے گا، پہلے بھی کسی بڑی نیکی کا اجر ہی آپ کو ملا ہے کہ آئی جی پنجاب آپ کو چْن لیا گیا ورنہ بڑی بڑی بلائیں اس عہدے کے لئے اپنی ساری سروس میں ترس ترس کر ریٹائرڈ ہو جاتی ہیں۔۔
ڈاکٹر عثمان انور ایک نیک نیت پولیس افسر ہیں، اْن کی ایک خوبی یہ بھی ہے اپنے مقام مرتبے کو ایک طرف رکھتے ہوئے سخت سے سخت بات کا بھی غصہ نہیں کرتے، مْسکراتے رہتے ہیں، اپنا سارا فوکس اپنے کام پر رکھتے ہیں، غیر ضروری ”پنگوں“ میں نہیں اْلجھتے، صرف سینئرز کے ساتھ ہی نہیں اپنے جْونیئرز کے ساتھ بھی عزت اور محبت سے پیش آتے ہیں، میں اْن کی دیگر خوبیوں پر چند روز پہلے کالموں کی چار اقساط لکھ چْکا ہوں، اس وقت سوئیٹزرلینڈ کے ایک خوبصورت پہاڑی مقام پر تنہا بیٹھ کر میں اْنہیں صرف اس بات پر خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں کہ کئی برسوں کے بعد پنجاب میں محرم الحرام میں سکیورٹی کے بہترین اقدامات کئے گئے، ڈبل سواری اور موبائل فون پر پابندی نہ لگانا بہت بڑا رسک تھا، ایسے رسک صرف وہی لے سکتے ہیں اللہ کی رحمت پر جن کا ایمان مضبوط ہو، نگران وزیراعلیٰ پنجاب محسن نقوی اور سی سی پی او لاہور بلال صدیق کمیانہ کی کاوشیں بھی لائق تحسین ہیں، بلال صدیق کمیانہ کے سخت رویے سے کچھ ماتحت پولیس افسران نالاں رہتے ہیں مگر کبھی کبھار اْن کا یہ سخت رویہ اپنے کسی ذاتی مقصد کے لئے نہیں ہوتا وہ چاہتے ہیں اْن کے ماتحت پولیس افسران”ویلیاں“ کھانے کے بجائے اْسی محنت اور لگن سے کام کریں جس محنت اور لگن سے وہ خود کرتے ہیں اور پبلک کو کچھ ریلیف دیتے ہیں۔۔
مجھے یاد آیا ایک زمانے میں لاہور میں شیر پاؤ برج اور مال روڈ کے درمیان قائم شْدہ قْربان پولیس لائن شہریوں کی عام گْزر گاہ ہوتی تھی، یہ‘”شارٹ کٹ“ شہریوں کے لئے ایک بڑی سہولت تھی جو کچھ سکیورٹی ایشوز کی وجہ سے اْن سے چھین لی گئی تھی، اب جس طرح نویں دسویں محرم کو موبائل سروس بند نہیں ہوئی جس طرح ڈبل سواری پر پابندی نہیں لگی، مجھے یقین ہے ڈاکٹر عثمان کے زمانے میں ہی سکیورٹی کے معاملات اتنے بہتر ہوجائیں گے یہ”شارٹ کٹ“ بھی شہریوں کو واپس کر دیا جائے گا۔۔
شکریہ ڈاکٹر عثمان انور آپ سلامت رہیں۔۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.