آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے سے اچھی خبریں آنا شروع ہو گئی ہیں ڈالر کی قدر میں کمی، ڈالر اور سونا سستا، مہنگائی کی شرح میں 9 فیصد کمی ہو گئی ہے۔ تاریخ میں پہلی بار سٹاک ایکسچینج میں 2230 پوائنٹس کا اضافہ ہوا، انڈکس 43ہزار کی سطح عبور کر گیا ہے۔ پاکستان کے ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے ہونے والے3ارب ڈالر کے معاہدے اور ڈیفالٹ کا خطرہ ٹلنے کے بعد عیدالاضحی کی تعطیلات ختم ہوتے ہی سٹاک مارکیٹ میں نئی تاریخ رقم ہو گئی۔ عید کے دوسرے روز وزیر اعظم، وزیر خزانہ اور وزیر اطلاعات و نشریات نے اپنی دیگر حکومتی ٹیم کے ہمراہ لاہور میں قوم کو خوشخبری سنائی کہ آئی ایم ایف سے 3 ارب ڈالر کا سٹینڈ بائی قرض 9 ماہ کی مدت کے لیے ملنے کا معاہدہ ہو گیا ہے۔ حکومت نے اسے تاریخی کامیابی قرار دیا اور کہا کہ ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ ٹل گیا ہے، یعنی حکومت نے خود ہی تسلیم کر لیا کہ ڈیفالٹ کا خطرہ موجود تھا، زیادہ پیچھے نہ بھی جائیں، پی ٹی آئی دور حکومت میں جب آئی ایم ایف سے قرض لینے کے لیے معاہدہ کیا گیا تو اس وقت کی اپوزیشن اور موجودہ حکومتی وزرا کا موقف تھا کہ ملک آئی ایم ایف کے آگے بیچ دیا گیا ہے، حکومت ایک ارب ڈالر کے آئی ایم ایف کے آگے ڈھیر ہو گئی ہے، آئی ایم ایف سے قرض کو ملکی معیشت کی تباہی اور غریب عوام پر مہنگائی بم گرانے کے مترادف قرار دیتی رہی مگر پی ڈی ایم جماعتوں کو شاید یہ یقین نہیں تھا کہ کبھی ہم بھی حکومت میں آ سکتے ہیں اور ہمیں بھی آئی ایم ایف کے آگے سے ڈھیر ہی نہیں ہونا پڑے گا بلکہ ناک سے لکیریں بھی نکالنا پڑیں گے۔ حکومتی وزرا کے بیانات ریکارڈ کا حصہ اور سوشل میڈیا پر وائرل بھی ہو رہے ہیں اس لیے سیانے کہتے تھے کہ پہلے تولو پھر بولو۔ ماضی میں جس عمل کو ملکی تباہی کی علامت کہا گیا آج اسی عمل کو ملک کی خوشحالی، سلامتی اور نا جانے کیا کیا ثمرات گنوائے جا رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی میں پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان اعلانات کرتے تھے کہ خودکشی کر لوں گا مگر قرض نہیں لوں گا لیکن حکومت ملنے پر انہیں بھی آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا۔ سیاستدانوں کو ذمہ دارانہ بیانات دینا چاہیے اور مخالفت برائے مخالفت کے بجائے قوم کو حقیقت سے آگاہ کرنا چاہیے۔ آئی ایم ایف کے قرض کے بدلے حکومت نے کیا معاہدے کیے ہیں ان کی تفصیلات حکومتی پلیٹ فارم سے تو جاری نہیں کی جا رہی البتہ سوشل میڈیا پر وائرل خبروں کے مطابق حکومت نے لاہور، اسلام آباد ائیر پورٹ، اسلام آباد تا چکوال موٹر وے گروی رکھ دی ہے، اسلام آباد ائیرپورٹ سے متعلق وزیر خزانہ اسحاق ڈار سے جب حامد میر نے اپنے پروگرام میں سوال کیے کہ اسے لیز پر دے دیا گیا ہے تو وزیر خزانہ نے انکشاف کیا کہ نہیں گروی رکھا، اس کے علاوہ کراچی پورٹ کو ابوظہبی جبکہ اسٹیل مل کو روس کے حوالے کرنے کی خبریں زیر گردش ہیں، تاحال کسی بھی حکومت ذرائع نے ایسی خبروں کی تردید نہیں کی۔ ویسے بھی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے گزشتہ ماہ ہی اعلان کیا تھا کہ ہم ڈیفالٹ نہیں ہو سکتے کیونکہ ہمارے پاس کھربوں ڈالرکے اثاثے موجود ہیں تو اس پالیسی کے مطابق ان کی نظر اب ملکی اثاثوں پر ہے حکومت جانے کے بعد ہی پتہ چلے جائے گا کہ موجودہ حکومت کیا کیا کارروائیاں ڈال گئی ہے اور قوم کو اس کا خمیازہ کس کس شکل میں بھگتنا پڑے گا۔ آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالرکے قرض پر حکومت اور اس کے اتحادیوں میں تو خوشی کی لہر دوڑ چکی ہے اور وزیر اعظم کہہ رہے ہیں کہ ہم نے سیاست نہیں ریاست بچائی ہے، حالانکہ ترقی کرتے ملک کو ریورس گیئر پی ڈی ایم کی حکومت نے ہی لگایا ہے اور ہر شعبہ کا گراف تیزی سے نیچے گرا،مہنگائی مکاؤ مارچ کے ذریعے ماضی میں 11فی صد شرح مہنگائی پر چیخیں مارنے والے ممبران اسمبلی اور اس وقت کی اپوزیشن جماعتیں عوام کو ریلیف دینے کے لیے تجربہ کار لوگ جب عدم اعتماد کر کے حکومت میں آئے تو مہنگائی کی شرح 40فیصد تک لے آئے مگر نہ کسی کوئی مہنگائی نظر آئی نہ ہی پی ڈی ایم جماعتوں میں سے کسی نے مہنگائی مکاؤ مارچ کا اعلان کیا۔یہی وجہ ہے کہ لوگ سمجھتے ہیں کہ انہیں عوام سے کوئی ہمدردی نہیں تھی بلکہ اپنے کیس ختم کرنے، خزانہ خالی کرنے کے لیے اقتدار میں آئے تھے اور اپنے مشن پر انہیں کامیابی مل گئی۔آئی ایم ایف سے قرض لینے کیلئے حکومت نے بجٹ کے بعد مزید 215ارب روپے کے ٹیکسز کا اضافہ کردیا ہے جس سے یقینا مہنگائی کا سیلاب آئے گا اور غریب عوام کا بھرکس نکلے گا، ملک تو ڈیفالٹ سے بچ جائے گا مگر غٖریب عوام ڈیفالٹ کرچکے ہیں انہیں دو وقت کی روٹی میسر نہیں۔ وزیر اعظم چاہیں تو تمام سرکاری افسران کو بجلی، پیٹرول، گیس، الاؤنسز وغیرہ بند کر کے اربوں روپے قومی خزانے میں بچت کرسکتے ہیں اپنی کابینہ کا سائز کم کر کے قومی خزانہ کمزور ہونے سے بچا سکتے تھے مگر اس طرح ان کی حکومت کیسے چلتی، چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو کی دھمکی پر سیلاب زدگان کی مدد کے لیے خطیر رقم مختص کردی گئی مگر یہ وقت طے کرے گا کہ سیلاب زدگان کے لیے گھر بنیں گے یا پھر یہ پیسہ الیکشن پر خرچ کر دیا جائے گا۔ آئی ایم سے قرض ملنے پر یقینا حکمران بہت خوش ہیں کہ ان کے بے شمار مسائل حل ہوجائیں گے مگر عوام پریشان ہیں کہ یہ قرض اتارے گا کون؟
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.