اغیار کے جال اور ہمارا ردِعمل

35

انگریز نے 1849ء میں پنجاب پر قبضہ کر لیا، آپ یہ جان کر حیران ہوں گے اس وقت پنجاب میں تعلیم سو فیصد تھی، انگریز اس تعلیم کو خطرناک سمجھتا تھا چناں چہ یہ لوگ کنگز کالج لندن کے ایک نوجوان پروفیسر گوٹلیب ولیم لیٹنر کو لاہور لے آئے، لیٹنر بھی ایک عجیب وغریب کردار تھا، یہ 50 زبانیں جانتا تھا عربی، ترکی اور فارسی مقامی لوگوں کی طرح بولتا تھا، کچھ عرصہ مسلمان بھی رہا تھا۔اس نے داڑھی بڑھا کر اپنا نام عبدالرشید سیاح رکھا اور تمام اسلامی ملکوں کی سیاحت کی، وہ مسجدوں میں نماز تک پڑھ لیتا تھا، وائسرائے نے اسے ہندوستان بلایا اور اسے پنجاب کا نظام تعلیم بدلنے کی ذمہ داری سونپ دی، لیٹنر نے پنجاب کا دورہ کیا اور وائسرائے کو لکھا، مجھے پڑھے لکھے پنجاب کو جاہل بنانے کے لیے 50 سال درکار ہوں گے، وائسرائے نے اسے 50 سال دے دیے، اسے انسپکٹر جنرل آف سکولز پنجاب بنا دیا تھا،
پھر لیٹنر کو گورنمنٹ کالج لاہور کا پرنسپل بنا دیا گیا۔ اس نے آگے چل کر پنجاب یونیورسٹی کی بنیاد بھی رکھی، یہ ان دونوں اداروں کا ابتدائی سربراہ تھا، انگریز نے پنجابیوں کو غیر مسلح اور ان پڑھ بنانے کے لیے پنجاب میں ”ہتھیار“ جمع کرائیں اور حکومت سے تین آنے لے لیں اور عربی، سنسکرت اور گورمکھی کی کتاب دیں اور چھ آنے وصول کر لیں، جیسی سکیم بھی متعارف کرائی اور پورے پنجاب سے کتابیں اور اسلحہ جمع کر لیا، انگریز نے اس کے بعد انگریزی زبان کو سرکاری اور دفتری زبان بنا دیا اور سکولوں کو عبادت گاہوں سے الگ کر دیا۔
جاگیر داروں اور زمین داروں کے بچوں کو انگلش میڈیم تعلیم دے کر متوسط طبقے کو دبانے کی ذمہ داری بھی دے دی گئی، انگریزوں کو سمجھ دار، قانون پسند اور انصاف کا پیکر بنا کر پیش کرنا بھی شروع کر دیا گیا، مقامی زبانوں اور کتابوں کو جہالت کا مرکب قرار دے دیا گیا، ولیم لیٹنر کا منصوبہ کامیاب ہو گیا اور اس نے 50 کے بجائے 30 برس میں پورے پنجاب کو غیر تعلیم یافتہ اور جاہل بنا دیا، لیٹنر نے اپنے ہاتھ سے لکھا میں نے پورے پنجاب کا دورہ کیا۔آج یہاں کوئی پڑھا لکھا شخص نہیں ہے۔ اس نے سیالکوٹ کے ایک گاؤں چوڑیاں کلاں کی مثال دی، اس کا کہنا تھا کہ میں پنجاب آیا تو اس گاؤں میں ڈیڑھ ہزار پڑھے لکھے لوگ تھے، آج یہاں صرف 10لوگ گورمکھی اور ایک اردو پڑھ سکتا ہے اور یہ بھی چند برسوں میں مر کھپ جائیں گے۔ لیٹنر نے پنجاب میں رہ کر اردو سیکھ لی اور پھر اردو میں دو والیم کی تاریخ اسلام لکھی، یہ کتاب 1871ء اور 1876ء میں دو بار شائع ہوئی، لیٹنر 1870ء کی دہائی میں اپنا کام مکمل کر کے برطانیہ واپس چلا گیا۔
