ایک کالم وزیر اعلی پنجاب کی توجہ کے لئے

71

ویسے تو پاکستان میں شائد ہی کوئی ایسا شہری ہو جو یہ دعوی کر سکے کہ وہ مکمل صحت مند ہے،اگر ہم کیٹگری میں جائیں تو صرف نفسیاتی عوارض کے شکار مریضوں کے بارے میں اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں پانچ کروڑ لوگ نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہیں، چوالیس فیصد لوگ ڈپریشن کا شکار ہیں۔ خواتین میں یہ تعداد ستاون فیصد اور مردوں میں صرف پچیس فیصد ہے۔ اگر ان اعدادوشمار کو دیکھ کر بھی لوگ اس مسئلے پر توجہ نہیں دیتے تو پھر کسی ”چنگھاڑ“ کا انتظار کریں۔ ان ذہنی عوارض کا علاج ہم ان نام نہاد گدی نشینوں اور عاملوں کاملوں کے آستانوں پر تلاش کرنے جاتے ہیں جو خود کسی نہ کسی ذہنی عارضے اور ہوس زر اور زن کا شکار ہیں۔ آپ اندازہ لگائیے ایک ایسا ملک جس کی چوالیس فیصد آبادی ڈپریشن کا شکار ہو وہاں صرف ساڑھے سات سو تربیت یافتہ سائیکاٹرسٹ موجود ہیں۔ یعنی ہر دس ہزار مریضوں کیلئے صرف ایک ماہرنفسیات دستیاب ہو اور نفسیاتی بیماریوں کے شکار چالیس لاکھ بچوں کیلئے صرف ایک چائلڈ سپیشلسٹ موجود ہو اور ملک کی ساری آبادی کیلئے نفسیاتی امراض کے صرف چار بڑے ہسپتال ہوں۔ وہاں ہر گلی محلے میں ”نیم حکیم اور عامل بابوں کے آستانے اور درگاہیں موجود ہوں تو اس میں اچھنبے کی کون سی بات ہے۔
پاکستان میں جعلی پیر کا لفظ ایسے لوگوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو غیبی طاقتوں یا کرشمہ سازی کے دعوی دار ہوتے ہیں۔ توہم پرست اور جاہل لوگوں کی کثیر تعداد ان کو”پہنچا“ ہوا سمجھ کر ان کی مرید ہو جاتی ہے۔ اس پہنچے ہوئے پیر کے کارندے کرشمہ سازی اور شعبدہ بازی میں مدد دے کر لوگوں کو مرعوب کرتے ہیں۔ یہ لوگ اپنا تعلق پرانے صوفیوں سے جوڑتے ہیں اور عوام ان کو”پہنچا“ ہوا سمجھتی اور کہتی ہے۔ بعض پیر جنات کو اپنے قبضہ میں بتاتے ہیں اور سائلوں کا ان کی مدد سے کوئی بھی کام کروا لینے کا دعوی کرتے ہیں۔پاکستان میں جعلی پیروں اور عاملوں کے کہنے پر توہم پرست اور کمزور عقائد رکھنے والے افراد کی جانب سے انسانی جانیں لینے خصوصاً کم سن بچوں کے قتل کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے ملک بھر کے اخبارات بھرئے پڑئے ہیں ابھی حال ہی میں لاہور میں ایک جعلی عامل نے اپنے ہی بیٹے کوذبح کر کے انسانیت کو خون کے آنسو رولایا ہے۔جعلی پیر اور عامل مختلف پریشانیوں کے شکار افراد کو مشکلات سے چھٹکارا پانے کے لئے انسانی جان لینے کے علاوہ دھکتے انگاروں پر سے گزرنے، رات بھر کسی نہر کے پانی میں یا سوکھے کنوئیں میں کھڑے رہنے، خطرناک جنگلوں، ریگستانوں یا قبرستانوں میں چلہ کشی کے مشورے
دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ جعلی عاملین اور پیر نذرانوں کی مد میں بھی ان افراد سے نقد رقم اور قیمتی اشیا بٹورتے ہیں گھر بسانے کے چکر میں گھر اجاڑ دیئے جاتے ہیں۔جعلی پیروں اور عاملوں سے لوگوں کو بچانے کے لئے قانون کے مؤثر نفاذ کی ضرورت ہے۔ توہم پرستی اور لالچ کو فروغ دینے میں میڈیا کا کردار بھی گھناؤنا ہے ٹیلی ویژن اور اخبارات میں جعلی دوائیاں، جعلی ڈاکٹر، جعلی پیر، تعویز گنڈے اور طلا فروشوں کے اشتہارات سے بھرے ہوتے ہیں۔
یہ جہالت ہے، غربت ہے،توہم پرستی ہے یااندھا اعتقاد کہ پاکستان میں ذہنی اور نفسیاتی بیماریوں کا علاج عاملوں، کاملوں اور نام نہاد پیروں کے ذریعے کرانے پر زور دیا جاتا ہے۔آپ صرف گوگل کر کے دیکھ لیجیے ایسے ہزاروں واقعات بمعہ تفصیلات نظرآئیں گے جن میں کہیں جن نکالنے اور کہیں جادو ٹونے کے اثرات ختم کرنے کے اور ”بچہ“ حاصل کرنے کے نام پر یہ’عاملے کاملے‘معصوم بچوں، بچیوں اورخواتین کو ہلاک کرنے کے ساتھ آبرو ریزی جیسے گھناونے جرائم کا ارتکاب کر چکے ہیں، اس ضمن میں ریاست اپنی ذمہ داری پوری کرنے سے نہ صرف قاصر رہی ہے بلکہ شائد ابھی تک ان کے خلاف کوئی قانون سازی بھی نہیں کر سکی اور نہ ہی حکومت کے پاس ملک بھر کے مزاروں اور آستانوں کا کوئی ڈیٹا ہے حالانکہ حکومت کو چاہیے تھا کہ شہریوں کے ساتھ توہین آمیز سلوک انسانیت کی توہین کرنے والے ایسے مراکز اور آستانوں کے بارے جان کاری رکھتی جہاں آئے روز بدترین سانحات جنم لیتے ہیں۔ ایسے آستانوں اور درگاہوں کے بارے میں کیسی کیسی کہانیاں منظر عام پر آتی ہیں کہ روح تک کانپ اٹھتی لیکن اگر کسی پر اثر نہیں ہوتا تو وہ حکومت ہے۔ جب کوئی بڑاانسانی المیہ رونما ہوتا ہے اور شور شرابے کے بعد وقتی پکڑ دھکڑ کے بعد گلشن کا کاروبار پھر اسی طرح جاری و ساری رہتاہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گلی گلی محلے محلے ان نام نہاد پیروں، عاملوں کاملوں کے آستانے آباد ہیں، جو سر عام”جسمانی و روحانی”عوارض کا ”شافی علاج“ کرتے پائے جاتے ہیں یہ ایک ایسا کام ہے جس میں کسی تعلیم،تجربے اور مہارت کی ضرورت نہیں ہر ”بابے“ اور عامل کی مارکیٹنگ کرنے والے مرد و خواتین موجود ہوتے ہیں جن کے پاس ان کے ”روحانی کمالات“ کی ایسی ایسی کہانیاں موجود ہوتی ہیں کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے(جاہل) بھی ان کہانیوں سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے۔
ویسے تو اس عمل کے بنیادی وجہ انسانی پریشانیوں کو قرار دیا جاتا ہے لیکن غربت،بے روزگاری کے ساتھ سب سے بڑا سبب جہالت بھی ہے۔کیونکہ جب لوگ عقل کا استعمال نہیں کرتے اور شعور نہیں رکھتے تو ایسے اندھے”عقیدت مندوں“ کے ساتھ پھر ”انسانیت سوز“ وقعات معمول بن جاتے ہیں اور میڈیا ”جعلی“ کی گردان کے ساتھ بریکنگ نیوز نشر کرنا اپنا فرض منصبی سمجھتا ہے لیکن جعلی پیر عامل کی دھن بجانے ولا میڈیا یا اور لوگ عوام کی راہنمائی فرماتے ہوئے اصلی پیر یا عامل کی پہچان اور نشانی بتا دیں تو شائد بہتوں کا بھلا ہو جائے۔ پاکستان جہاں کی چالیس فیصد سے زائد آبادی غربت کا شکار،جہاں عدل وانصاف کے ادارئے ”فحاشی“ جس کی کوئی جامع تعریف ہی ابھی تک سامنے نہیں لا سکے پر لکھے لفظوں پر تو سوموٹو لے لیتے ہیں لیکن ہر روز غربت بھوک افلاس، تھانوں کچہریوں اور جیلوں کے اندر بدترین انسانی توہین کے ”ننگے پن“ اور تکریم آدمیت کی تذلیل پر خاموش رہتے ہوں وہاں ظلم پر مبنی حکومت کا قائم رہنا بذات خود ایک سوالیہ نشان ہے۔یہ ریاست کی ہی ذمہ داری ہے کہ وہ ذہنی عارضوں میں مبتلا عوام کے علاج کے ساتھ انہیں پریشانیوں میں مبتلا کرنے والے عوامل اور عاملوں سے محفوظ رکھنے کے لئے اقدامات اٹھائے اگر وہ اپنے آپ کو ریاست ہوگی ”ماں جیسی“ سمجھتی ہو تو جدید ذہنی عوراض کی علاج گاہوں کا قیام عمل میں لائے جہاں منشیات کے عادی افراد کا بھی علاج ہو سکے کیونکہ وہ بھی ذہنی عارضوں کی وجہ سے ہی اس لعنت کا شکار ہوتے ہیں۔
ایسے واقعات کی وجہ کچھ بھی ہو یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی فلاح وبہبود اور تحفظ کو یقینی بنائے ریاست کا کردار اس ضمن میں اولین حیثیت رکھتا ہے جس کاکام معاشرے کو مضبوط بنیادیں فراہم کرنا بھی ہوتا ہے اورجن معاشروں کے اندر سماجی انصاف ہوتا ہے وہاں اس طرح کے جرائم بھی کم نظر آتے ہیں۔ اس ضمن میں سب سے بنیادی کردار تو ریاست کا ہی ہے کہ وہ ریاست میں بسنے والے ہر شہری کی ذہنی، جسمانی و مالی حالتوں کی نگہداشت کرنے کے ساتھ ان کے تحفط کو بھی یقینی بنائے لیکن معاشرہ کے باشعور افراد کی بھی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اردگرد ہونے والی ”ذلالتوں“ کے نقصانات کے بارے اپنا کردار ادا کریں، ضعیف الاعتقادی اور توہم پرستی کے خاتمے کے لئے جہالت کا خاتمہ بھی ضروری ہے۔آخری بات تمام آستانے، درگاہیں اور مزار ات کا ڈیٹا مرتب کرنے کے ساتھ انہیں کسی حکومتی اتھارٹی کے دائرہ کار میں لایا جائے تا کہ اس طرح کے واقعات کا سدباب کیا جا سکے۔ ہم سمجھتے ہیں وزیراعلیٰ پنجاب جناب محسن نقوی اس اہم مسئلے پر بہتر انداز میں کام کر سکتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں.