ایک نیا دور شروع ہوا چاہتا ہے

51

عمران خان کی اب تک کی سیاست میں مستقل مزاجی بہت کم نظر آتی ہے۔ انہوں نے تبدیلی کا نعرہ لگایا مگر وہ کبھی ایک سمت کا تعین نہیں کر سکے۔ سٹیٹس کو کی بات بڑے دبنگ لہجے میں کرتے مگر اپنے گرد ایسے لوگ اکٹھے کر لیے جو کسی صورت حالت موجود کو تبدیل کرنے کے حق میں نہیں تھے لہٰذا انہوں نے خوب زر و جواہر سمیٹے۔ میڈیا میں بھی وہ زیر بحث رہے حزب اختلاف نے بھی ان کی نشان دہی کی۔ پھر عام آدمی نے دیکھا کہ جتنے بھی بڑے نام ہیں سبھی دولت کے حصول کی دوڑ میں شریک ہیں۔
عثمان بزدار سابق وزیراعلیٰ پنجاب نے ڈنکے کی چوٹ پر اپنی تجوریاں بھریں ان کے بعض قریبی عزیزوں اور رفقا نے اپنی زندگی کو پُر آسائش بنانے کے لیے ذرائع پیداوار تخلیق کیے۔ یوں عمران خان بدعنوانی کے خلاف نعرے کے خلاف ثابت قدم نہیں رہ سکے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اس کا عمران خان کو علم تھا مگر وہ مصلحتاً خاموش رہے اور اپنی حریف سیاسی جماعتوں کی قیادتوں کو گردن سے پکڑنے کا اعلان کرتے رہے ہر جلسے ہر پریس کانفرنس میں ان کی زبان پر ایک ہی جملہ ہوتا میں نواز شریف اور زرداری کو نہیں چھوڑوں گا انہوں نے ملک کو بے دریغ لوٹا ہے لہٰذا وہ ان کو قانون کے کٹہرے میں لائیں گے۔ انہوں نے معیشت کی بحالی کے لیے وہ اقدامات نہیں کیے جو صورت حال کا تقاضا کرتے تھے۔ اگرچہ انہوں نے چند ایسے اقدامات کیے جن سے عام آدمی کو فائدہ پہنچا مگر ان کے لیے بھاری ترین قرضے لیے گئے یعنی چھوٹے چھوٹے ریلیف دے کر یہ احساس دلایا گیا کہ ملک خوشحالی کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ حالات کچھ اور بتا رہے تھے۔ مہنگائی اس قدر بڑھ گئی کہ مزدور اور سرکاری ملازمین چیخ اٹھے ہمیں اچھی طرح سے یاد ہے کہ ہم نے مہنگائی کے حوالے سے درجن بھر کالم لکھے اور حکومت کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی مگر کون سنتا ہے اور کون عمل کرتا ہے خان نے تو کبھی عوامی نبض پر ہاتھ رکھنے والوں کو اپنے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیا وہ تو مشورہ سوائے چند من پسند ساتھیوں کا ہی مانتے تھے وہ بھی کبھی کبھار وگرنہ وہ اپنی بات ہی منواتے تھے جو اکثر ان کے لیے
نقصان دہ ثابت ہوتیں جیسا کہ انہوں نے قومی اسمبلی سے ہاہر آ کر اور دونوں صوبائی اسمبلیاں توڑ کر خود کو ایک بڑی مصیبت سے دو چار کر لیا اسمبلیاں توڑنے کے بعد ان کا یہ خیال تھا کہ حکمران آئین کے مطابق عام انتخابات کرانے پر مجبور ہوں گے جن میں وہ دو تہائی اکثریت حاصل کر لیں گے اور پھر جو ان کا پروگرام ہے اس پر آزادی کے ساتھ آگے بڑھیں گے ان کا پروگرام کیا تھا یہی کہ اپنے حریفوں کو زچ کیا جائے ان کو بدعنوانی کے الزامات کے تحت پابند سلاسل کیا جائے جبکہ یہ کام ان کا نہیں تھا اگر وہ قیادتیں واقعتاً بدعنوان تھیں تو ان کا ٹرائل ہوتا جس میں ملکی دولت پر ہاتھ صاف کرنے کے ثبوت مل جاتے تو عدالتیں انہیں سزائیں سنا دیتیں مگر عمران خان توشاید خود یہ سب کرنا چاہ رہے تھے ان کی توجہ رشوت، سفارش، قبضہ گیری تھانوں پٹوار خانوں اور ان کے اپنے ساتھیوں کی بدعنوانی پر نہیں تھی لہٰذا ایک طرف وہ کچھ کہہ رہے تھے اور دوسری جانب کچھ اور۔ خارجہ پالیسی کے ضمن میں بھی وہ گو مگو کی کیفیت میں مبتلا دکھائی دیئے۔ امریکا کو للکارتے رہے اسے اپنی محرومی اقتدار کا ذمہ دار قرار دینے لگے مگر کہنے والے کہتے کہ وہ امریکا کے خلاف نہیں یہ سائفر وغیرہ ایک غلط موقف اپنایا گیا ہے مگر اس وقت لوگ جذباتی ہو گئے ان کی مقبولیت کا گراف اچانک بلندیوں کو چھونے لگا جس سے وہ یہ سمجھ بیٹھے کہ اب سب ان کے ماتحت ہوں گے مگر وہ بھول گئے کہ ریاست ریاست ہوتی ہے وہ ایک شہ دماغ رکھتی ہے لہٰذا اس کے ساتھ مذاکرات و ڈائیلاگ ہوتا ہے اس کو ڈرایا دھمکایا نہیں جاتا اور پھر وہ کرنے کیا جا رہے تھے کوئی نظام مساوات کے لیے کوشاں تھے بدعنوانی کا خاتمہ چاہتے تھے اگر ایسا تھا تو بدعنوان لوگ ان کے ساتھ کیوں تھے جو بری طرح قومی خزانہ لوٹ رہے تھے۔
بہرحال معذرت کے ساتھ کہ انہوں نے اپنے کارکنوں کو ایک ایسی تربیت کے مراحل سے نہیں گزارا جس میں ٹھہراؤ کی سیاست سے متعلق آگاہی ہوتی وہ خود بھی جذباتی ہوتے رہے اور اپنے لوگوں کو بھی جذباتی بناتے رہے جبکہ انہیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ وہ ایک سیاستدان ہیں اور سیاست میں حقائق کو پیش نظر رکھا جاتا ہے دوسروں کا احترام کیا جاتا ہے اختلاف رائے کو ذاتی دشمنی میں نہیں تبدیل ہونے دیا جاتا اداروں کو مضبوط کیا جاتا ہے ان کی اصلاح ضرور کی جاتی ہے مگر ان پر زبردستی کوئی بات مسلط نہیں کی جاتی انہیں اپنا دوست بنایا جاتا ہے اور غیر محسوس انداز سے ان میں موجود کسی خامی اور کوتاہی کو دور کیا جاتا ہے مگر عمران خان اپنی تقاریر کے ذریعے جو غصہ سے بھرپور ہوتیں سب کچھ بدل کر رکھ دینے کے خواہش مند تھے یہاں مکرر عرض ہے کہ وہ ابھی تک کوئی انقلابی منشور سامنے نہیں لا سکے، لائیں گے بھی کیسے وہ تو گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے رہے ہیں اور عوام بے چارے انہیں کوئی بڑا سیاسی رہنما سمجھتے رہے ہیں مگر نو مئی کے بعد صورتحال بدل چکی ہے کہ وہ سیاسی میدان سے باہر ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کے جو ساتھی انہیں چھوڑ کر جا چکے ہیں اور ان سے جو فیصلے کرائے گئے ہیں ان کا خمیازہ انہیں بھگتنا پڑے گا پڑ رہا ہے لہٰذا اگر وہ خود کو وقتی طور سے گوشہ نشین کر لیتے ہیں یا بیرون ملک چلے جاتے ہیں تو یہ ان کے لیے فائدہ مند ہو گا کیونکہ اب ان کے کسی بھی پروگرام کو پذیرائی نہیں مل سکتی ”ایبسولوٹلی ناٹ“ کے پیچھے رہنا اب ممکن نہیں رہا۔ بہت کچھ ان کے بارے میں منظر عام پر آ چکا ہے جس کی بنا پر ان کی پارٹی کو کالعدم کرنے کی باتیں چل نکلی ہیں مگر سیانے کہتے ہیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تحریک انصاف ختم نہیں ہو گی ویسے بھی جمہوری عمل میں جو پارٹی عوام و ملک کے لیے بہتر نہیں ہوتی وہ خود بخود سکڑ سمٹ جاتی ہے اگر اسے زبردستی سکیڑا جائے تو وہ اور ابھرتی ہے لہٰذا کسی پابندی سے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہو گا اور یہ بات ماننا پڑے گی کہ عمران خان نے اپنی سیاست کاری کے دوران لوگوں کو جو کچھ نئی باتیں بتائی ہیں وہ دھیرے دھیرے ہی ختم ہوں گی بہرحال عمران خان جلسے بڑے کر کے یہ سمجھتے رہے کہ سٹیٹس کو کی قوتیں ان کے آگے ہاتھ باندھے کھڑی ہوں گی یہ ان کی خوش فہمی تھی کیونکہ وہ ہیجانی سیاست کر رہے تھے انہیں معلوم ہونا چاہیے تھا کہ آخر کار ان کی پُر شور سیاست سے کوئی مرعوب نہیں ہو گا اور وہ ایک بہت بڑی غلطی کر گئے کہ سی پیک منصوبہ کو ایک حد تک نظر انداز کر دیا جس سے ان کی سیاست کاری واضح ہو گئی۔ اب وہ خود سیاست سے تائب ہونے کا کہہ رہے ہیں وہ تائب ہوں یا نہ ہوں حالات ان کے موافق نہیں رہے۔ ایک نیا دور شروع ہوا چاہتا ہے۔

تبصرے بند ہیں.