انگلینڈ میں اسی لاکھ افراد لائبریری سے براہ راست کتابیں لیتے ہیں۔ برطانوی لائبریریوں میں نو کروڑ بیس لاکھ کتابیں ہیں۔ کل آبادی کا ساٹھ فیصد (کل آبادی چھ کروڑ ستر لاکھ) لائبریری کی ایکٹیو ممبرشپ رکھتا ہے۔ ہر سال آٹھ ہزار سے زائد نئی کتب کا اضافہ ہوتا ہے۔۔ علم دوست قومیں علم پر خرچ کرتی ہیں اور دنیا پر راج کرتی ہیں۔ یہ سارا خرچہ ہر فرد لاکھوں گنا زیادہ کر کے اپنے قوم کو واپس کرتا ہے اور برطانیہ کو عظیم برطانیہ میں بدل ڈالتا ہے۔
علم کتابوں میں بند ہے اور اس معاملے میں ہماری عقل ہمیشہ سے بند ہے۔ جن کی ترجیح علم ہو عظمت خود بخود ان کے پاس دوڑی چلی آتی ہے۔ جن کی ترجیح ایف سولہ، ایٹم بم اور محض انا ہو وہ ہمیشہ گھاس کھاتے ہیں۔ تلواروں اور گھوڑوں کا دور چلا گیا اب ڈرون، اٹونومس ہتھیاروں اور آرٹیفشل انٹیلی جنس کا دور ہے۔ یہ سب علم کے بغیر ممکن نہیں۔ وہ لائبریریوں کے جال بچھائیں گے اور ہم میزائل بنائیں گے۔ وہ یونورسٹیاں بنائیں گے اور ہم لنگرخانے بنائیں گے۔ وہ جوتے مارتے رہیں گے اور ہم کھاتے رہیں گے……یونیسکو کے ہیومن ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2003ء کے مطابق دنیا بھر میں ایک مسلمان ایک سال میں اوسطاً ایک کتاب سے کم پڑھتا ہے اور ایک یورپین ایک سال میں اوسطاً پینتیس کتابیں پڑھتا ہے جبکہ ایک اسرائیلی شہری ایک سال میں اوسطاً چالیس کتابوں کا مطالعہ کرتا ہے۔عرب تھاٹ فاؤنڈیشن کی کلچرل ڈیویلپمنٹ رپورٹ 2011ء اس سے بھی بدترین آکڑے دکھا رہی ہے اس کے مطابق ایک ایوریج یورپین سال میں دو سو گھنٹے مطالعہ کرتا ہے جبکہ ایک مسلمان اور عرب ایک سال میں اوسطاً چھ منٹ مطالعہ کرتا ہے۔ہم مسلمانوں کو بس یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے ساتھ سازش کوئی نہیں کر رہا…… جو ایسا کہتا ہے وہ ہمارا دشمن ہے وہ ہم سے سچائی چھپا رہا ہے کیونکہ اپنے خلاف جو گھناؤنی سازش ہم خود کر رہے ہیں اس کے بعد کسی اور کو ہم پر محنت کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔خوبصورت لہجے کے باکمال شاعر اسد رحمان کے مشاہدے کے مطابق:
پھیلے ہوئے فضاؤں میں وہ جال تھے وہاں
سب ضابطے شکار کے پامال تھے وہاں
مجھ کو لگا وہ آنکھ اُٹھی ہے مرے لیے
دیکھا تو کان اوروں کے بھی لال تھے وہاں
کیا بزم تھی کہ رندِ تُنک ظرف اک طرف
ہم جیسے وضع دار بھی بے حال تھے وہاں
فائر کی گونج ختم ہوئی اور اُس کے ساتھ
اُڑتے ہوئے فضا میں پَر و بال تھے وہاں
اک بحر و بَر کے بیچ جگہ کیا ملی ہمیں
گِرداب اِس طرف تھے جو بھونچال تھے وہاں
حیرت ہے اُس کے بعد بھی آتی رہی بہار
ہم لوگ ساتھ ساتھ تو اک سال تھے وہاں
منزل پہ مجھ سے پہلے پہنچ کر بھی کیا مِلا
قدموں کے کچھ نشاں تو بہرحال تھے وہاں

تبصرے بند ہیں.