جھوٹ کے پاؤ ں نہیں ہوتے ……!

91

یوں تو تحریکِ انصاف کے قائد جناب عمران خان کے اندازِ فکر و نظر اور طرزِ سیاست کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس میں ضِد، ہٹ دھرمی، جھوٹ، غلط بیانی، الزام تراشی اور ہرزۂ سرائی کے پہلو ہمیشہ سے موجود چلے آ رہے ہیں۔ مئی 2011ء میں مقتدر حلقوں یا دوسرے لفظوں میں ہماری اسٹیبلشمنٹ نے پراجیکٹ عمران کو مضبوط اور توانا بنانے کا سلسلہ شروع کیاتو اُس کے ساتھ ہی جناب عمران خان کی طرف سے مخالفین کو برا بھلا کہنے، انہیں ہر طرح کی خرابیوں اور برائیوں کا مرکز و محور قرار دینے کے ساتھ عوام میں اپنی مقبولیت بڑھانے کے لیے جھوٹے سچے دعوے کرنے، بلند آہنگ نعرے لگانے اور سبز باغ دکھانے کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا۔ مئی2013ء کے انتخابات کے بعد جناب عمران خان اِن اِنتخابات میں اپنی ناکامی کو پنجاب کی نگران حکومت کی طرف سے قومی اسمبلی کے کم از کم پینتیس حلقوں میں دھاندلی(35 پنکچر لگانے) کا نتیجہ قرار دینے کا بیانیہ جہاں اختیار کیا وہاں وہ اگست 2014ء میں لاؤ لشکر سمیت دھرنا دینے کے لیے اسلام آباد چڑھ دوڑے اور 126 دنوں تک جاری رہنے والے دھرنے کے دوران انہوں نے ہر طرح کی الزام تراشیوں، ہرزہ سرائی، جھوٹ، نفرت، ضد اور ہٹ دھرمی پر مبنی بیانیے کو اپنائے رکھا۔اگست 2018ء میں جناب عمران کی حکومت قائم ہوئی تو ان کے طرزِ سیاست اور اندازِ فکر و عمل میں کچھ بھی تبدیلی نہیں آئی بلکہ ان کی ضِد، نفرت اور ہٹ دھرمی پر مبنی رویے میں شدت اور انتہا پسندی کے ساتھ مخالفین کو نہ چھوڑنے اور اُلٹا لٹکا دینے کی دھمکیاں دینے کا سلسلہ بھی زیادہ زور پکڑ گیا۔ اس کے ساتھ موقع بہ موقع یُو ٹرن لینا اور پہلے سے اپنائے ہوئے اپنے مو قف سے پیچھے ہٹنا بھی اُن کا روزمرہ کا معمول بنا رہا۔ یہاں زیادہ تفصیل میں نہیں جاتے کہ یہ ہماری ماضی قریب کی تاریخ کا حصہ ہے، تاہم اپریل 2022ء میں قومی اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد کے نتیجے میں جناب عمران خان کو حکومت سے محروم ہونا پڑا تو اس کے بعد انہوں نے جو بیان بازی شروع کی، جس طرح کے منفی روئیے کا اظہار اور اداروں اور مقتدر شخصیات کے خاف نفرت بھرے شر انگیز پروپیگنڈے کو ہوا دی اور اپنے اس اعلان کے مجھے اگر حکومت سے نکالا گیا تو میں زیادہ خطر ناک ہو جاؤں گاپر عمل در آمد شروع کیا تو یہ سب کچھ ایسا تھا کہ اس کی جہاں پاکستان کی ماضی کی تاریخ میں کوئی مثال نہیں مِلتی وہاں اس کا کوئی نہ کوئی منطقی
نتیجہ بھی سامنے آنا ضروری تھا۔ چنانچہ یہی ہوا اور بہت گج وج کے ساتھ ہوا اور 9 مئی کا یومِ سیاہ ہماری قومی تاریخ کے ماتھے کا جھومر بن کر اُبھرا۔
9 مئی کو جو کچھ ہوا جتنا تشدد، انتہا پسندی، نفرت، وطن دشمنی، فوج اور فوج کی قیادت سے نفرت کا مظاہرہ اور اس کے نتیجے میں عسکری تنصیبات اور قومی یارگاروں کو نشانہ بنانے کے واقعات ہوئے۔ یہ سب کچھ اظہر مَن اَلشمس ہی نہیں ہے بلکہ اس کے ناقابلِ تردید شواہد اور ثبوت بھی موجود ہیں جن کو جھٹلایا نہیں جا سکتا۔ جناب عمران خان کا کمال یہ ہے کہ وہ ان واقعات کو ان کے اسباب و علل، وجوہات اور بر سر زمین حقائق کو مسلسل جھٹلا ہی نہیں رہے ہیں بلکہ ان کے بارے میں آئے روزمتضاد موقف کا اظہار بھی کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ایک موقر، معتبر، با وقار اور انتہائی با خبر تجزیہ نگار اینکر پر سن اور یو ٹیوب وی لاگر جناب سید طلعت حسین کے مطابق جناب عمران خان 9 مئی کے واقعات کے بارے میں 11 مئی سے اب تک کم و بیش دس ایک دوسرے کے متضاد موقف اختیا ر کر چکے ہیں۔ 9 مئی کے المناک اور افسوسناک واقعات کے بارے میں 11 مئی کو ان کا جو بیان یا ٹویٹ سامنے آیا اس میں اُن کا کہنا تھا مجھے اس بارے میں کچھ پتہ نہیں کہ میں جیل میں تھا۔ پھر یہ کہنا ضروری سمجھا کہ یہ ایک سازش تھی جو میرے خلاف کی گئی۔ پھر یہ کہاکہ لوگ اگر احتجاج کے لیے نکلے تو انہوں نے انہی لوگوں یا ان سے متعلقہ جگہوں کو نشانہ بنا نا تھا جس سے وہ نفرت کا اظہار کرنا چاہتے تھے۔ گویا لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس یا راولپنڈی میں جی ایچ کیو کے گیٹ یا میانوالی میں فضائیہ کے مستقر یا پشاور میں قلعہ بالا حصار یا کچھ اور جگہوں پر عسکری تنصیبات کو نشانہ بنا یا گیا تو اس کے ذریعے لوگوں (تحریکِ انصاف کے حالیوں اور موالیوں) نے مسلح افواج سے اپنی نفرت کا اظہار کیا۔ اسی طرح انہی دنوں سابقہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ایک بار پھر ہدفِ تنقید بنانا اگر ضروری سمجھا تو اپنی وزارتِ عُظمیٰ کے دوران ممکنہ طور پر انہیں ڈی نوٹیفائی کرنے (اپنے عہدے سے ہٹانے) کی طرف اشارہ کرنا بھی ضروری سمجھا۔ اسی طرح موجودہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کے بارے میں جناب عمران خان کے موقف میں کھلا تضاد موجود ہے۔ ایک طرف وہ ان سے ملاقات کی التجائیں کرتے نظر آتے ہیں تو دوسری طرف وہ کہہ رہے ہیں کہ ان کے تمام مسائل کا ذمہ دار ایک شخص موجودہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر ہیں۔
9 مئی کو رُو نما ہونے والے المناک اور افسوسناک واقعات اور ان کے نتیجے میں سامنے آنے والی صورتِ حال کے بارے میں جناب عمران خان کے ان بیانات اور خطابات کی زیادہ تفصیل میں نہیں جاتے تاہم ان کے بارے میں بلا خوفِ تردید یہ کہا اور سمجھا جا سکتا ہے کہ ان میں کھلا تضاد ہی نہیں پایا جاتا بلکہ دروغ گوئی، جھوٹ اور موقع بہ موقع یو ٹرن لینا ان کی اصل اوربنیاد سمجھی جا سکتی ہے۔ جھوٹ کی بات چلی ہے تو اس کے بارے میں اس مسلمہ حقیقت کہ اس کے پاؤ ں نہیں ہوتے کا اظہار جناب عمران خان کے اُن پر قاتلانہ حملے کی مبینہ سازش کی تحقیقات کے لیے قائم کی گئی جے آئی ٹی کے سامنے چند دن قبل دیئے جانے والے بیان سے سامنے آتا ہے۔ جناب عمران خان یہ الزام دھرتے چلے آرہے ہیں کہ اُن پر قاتلانہ حملے کی مبینہ سازش میں میاں شہباز شریف، رانا ثنا ء اللہ اور آئی ایس آئی انٹرنل وِنگ کے سربراہ میجر جنرل فیصل نصیر شامل ہیں۔ اگلے دن جناب عمران خان جے آئی ٹی کے سامنے بیان دینے کے لیے پیش ہوئے تو اُن سے پوچھا گیا کہ آپ کے پاس اپنے خلاف قاتلانہ حملے کی سازش میں میاں شہباز شریف، رانا ثناء اللہ اور میجر جنرل فیصل نصیر کے ملوث ہونے کے کیا ثبوت ہیں تو جناب عمران خان کا کہنا تھا کہ اُن کے پاس اِس کا کوئی ثبوت نہیں اور محض سنی سنائی باتوں پر یہ الزام لگایا ہے۔ جناب عمران خان نے جے آئی ٹی کے سامنے یہ جو بیان دیا ہے یہ تحریر ی شکل میں موجود ہے اور اس پر جناب عمران خان کے دستخط بھی موجود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ نے پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پاس عمران خان کا دستخط شدہ تحریر ی بیان موجود ہے اگر وہ اس کا انکار کرتے ہیں تو کوئی ثبوت سامنے لائیں۔
جناب عمران خان کے حوالے سے دروغ گوئی اور اپنے پہلے سے دئیے گئے بیانات یا موقف سے پھرنے کے تذکرے کا مقصد اُن کی کردار کشی یا اُن پر کیچڑ اچھالنا ہر گِزنہیں، صرف اِس حقیقت کی طرف اشارہ کرنا ہے کہ قومی سطح کا کوئی لیڈر جب اپنی مقبولیت اور ہر دل عزیزی کے زعم میں جھوٹ، افترا پردازی، دروغ گوئی اور الزام تراشی کو فروغ دیتا ہے تو اس کا یہی انجام سامنے آتاہے جس سے ہماری قومی سیاست ان دِنوں دو چار ہے اور جس کا سامنا جناب عمران خان اوراُن کے ساتھیوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔

تبصرے بند ہیں.