ہم ہیں ریگِ ساحل آبلہ پا کھڑے ہوئے

54

اگر یہ کہا جائے کہ ہمارے حکمرانوں نے کبھی ایسے منصوبے نہیں بنائے جو ہمیں اپنے پاؤں پر کھڑا کر دیتے تو غلط نہ ہوگا انہوں نے ہمیشہ اقتدار کے کھیل میں محو رہنا ہی مناسب سمجھا نتیجتاً آج ہم پیسے پیسے کو ترس رہے ہیں قرضے پے قرضہ لے کر بھی حالات بہتر نہیں ہو رہے اب تو آئی ایم ایف بھی اڑ گیا ہے کہ پہلے خزانے میں محفوظ رقوم دکھاؤ اور پھر ہماری شرائط پر عمل درآمد کی یقین دہانی کراؤ تب کوئی بات آگے بڑھے گی۔ جبکہ قرضہ نہ ملنے سے تیزی سے خزانہ خالی ہوتا جا رہا ہے جس سے عام آدمی کی زندگی پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں کیونکہ جب قومی سرمایے میں کمی واقع ہوتی ہے تو اشیائے ضروریہ بھی مہنگے داموں فروخت ہونے لگتی ہیں لہٰذا اس وقت مہنگائی کا شیش ناگ ہر غریب شہری کو ڈس رہا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ شور نہیں مچارہا سڑک پر آکر احتجاج نہیں کر رہا مگر وہ بری طرح سے اس سے متاثر ہے۔ اْدھر جو کوئی بے روزگار ہے اس پر تو گویا ہتھوڑے برس رہے ہوں۔
ہو سکتا ہے آنے والے دنوں میں روس سے درآمد کیے جانے والے خام تیل سے مہنگائی پر تھوڑا بہت قابو پانے میں مدد مل سکے مگر اس کے لیے مہنگائی مافیا کو کنٹرول کرنا ہو گا جو ظاہرہے انتظامیہ کا کام ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ قیمتوں کا تعین کرنے والے ادارے اپنے فیصل پر عمل کروانا ضروری نہیں سمجھتے لہٰذا مہنگائی مافیا خوب عوام کی کھال ادھیڑتا ہے وہ سرکاری نرخوں کو کبھی نہیں دیکھتا اس وقت بھی ریڑھی بان سے لے کر اوپر تاجروں تک سبھی اپنی مرضی کر رہے ہیں جس سے مہنگائی بڑھ رہی ہے ہم اپنے کئی کالموں میں یہ عرض کر چکے ہیں کہ اگر ہماری انتظامیہ چاہے تو عام آدمی کے مسائل پچاس فیصد تک کم ہو سکتے ہیں۔ ایک تھانیدار اگر چاہتا ہے کہ اس کے علاقہ میں مہنگائی سے لے کر قبضہ گیری، منشیات فروشی، جعل سازی دھوکا دیہی، سینہ زوری، غنڈہ گردی تک کہیں کسی جرم کا ارتکاب نہ ہو تو ہم پورے وثوق سے کہتے ہیں کہ ایسے واقعات کی شرح چند فیصد رہ جائے گی مگر یہ نظام حیات کسی کو پابندِ مصلحت رکھتا ہے لہٰذا نہ نو من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی کے مصداق مسائل کے خاتمے اور ترقی کرنے کے لیے ہمیں سب سے پہلے موجودہ نظام کو بدلنے کی ضرورت ہے جو نہیں بدلا جا رہا کہ جنہوں نے بدلنا ہے وہ کرسی کے لیے اپنی ذہنی توانائیاں صرف کر رہے ہیں دوسروں کو اپنا مطیع بنانے کے لیے حکمت عملیاں بنا رہے ہیں اگر یہ لوگ عوامی فلاح کے لیے سوچنا شروع کر دیں، بدعنوانی کو ختم کرنے کا تہیہ کر لیں، قانون و آئین کی بالادستی کا فیصلہ کر لیں، لوگوں کو بنیادی حقوق دینے کی ٹھان لیں، انصاف سستا اور آسان کر دیں اور احترام آدمیت کو اپنی سیاست کا محور بنا لیں تو پھر ان کا یہ اقدام خزاں رْت کو بہار میں تبدیل کر دے گا مگر انہیں اس نظام میں رہنے کی عادت پڑ گئی ہے جس میں ان کے محل تو تعمیر ہوں غریب کی جھونپڑی پکی نہ ہو اسے زندگی کی سہولتوں، آسانیوں اور رعنائیوں کا ماحول میسر نہ آئے مگر یہ اب زیادہ دیر تک نہیں چلے گا جس طرح موسم بدل رہا ہے ارتقائی عمل بھی آگے بڑھ رہا ہے اسی طرح حالت خراب بھی حالت راست میں ضرور بدلے گی کیونکہ یہ ہو نہیں سکتا کہ چمن کی ویرانی کِھلی کلیوں سے ہمکنار نہ ہو لہٰذا ہم ایک آس لگائے بیٹھے ہیں جو خوشیوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے وہ پوری ہو کر رہے گی۔
