کچھ نہ ہونے سے کچھ بہتر ہوتا ہے

29

انتہائی خوشی کی بات ہے کہ ہماری حکومت نے ایسے تیسے ملک کی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) سے تین ارب ڈالر کا قرضہ منظور کروالیا ہے جس سے دیوالیہ ہونے کا فی الحال خطرہ ٹل گیا ہے۔ حکومت نے اس امر کا عندیہ دیا ہے کہ یہ قرضہ آخری بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اب ملک عزیز اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی طرف بڑھے گا وہ یہ بھی کہہ رہی ہے کہ اگرچہ اسے آئی ایم ایف کی سخت ترین شرائط کو ماننا پڑا ہے مگر یہ کڑوا گھونٹ پینا لازمی ہو گیا تھا کہ قومی خزانہ روز بروز کمزور سے کمزور تر ہوتا جا رہا تھا یعنی زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہوتے جا رہے تھے لہٰذا تین ارب ڈالر کا قرضہ ملنا نیک شگون ہے اس سے چند بنیادی مسائل سے نجات مل سکتی ہے۔ اس قرضہ لینے میں تمام بڑی سیاسی جماعتوں نے رضا مندی ظاہر کی اب آئندہ جب ان میں سے کوئی جماعت اقتدار میں آتی ہے تو وہ یہ نہیں کہہ سکے گی کہ اس سے پہلے والی حکومت نے غلط کیا کہ عوام کی چیخیں نکال دینے والی شرائط مان لی گئیں جو کہ درست نہیں تھا۔
بہرحال یہ بات بڑی خوش آئند ہے کہ ملک کی معاشی حالت کو مزید بگڑنے سے بچایا گیا ہے اگرچہ عوام مہنگائی کی وجہ سے ایک بار پھر چیخ اٹھیں گے مگر اگر آنے والی حکومت قرضوں کے استعمال کو شفاف بنائے گی اور اِدھر اْدھر کے ”اخراجات“ پر قابو پائے گی تو بہتری کی امید کی جا سکتی ہے بصورت دیگر لوگوں میں بالخصوص سرکاری ملازمین میں بے چینی بڑھ جائے گی کیونکہ انہیں ابھی تک کوئی ایسا ریلیف نہیں مل سکا جس سے ان کو سکون کی نیند میسر آسکے۔ لہٰذا اگلی حکومت کو معاشی صورتحال ٹھیک کرنے کے لیے ہر سیاسی جماعت کو ساتھ لے کر چلنا ہو گا کیونکہ اب حالات ایسے نہیں رہے کہ قرضوں پر اکتفا کیا جا ئے لہٰذا یہ جو موجودہ طرز سیاست ہے اس سے اجتناب برتنے کی ضرورت ہے تا کہ یکسو ہو کر خوشحالی و ترقی کے لیے آگے بڑھا جا سکے اور جو اضطرابی کیفیت اس وقت پورے ملک میں پائی جاتی ہے ختم ہو مگر ہمیں ایسا لگتا ہے کہ جس طرح آج اقتدار کے حصول کے لیے جوڑ توڑ ہو رہا ہے اس طرح آئندہ جو بھی تخت پر بیٹھے گا وہ اسی چکر میں پڑا رہے گا کیونکہ ہم یہ اب تک کے سیاسی منظر نامے کے تناظر میں کہہ سکتے ہیں کہ یہاں جو بھی آیا کسی کی آشیر باد سے آیا اور اس نے عوام کا خیال گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے ایسا کیا یہی وجہ ہے کہ لوگ ٹیکسوں اور مہنگائی کے ہتھوڑوں سے بدحال ہو چکے ہیں مگر ان کے زخموں پر کوئی ایک بھی مرہم رکھنے والا دکھائی نہیں دے رہا اور اب اگر وہ احتجاج کرتے ہیں تو انہیں سختی سے روکا جاتا ہے کہا جاتا ہے کہ جب خزانہ ہی خالی ہے تو انہیں کہاں سے دیا جائے۔ تو پھر اس کا حل یہ ہے سویلین سرکاری اداروں کی نجکاری کر دی جائے تا کہ نہ رہے بانس نہ رہے بانسری یعنی سواری اپنے سامان کی خود حفاظت کرے۔ حکومت کو کوئی پریشانی نہ ہو وہ صرف حکمرانی کرے مزے لے۔ افسوس حکومت کوئی بھی ہو بس اپنے آپ کو ہی دیکھتی ہے اسے اپنوں کو آگے لانے، انہیں اہم وزارتوں سے نوازنے کی فکر ہوتی ہے۔ آج آصف علی زرداری اپنے چشم و چراغ کو وزیراعظم بنانے کی دوڑ میں شامل ہیں، ان کے لیے کیا کیا جتن کر رہے ہیں۔پنجاب میں پی پی پی کی اہمیت ثابت کرنے پر تْلے بیٹھے ہیں اس میں وہ ایک حد تک کامیاب بھی نظر آتے ہیں
