وزارت صحت کے لیے خدمت کا موقع

26

بیس سال پہلے کسی دوست کے توسط سے دعوت ملی کہ ڈاکٹر وقار نیاز اور شفقت رسول نے ماڈل ٹاؤن میں رحمان فاؤنڈیشن کے نام سے سفید پوش مریضوں کے لیے مفت ڈائیلسز کا سلسلہ شروع کیا ہے۔ میں ان کے ڈائیلسز سینٹر گیا۔ دو مشینوں پر سہولت دی گئی تھی۔ اس وقت ایک تو پورے ملک میں ڈائیلسز سنٹر نہ ہونے کے برابر تھے دوسرا مہنگے بھی تھے اور ابھی تک ہیں۔ چونکہ گردوں کا جو مریض ایک بار ڈائیلسز تک پہنچ جائے بہت کم ریکور ہوتا ہے اس لیے ہفتے میں دوبار اسے لازماً ڈائیلسز کرانا پڑتا ہے۔ جبکہ غریب آدمی بلکہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے کے لیے بھی یہ عارضی اور مسلسل علاج جاری رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ میں ایسے بہت سے سفید پوشوں کو جانتا ہوں اور سچی بات تو یہ ہے کہ میں خود بھی انہی میں سے ایک ہوں جو ڈاکٹر کی فیس اور علاج پر اٹھنے والے خرچ کے ڈر سے کئی کئی دن تک بیماری ساتھ لیے پھرتے ہیں اور اس وقت تک علاج شروع نہیں کراتے جب تک گر نہ پڑیں۔ سو ڈائیلسز پہ تین سے چار ہزار کا خرچ ہفتہ وار آتا ہے اب بتیس ہزار صرف ڈائیلسز کا دینا، کلینک آنے جانے کا خرچ الگ ادویات اور ڈاکٹر کی فیس مزید، گھر کا کرایہ، بجلی گیس کے بل، بچوں کی فیس اس پہ دو وقت کی روٹی۔ اب یہ کوئی ڈھکی چھپی بات تو نہیں رہ گئی کہ عام آدمی کا جینا آسان رہ گیا ہے نہ مرنا۔
ڈاکٹر وقار کا مشن تھا کہ وہ پاکستان کے ہر شہر میں غریب مریضوں تک ڈائیلسز کی مفت سہولت پہنچائیں گے۔ ڈاکٹر وقار صاحب اور ان کے چند ساتھیوں نے اس نیک مشن کو مقصد حیات بنایا اور در
در دستک دینا شروع کی۔ آج بیس سال بعد رحمان فاؤنڈیشن کراچی، اسلام آباد، لاہور، سیالکوٹ، فیصل آباد، پینسرہ، جہلم اور سرائے عالمگیر میں مفت ڈائیلسز سنٹر کھول چکی ہے اور نہ جانے کتنے انسانوں کی زندگی بچانے کی نیکیاں اس کام میں مدد کرنے والے ہر شخص کے حصے میں آ رہی ہیں۔ ان سنٹرز میں سو کے قریب ڈائیلسز مشینیں ہر ماہ تین ہزار غریب مریضوں کو مفت سہولت فراہم کر رہی ہیں اور اب تک دو لاکھ سے زائد افراد کو سہولت فراہم کی جا چکی ہے۔ اس قافلے میں شفقت رسول قدم قدم پر ڈاکٹر وقار کے ہمراہ رہے اور اب کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر ہاشمی بھی آن ملے ہیں اور اللہ کی راہ میں اس نیکی میں ہاتھ بٹانے والے بھی شامل ہوتے جا رہے ہیں۔ پورے پراجیکٹ پر پر ہر ماہ کروڑوں روپے خرچ آ رہا ہے جسے اللہ کے برگزیدہ لوگ ادا کر رہے ہیں۔ ڈائیلسز کے ساتھ ساتھ گردوں کے مفت ٹیسٹوں کی سہولت بھی دی جا رہی ہے۔ گردوں کے تمام ٹیسٹ بالکل مفت کیے جاتے ہیں۔ ساتھ ساتھ گردوں کے مریضوں کو جدید تحقیق کے مطابق تیار کی جانے والی ہربل اور ہومیو پیتھی میڈیسن بھی دی جاتی ہیں جن سے کافی مریض ڈائیلسز سے واپس بھی آئے ہیں۔ آپ سوچیں ایک طرف پورا ملک سیاسی، سماجی اور معاشی ابتری کا شکار ہے۔ دوسری طرف پرائیویٹ ہسپتالوں اور مہنگے علاج نے مخلوق خدا کی زندگی عذاب بنا کے رکھ دی ہے لیکن ہمارے ارد گرد ایسے خدا ترس انسانوں کی بھی کمی نہیں جو تمام تر نامساعد حالات کے باوجود انسانی خدمت کے جذبے سے سرشار مجبور انسانوں کے دکھ بانٹنے، ان کی بیماریوں سے لڑنے اور زندگیاں بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔
رحمان فاؤنڈیشن کے ساتھ مل کر انسانی خدمت میں پیش پیش لوگوں میں راحت فتح علی خاں، مغل آئی ہسپتال والے طارق اقبال مغل صاحب اور فیصل آباد کے تاجر رہنما خواجہ شاہد رزاق سکا شامل ہیں۔ رب تعالیٰ ان لوگوں پر پل پل اپنے کرم کی بارش کرے۔ یہ کتنے عظیم اور شاندار انسان ہیں جو اس بحران اور افراتفری کے مارے ہوئے عہد میں خاموشی سے اعلیٰ ترین خدمت سرانجام دے کر رب اور اسی کی مخلوق کو راضی کرنے پر نکلے ہوئے ہیں۔
میں جب بھی رحمان فاؤنڈیشن جاتا ہوں لوگوں کا تانتا بندھا ہوتا ہے۔ لوگ اکیلے یا عزیز و اقارب کے ساتھ آتے ہیں۔ اپنی باری پہ ڈائیلسز کراتے ہیں اور دعائیں دیتے ہوئے چہرے پر اطمینان لیے رخصت ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں حکومت پنجاب نے ہیلتھ کارڈ کے حوالے سے چیک اینڈ بیلنس کے بہت اچھے اقدامات اٹھائے ہیں جس کے لیے وزیر صحت ڈاکٹر جاوید اکرم کو شاباش دی جانی چاہیے جنہوں نے ہیلتھ کارڈ کا غلط استعمال کرنے والے پرائیویٹ ہسپتالوں کے گرد گھیرا تنگ کیا ہے۔ اگر حکومت رحمان فاؤنڈیشن جیسے معتبر اور باوقار خیراتی اداروں کی ہیلتھ کارڈ کے لیے منظوری دے دے تو جہاں روزانہ سو مریضوں کو سہولت دی جا رہی ہے وہاں دو سو کو دی جا سکے گی۔ ایک تو ڈائیلسز کے شعبے میں سرکاری سنٹرز پر دباؤ کم ہو گا اور خیراتی اداروں کے ذریعے عوام الناس کو دی جانے والی سروسز کو بھی تقویت ملے گی۔

تبصرے بند ہیں.