ہمارے حکمران بھی اس بات کو اچھی طرح سے جان چکے ہیں کہ یہ نظام جس نے طویل عرصے تک اہل وطن کا استحصال کیا ہے اب وہ قائم نہیں رہ سکتا اسے تبدیل ہونا ہے اس کی جگہ مساوات کا نظام آنا ہے۔
بہرحال ہماری ادھ موئی معیشت نے جہاں ہمیں ضروریات زندگی سے دور کر دیا ہے وہاں اس نے ہمارے سماجی ڈھانچے کو بھی سخت نقصان پہنچایا ہے کہ اب نفرتیں، کدورتیں اور دوریاں جنم لینے لگی ہیں جنہیں ختم کرنے کے لیے ہمارے حکمرانوں کو ہی یہ بیڑا اٹھانا ہو گا بھلے ان کے محل ان ممالک میں ہوں جہاں انسانیت کی قدر ہے انصاف ہے مگر اس کے باوجود یہ فطری امر ہے کہ جو کوئی جہاں کہیں پیدا ہوتا ہے اسے وہ مٹی بہت پیاری ہوتی ہے وہ لوگ بھی اسے یاد آتے ہیں جن میں رہ کر وہ جوان ہوتا ہے لہٰذا ہم مایوس نہیں کہ ہمارے حکمران اسی طرح کی طرز سیاست جاری رکھیں گے انہیں اب یہ احساس ہو رہا ہے بلکہ ہو چکا ہے کہ عوام کی غالب اکثریت موجودہ سیاست اور سیاستدانوں سے بیزار ہو چکی ہے وہ ایک نیا سیاسی منظرنامہ دیکھنے کے خواہاں ہیں لہٰذا انہیں عوامی خدمت کی جانب بڑھنا ہو گا۔ اسی تناظر میں ہی شاید انہوں نے اپنی سمت (خارجہ پالیسی) کو تبدیل کرنا چاہا ہے جس پر امریکا کو تھوڑی سی پریشانی ہوئی ہے مگر وہ ایک طرف یہ بھی کہتا ہے کہ ہر ملک کو اپنے معاملات دیکھنے کا پورا حق ہے۔ خیر خارجہ پالیسی کے بدلنے پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اب یہاں زندگی مسکرانے والی ہے کیونکہ یہاں فقط تیل ہی نہیں آنا اشیاء کا لین دین بھی ہونا ہے جدید ٹیکنالوجی بھی آئے گی جو ہماری معیشت کے لئے ریڑھ کی ہڈی ثابت ہو گی۔ بہر کیف ہم دو بڑی سیاسی جماعتوں کے جوڑ توڑ کی طرز سیاست سے کچھ فکر مند ہیں کیونکہ وہ وزارت عظمیٰ کے حصول کے لیے جس طرح کی بھاگ دوڑ کر رہی ہیں اس سے ان میں کوئی دراڑ بھی آسکتی ہے اور اس سے اجتماعی مفاد پر اثر پڑ سکتا ہے لہٰذا وہ اپنی سیاست کاری میں قومی بہتری سے چشم پوشی اختیار نہ کریں اگرچہ انہوں نے مل کر چلنے کا عندیہ دیا ہے مگر پھر بھی یہ دھڑکا لگا ہوا ہے کہ کہیں یہ نہ ہو جائے وہ نہ ہو جائے لہٰذا انہیں عوامی مسائل پر بھرپور توجہ مرکوز کرنا ہو گی کیونکہ لوگوں میں مہنگائی، نا انصافی، بے روزگاری کی وجہ سے اپنے حکمران طبقات پر شدید غصہ ہے کہ وہ 75 برس گزرنے پر بھی ان کی بھلائی کے لیے کوئی بڑا قدم نہیں اٹھا رہے اپنے اقتدار کے لیے ہی کوششیں کر رہے ہیں اس دوران اصولوں اور ضابطوں کی بھی پروا نہیں کررہے اور ابھی تک وہ اپنے سیاسی حریفوں کو نیچا دکھا رہے ہیں اس سے بڑھ کر انتقامی کارروائیاں بھی کر رہے ہیں جو ہماری بقا کے لیے انتہائی نقصان دہ ہو سکتی ہیں مگر بات وہی کہ ابھی ہمارے سیاستدانوں کی وہ تربیت نہیں ہوئی کہ جو انہیں عوامی احساسات سے آشنا کر دے۔

تبصرے بند ہیں.