بہرکیف کچھ نہ ہونے سے کچھ بہتر ہوتا کے مصداق جہاں ذخائر دولت ختم ہونے کے قریب تھے وہاں سخت شرائط پر قرضہ مل گیا ہے تو بھی اچھی بات ہے کہ اب کم از کم حیات مضمحل نہیں ہو گی اسے خود کو محفوظ بنانے کا ایک موقع مل گیا ہے مگر ہمارے وزیراعظم کو زیادہ فخر محسوس نہیں کرنا چاہیے کیونکہ مہنگائی میں کمر توڑ اضافہ ہو گا اور مایوسی بڑھے گی جس کی وجہ سے عام انتخابات میں ان کو بھرپور پذیرائی نہیں ملے گی مگران کی جماعت کو نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکے گا کہ کم از کم اس نے معیشت کی گاڑی کو پٹڑی سے نیچے نہیں اترنے دیا مگر عوام کے خواب آئندہ بھی پورے ہو تے دکھائی نہیں دیتے کیونکہ آشیر بادی حکمران ہمیشہ اپنے لئے ہی اچھا سوچتے ہیں انہوں نے عام آدمی کے لیے بس اتنا ہی سوچا کہ وہ زندہ رہے اور کسی مشین کی طرح کام کرتا رہے تا کہ ان کے آنگنوں میں خوشحالی و امن کے پھول کھلتے رہیں مگر ہمیں لگ رہا ہے کہ اب لوگ جاگ گئے ہیں ان کے ذہنوں میں جو لاوا پک رہا ہے اسے باہر آنے سے روکا نہیں جا سکتا اور وہ اہل اقتدار کو ایک روز ضرور اپنی لپیٹ میں لے گا شاید اسی خوف ہی سے اشرافیہ یورپ و مغرب میں اپنے ٹھکانے اور کارخانے منتقل کر چکی ہے تا کہ جب بھی حالات ان کے غیر موافق ہوں وہ اڑان بھر جائے۔
خیر اس وقت معیشت کے حوالے سے تو تھوڑا سْکھ کا سانس ملا ہے مگر یہ جو سیاسی بھونچال ہے اس پر بھی ہمارے سیاستدانوں کو کچھ غور و فکر کر لینا چاہیے کہ وہ آپس میں الجھنے کے بجائے ایک دوسرے کے قریب آئیں سیاسی معاملات سیاسی انداز سے ہی دیکھیں عوامی رائے کا احترام کریں لوگوں کو سہولتیں اور آسانیاں فراہم کریں تا کہ وہ اس نتیجے پر پہنچ سکیں کہ کون ان کے لیے نرم گوشہ رکھتا ہے اور کون ہے جو انہیں اذیتیں پہنچا کر اپنا گرویدہ بنانے کی خواہش رکھتا ہے۔ ہم پہلے بھی اپنے کالموں میں عرض کر چکے ہیں کہ سیاستدانوں کو چاہیے کہ وہ دوسرے سیاستدانوں کو اس کے منشور اور خدمات کے تناظر میں دیکھیں انہیں خوامخواہ ہدف تنقید بنانا مناسب نہیں مگر عجیب بات ہے کہ عوامی فلاح و بہبود کے لیے تو بڑے منصوبے نظر نہ آئیں انصاف کی فراہمی کے لیے اقدامات نہ کیے جائیں اور تعمیر و ترقی کے لیے جدید ٹیکنالوجی سے صنعت کاری دور دور تک دکھائی نہ دے مگر عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے اپنے سیاسی حریفوں کو برابھلا کہا جائے سیاسی جماعتیں الجھیں گی تو اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماریں گی انہیں بعد میں معلوم ہو گا اور ان کے شہ دماغ کسی نجی محفل میں بیٹھے اظہار افسوس کر رہے ہوں گے کہ اگر ایسا نہیں کیا جاتا فلاں کو زچ نہیں کیا جاتا اس کے گرد سازشوں کے جال نہ بنے جاتے تو اچھا ہوتا۔ لہٰذا دیکھنا کہیں ”ہتھاں دی دتیاں منہ نال نہ کھولنیاں پے جاون“، حرف آخر یہ کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کرنے سے پہلے عوام کو اعتماد لینا چاہیے کہ یہ قرضہ آخری بار لیا ہے لہذا آگے اندھیرا نہیں اجالا ہے۔

تبصرے بند ہیں.