فلسفہ حج اور قربانی

32

یہ تو ہونا ہی تھا۔ تقدیر کو کون ٹال سکتا ہے۔ ہر عروج کو زوال ہے۔ وہ جو سمجھتے تھے کہ ہمارے بغیر پتہ نہیں ہل سکتا اور یہ دنیا ان کی وجہ سے چل رہی ہے آج کروٹ نہیں بدل سکتے۔ جن کے قصیدے لکھے جاتے تھے آج وہ دعائے مغفرت کے طلب گار ہیں۔ کوئی ان کا نام لیوا نہیں۔ یہی دنیا کی بے ثباتی ہے لیکن یہ سمجھنے کے لیے شاید مرنا پڑتا ہے اور یہاں مرنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔
دنیا ہے ہی ایسی کہ سب کچھ بھلا دیتی ہے۔ اقتدار ہاتھ میں آتا ہے تو یہی لگتا ہے کہ یہ ہمیشہ رہے گا۔ ظالم ہے ہی اتنا دلکش کہ کچھ دکھائی دیتا ہے نہ سجھائی۔ جو لوگ اس عالم مدہوشی میں بھی اپنی عقل کے گھوڑے کو قابو میں رکھتے ہیں وہ مراد پا جاتے ہیں۔
پاکستان کو دیکھ لیں یہاں کتنے حکمران آئے اور گئے لیکن حالات بدلنے کا نام نہیں لے رہے۔ جو بھی آیا اس نے عوام کے اقتدار کو تسلیم کرنے کے بجائے یہی جانا کہ شاید یہ سب کسی مہربان کی نظر کرم ہے اور عوام کو بھول کر ان کی تابعداری شروع کر دی۔ جو لائے تھے ان کا ایجنڈا پورا ہوا تو کسی دوسرے کو اقتدار سونپ دیا۔ عوام کے ووٹ کو محض آنکھوں میں دھول ڈالنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ اس لیے آج تک اس ووٹنگ پراسیس کو شفاف بنانے کی جانب کسی نے توجہ نہیں دی۔ ڈوریاں ہلانے والے اگر اس نظام کو صاف شفاف بنا دیں گے تو ان کا کھیل تو ختم شد ہو جائے گا۔
میں کسی پر الزام نہیں دھر رہا لیکن آپ خود ہی بتائیں کہ کیا یہ نظام چلنے کے لائق ہے جہاں پر غریب کا بچہ کسی اور سکول میں پڑھتا ہے اور امیر کے بچے کے لیے دوسرا نظام موجود ہے اور کیا اس کے بعد میرٹ کی کوئی اہمیت رہ جاتی ہے۔ یہ تو ایسے ہی ہوا کہ ایک پہلوان کا ہاتھ باندھ کر اکھاڑے میں اتار دیں۔ میری طرح آپ بھی عام آدمی ہیں تو آپ نے بھی ہسپتالوں میں ضرور دھکے کھائے ہوں گے۔ کیا امیروں کا علاج بھی ایسے ہو رہا ہے۔ کیا ان امیروں میں ایک طبقہ وہ نہیں ہے جس کے طبی اخراجات بھی ریاست ادا کر رہی ہے اور ان پر ٹیکس دہندگان کا پیسہ خرچ ہو رہا ہے۔ کیا ان کے بچے ٹیکس دہندگان کے پیسے سے باہر جا کر عیاشی نہیں کر رہے۔
کچھ احوال افسر شاہی کا۔ پاکستان کو تو ان لوگوں نے لوٹ کا مال سمجھ کر استعمال کیا ہے۔ ان کے اخراجات قوم برداشت کرتی ہے اور تنخواہ کو وہ کمیٹی سمجھ کر بنک میں رکھتے ہیں لیکن اوپر کی کمائی سے عیاشی کرتے ہیں۔ افسر شاہی کے کئی افسران کے گھر چھاپے پڑے تو وہاں سے کروڑوں روپے کا سامان نکلا۔
کبھی آپ نے نظام انصاف پر نظر ڈالی ہے کیا یہ نظام انصاف دے رہا ہے۔ انصافی جج اور نونی جج کون ہیں اور کس طرح فیصلے ہو رہے ہیں۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ ججوں کی تعیناتی کا پراسیس شفاف ہے تو میری تصحیح فرما دیں۔ جب یہ سارا نظام ہی بدبودار ہو چکا ہے اس سے گلشن کیسے مہکے گا۔
