پاکستان بعض اعتبار سے ایک حیرت انگیز ملک ہے جو کام دنیا میں کہیں نہیں ہوتا وہ پاکستان میں ہوتا ہے اور جو پاکستان میں ہوتا ہے وہ دنیا میں کہیں نہیں ہوتا۔ زہریلا سانپ انسان کو کاٹ لے تو یقینا انسان کی موت واقع ہو جائیگی، پنجاب کے علاقے کامونکے میں اس سے مختلف ہوا ایک انتہائی زہریلے سانپ نے ایک پولیس سب انسپکٹر کو کاٹ لیا۔ سب انسپکٹر ریاست زخمی ہوا، قبل اس کے کہ وہ فوری طبی امداد کیلئے کی قریبی ہسپتال پہنچتا اور سانپ کے کاٹے کا علاج کرتا اسکے زہر کو پھیلنے سے روکتا، اُسے کاٹنے والا سانپ چند سیکنڈ میں تڑپنے لگا پھر موقع پر ہی ہلاک ہو گیا۔
سانپ کے انسان کو کاٹنے کے بعد سانپ کا یوں مر جانا تحقیق کے دروازے کھولتا ہے اس میں نکتہ اول بہر حال یہی ہے کہ سانپ کم زہر یلا تھا یا اُس نے جسے کاٹا وہ زیادہ زہریلا تھا۔ پنجابی کی مثال کو
اردو کے قالب میں ڈھالا جائے تو کچھ یوں ہے کہ سانپ کو سانپ کاٹے تو زہر کِسے چڑھے؟ پولیس کے سب انسپکٹر کو کاٹے جانے والے سانپ کی بے وقت موت نے اس الجھن کو ہمیشہ کیلئے سلجھا دیا ہے۔ اب دو زہریلے سانپوں میں سے کسی ایک کے کاٹنے پر اس کو زہر چڑھ جائے گا جو کم زہریلا ہو گا اسکی موت واقع ہو گی جو کاٹنے کے دانت تو رکھتا ہو گا لیکن اسکے زہر میں وہ تیزی نہ ہو گی جو کاٹنے کے بعد دوسرے کے خون میں شامل ہو کر جسم بھر کو خون پہنچانے والی شریانوں سے ہوتی دل تک پہنچ کر اسے ناکارہ بنا دیتی ہے۔
ہمارے آس پاس درجنوں نہیں ہزاروں ایسے زہریلے سانپ موجود ہیں جو اس صلاحیت سے مالا مال ہیں وہ جسے کاٹ لیں وہ شاید پانی نہ مانگ سکے لیکن ان سے زیادہ تعداد ایسے لوگوں کی بھی ہے جو ان زہریلے سانپوں کو کاٹ لیں تو وہ پانی مانگنا تو دور کی بات ہے پانی مانگنے کے لیے منہ بھی نہ کھول سکیں۔
سانپ کے بارے میں ایک اور مثل بہت مشہور ہے۔ سانپ کی جب موت آتی ہے وہ راستے میں آ کر بیٹھ جاتا ہے یوں وہ کسی راہ گیر یا کسی موٹر گاڑی یا کسی بڑے بھاری بھرکم جانور کے قدموں تلے آ کر کچلا جاتا ہے اسکا قیمہ بن جاتا ہے، کیڑے مکوڑے چیونٹیاں اسے چٹ کر جاتے ہیں۔ بعض سانپ بہت ہوشیار ہوتے ہیں وہ راستے میں آ کر نہیں بیٹھتے بلکہ راستے سے ذرا ہٹ کر بیٹھتے ہیں۔ پھنکارتے رہتے ہیں، کبھی پھن پھیلا کر زمین سے قدرے اوپر اٹھ آتے ہیں لیکن ذرا سی آہٹ پا کر کسی سوراخ یا جھاڑی میں پناہ لے لیتے ہیں کبھی کبھی یہ طویل عرصہ تک اپنی پناہ گاہ سے باہر نہیں نکلتے، انکی پسندیدہ غذا چھوٹے موٹے جانور ہوتے ہیں یہ درختوں کے تنے سے لپٹ کر بل کھاتے اوپر ہی اوپر چڑھتے چلے جاتے ہیں پھر درختوں کی شاخوں میں بیٹھے معصوم پرندوں انکے بچوں پر جھپٹ پڑتے ہیں۔ سانپ اس لحاظ سے گھٹیا جانور ہے کہ اُسے کھانے کو ان گھونسلوں میں کچھ نہ ملے تو یہ گھونسلوں میں پڑے معصوم پرندوں کے انڈے توڑ کر ان سے اپنی ناکامی کی پیاس بجھاتا ہے۔ سانپ تمام وارداتیں نصف شب کے بعد کرتا ہے۔ دن بھر اپنی بل سے باہر کم ہی نکلتا ہے، اسے جان کے خطرے کا احساس ہو تو پھر تو دم سادھے پڑا رہتا ہے، قریب سے گزرنے والے کی چوہے یا چھپکلی پر بھی نہیں جھپٹتا بلکہ مٹی چاٹ کر اپنی بھوک مٹاتا ہے۔
سیانے کہتے ہیں سانپ پر رحم نہیں کھانا چاہیے یہ نظر آ جائے تو اس سوچ میں نہیں الجھنا چاہیے کہ یہ چھوٹا ہے یا موٹا، کالا ہے یا بھورا۔ اس تحقیق کی ضرورت بھی نہیں ہوتی کہ کم زہریلا ہے یا زہر سے بھر پور ہے، بس نظر آتے ہی اسے مار دینا چاہیے۔ سانپ کو مارنے کا سنہری اصول بھی صدیوں سے ایک ہی ہے اسکا سر کچل دیں تو اسکی موت واقع ہو جاتی ہے۔ سانپ کا سر چھوٹا اور اس چھوٹے سے سر میں دماغ مزید چھوٹا ہوتا ہے لیکن اگر اس کا سر کچل کر اسے مارنے کے بجائے اسکے جسم کے کسی بھی حصے پر ضرب لگا کر اسے دو حصوں میں تقسیم کر دیا جائے تو یہ اپنے چھوٹے سے دماغ کے زور پر زندہ رہتا ہے مرتا نہیں بلکہ زخم مندمل ہونے کے بعد پہلے سے زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے۔ زخمی سانپ میں اتنی عقل سمجھ نہیں ہوتی کہ اسے زخم کسی اپنے نے دیا ہے یا پرائے نے، زخم کھانے کے بعد وہ یہ تمیز بھول جاتا ہے اور قریب آنے والے یا قریب سے گزرنے والے ہر شخص کو کاٹنے کو دوڑتا ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ سانپ کی آنکھیں نہیں ہوتیں ایسا ہرگز نہیں سوچنا چاہیے۔ اگر آنکھیں نہیں ہوتیں تو کیا آنکھوں کی جگہ دو بٹن رکھے ہوتے ہیں کہ گریبان کا بٹن ٹوٹ جائے تو گلا کھلا چھوڑ کر لوفر کہلانے کے بجائے اضافی بٹن اتار کر وہاں لگا لے۔ سانپ کی آنکھیں چھوٹی ہوتی ہیں لیکن نظر تیز ہوتی ہے۔ وہ کبھی وزش کرتا نظر نہیں آتا جم بھی اٹینڈ نہیں کرتا مگر پھرتیلا ہوتا ہے، وہ خوب کھاتا ہے اور ایک اور کام بھی خوب کرتا ہے اسکے ذکر کو یہیں چھوڑتے ہیں تاکہ آپ کے اخلاق و کردار پر اس کا بُرا اثر نہ پڑے۔
دور حاضر کا سب سے زیادہ زہریلا اور پھرتیلا سانپ ناتجربہ کاروں کے ساتھ زخمی ہونے کے بعد جوش انتقام میں پھنکار رہا ہے، آس پاس کھڑے درجنوں سیانے باہم مشورے کے بعد کہہ رہے ہیں اسے سزائے موت نہیں دینی چاہیے، نا اہلی اور وہ بھی صرف دس برس کی کافی ہے۔ وہ ڈرتے ہیں کہ آج اسکی باری ہے کل انکی باری نہ آ جائے۔ یاد رہے سانپ کا سر نہ کچلا جائے تو پھر وہ کسی کو نہیں چھوڑتا، وہ کسی کو نہیں چھوڑے گا۔ سانپ صرف نیولے سے ڈرتا ہے، نیولہ کیا سوچ رہا ہے، کیا وہ بھی سانپ پر رحم کھائے گا، اس کا جواب وقت دے گا۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.