باتوں سے محل کھڑے ہو جاتے تو مسٹر کھپل سے بڑا کوئی معمار نہ ہوتا۔ پاکستان کے حکمرانوں نے اسی کی پیروی کی ہے۔ عوام کو جھوٹے لارے دیئے خواب دکھائے اور اقتدار میں آ کر ان کی گردن پر چھری پھیر دی۔ یہ کام شروع دن سے جاری ہے تو پھر گلہ کیا۔ ہر دور کے وزیراعظم کی تقریر سن لیں آپ کو ایک جیسی ہی ملے گی۔ یہ ہو جائے گا وہ ہونے جا رہا ہے یہ کر دیں گے، بہت جلد ملک میں سونے اور چاندی کی نہریں بہنا شروع ہو جائیں گی۔ لوگ اتنے امیر ہو جائیں گے کہ کوئی غریب باقی نہیں بچے گا۔ ہوتا اس کے برعکس ہے غربت ختم نہیں کی غریب کو بھی ختم کر دیا۔ دنیا کا کوئی انڈیکس اٹھا کر دیکھ لیں اور اس میں اپنے ملک کو دیکھ لیں۔ کیا آپ اسے ترقی پذیر ملک کہہ سکتے ہیں۔ کیا آپ کا مقابلہ خطے کے دوسرے ممالک سے کر سکتے ہیں۔ بھارت تو وہ ایک طرف رکھیں آپ بنگلہ دیش سے کوسوں میل دور ہیں۔ اگر آپ سری لنکا کی صف میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو پھر آپ کی مرضی ہے۔
اس کا جواب کوئی نہیں دے رہا کہ اچھا خاصا ترقی کرتا ہوا ملک کس نے تجربے کی بھینٹ چڑھا دیا۔ کچھ عرصہ تک ہم بھارت کے ہم پلہ تھے بلکہ بہت سے شعبوں میں ان سے آگے تھے پھر کیا ہوا کہ کچھ بھی باقی نہیں بچا۔ جب تسلسل نہیں ہو گا اور سیاسی استحکام نہیں ہو گا ملک ترقی نہیں کرے گا۔ بھارت کو دیکھ لیں، بنگلہ دیش سے سبق سیکھ لیں۔ جمہوریت کی ہم لاکھ برائیاں کر لیں لیکن جہاں بھی جمہوریت مضبوط ہوئی ہے وہاں ترقی ہوئی ہے۔ ایک مغربی ملک کی خاتون وزیر اپنا کام خود کر رہی تھی جب اس سے سوال کیا گیا تو اس نے کہا کہ میری تنخواہ اتنی نہیں کہ میں کسی خادمہ کو افورڈ کر سکوں۔ کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ برطانوی وزیراعظم کی رہائش گاہ میں کتنے سرکاری ملازم تعینات ہیں۔ کیا کسی ملک کی بیوروکریسی کے پاس اتنے بنگلے اور گاڑیاں ہیں جو اس ملک کی بیوروکریسی کے پاس ہیں وہاں بیوروکریسی نوکر شاہی کا نام ہے اور یہاں افسر شاہی کا۔ کئی ڈپٹی کمشنر اور پولیس افسر ایسے ہیں جن کی سرکاری رہائش گاہیں بہت سے ملکوں کے وزرائے اعظم سے بڑی ہیں۔ کیا کسی مغربی ملک میں کسی وزیر مشیر یا بیوروکریسی کے بچے سرکاری کاروں میں سکول جا سکتے ہیں۔ ایسی عیاشی صرف ملک پاکستان میں کی جا سکتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کیا ایسا ہوتے ہوئے ہم فلسفہ حج اور قربانی پر بات کر سکتے ہیں۔ قربانی ایثار کا نام ہے جس کا اس ملک میں بہت فقدان ہے۔ بہرحال آپ کو عید الاضحی مبارک۔

تبصرے بند ہیں.