وسط ایشیاء کے صحرائے گوبی کے شمال سے بحیرہ بیکال تک پھیلے ہوئے برف سے منجمد دشت میں رہنے والے انسان بورچیجن(Borjigin) کہلاتے تھے جو ٹنڈرا کے برف زاروں کے کنارے کنارے مارے پھرا کرتے تھے،ان کے آباء واجداد ہن (Huns) اور ستھین (Scythian)تھے جنہیں یونانی اسکوتھوئی کہتے تھے۔
ان وحشی بورچیجن قبائل میں تاتاری،منگول یعنی مغل، قابل ذکر ہیں۔یہ خانہ بدوش قبائل سرسبز و شاداب چراگاہوں کی تلاش میں ادھر سے ادھر مسلسل رواں دواں رہتے انھیں ایک جگہ قیام نصیب نا تھا یہ چراگاہوں دریاؤں اور وادیوں کی سرزمینوں پر قبضے کے لیے ہر وقت برسر پیکار رہتے تمام جانوروں میں گھوڑا انکا محبوب ترین جانور تھا وہ گھوڑوں پر سواری کرتے ان کے بل پر جنگیں لڑتے ان کا دودھ پیتے اور اس دودھ سے اپنی من پسند شراب خمیز(Khumiz) تیار کرتے اور بوقت ضرورت ان کی پچھلی ران پر چیرا لگا کر ان کا خون پیتے اور انکا گوشت بھی کھاتے۔ یہ لوگ چمڑے سے بنے گول یورتوں (Yarts)یعنی خیموں میں رہتے جو ہلکی لکڑی کے فریموں سے بنائے جاتے خیموں کی یہ بستیاں دور سے دیکھنے پر مشروم کی طرح دکھائی دیتی تھیں۔ دنیا سے الگ تھلگ یہ لوگ نرے وحشی تھے،بہر طور انھوں نے جنگلی گھوڑوں کی سواری سیکھ لی تھی یہ لوگ دنیا کے متمدن علاقوں سے ہمیشہ دور ہی رہا کرتے تھے۔ طاقتور قبائل کمزور قبائل کو اپنا غلام بنالیتے اس لیے ان کی جنگ عموماً ”تنازع للبقا“ کے زمرے میں آتی تھی مہذب چینی ان وحشی جنگجوؤں کو ”شیاطین“ کہتے تھے۔
قدرت نے انھیں چھریرے بدن اور سخت جلد عطا کی تھی ہاتھ اور کندھے بہت ہی طاقتور اور پنجے اتنے مضبوط کہ وہ انسان کی کمر کو تیر کی طرح موڑ کر توڑ دیتے تھے، وہ سردی اور پیاس کو برداشت کرنے کی بے پناہ قوت رکھتے تھے جاڑے کی راتوں میں بڑے بڑے درختوں کا الاؤ جلا کر ان کے قریب ننگے بدن سوتے انگارے چٹخ چٹخ کر ان کے بدن پر گرتے مگر انھیں اتنی پرواہ نہ ہوتی جتنی کیڑے کے کاٹنے سے ہوتی ہے، ان کے حواس جانوروں کی طرح تیز انکی چھوٹی چھوٹی آنکھیں مگر بھوری اور ترچھی تاریکی میں بھی درندے کی مانند دور تک دیکھ سکتی تھی، وہ بستر پر خواتین سے لطف اندوز ہونے کے بجائے گھوڑوں پر ایک دوسرے کے پیچھے بھاگنا زیادہ پسند کرتے تھے، منگول بیویاں خریدتے، سردار کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ اپنی بیوی اپنے قبیلے کے بجائے کسی دوسرے قبیلے سے بزور بازو حاصل کرے وہ زندگی سے ایک ضدی جونک کی طرح چپکے رہتے تھے۔
تمام قبائل میں منگولوں کو عزت اور توقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کیونکہ یہ قبیلہ تمام قبائل کی نسبت زیادہ طاقتور تھا، چنگیز خان نے جب آنکھ کھولی تو اسے یہی وحشی سفاک اور بے رحم معاشرہ ملا، تیرہ سال کی عمر میں یتیم ہونے والے تیموچن نے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں سے صحرائے گوبی کی وسعتوں کو عبور کر کے ایک طوفانِ بلا خیز کی طرح ایک عالم کو آہنی لپیٹ میں لے لیا اسکے نام سے بڑے بڑے سلاطین دوراں کانپ جاتے تھے، اسکی تربیت دیگر قبائلی بچوں کی طرح قبائلی اصول و ضوابط کے مطابق کی گئی مگر وہ اپنے ہم عصروں سے فطری طور پر الگ تھلگ اور منفرد ہی رہا، قوتِ برداشت وہ پہلی چیز تھی جو تیموجن کو ورثے میں ملی اس کا باپ اپنے قبیلے کا سردار تھا جو چالیس ہزار یورتیوں (خیموں) پر مشتمل تھا،باپ کی وفات کے بعد اس کے شب وروز بہت ہی کٹھن گزرے تھے اسے دوسرے نو عمر لڑکوں کے ساتھ کئی کئی دن زین پر ہی رہنا پڑتا تین تین چار روز تک اسے پکا ہوا کھانا بھی نصیب نا ہوتا اور گوشت کے چند خشک پارچوں پر ہی گزارا کرنا پڑتا اور اکثر فاقہ بھی برداشت کرنا پڑتا ان حالات نے اسے کندن بنادیا اس نے بڑی پامردی،ہمت اور جرأت سے تیموجن سے چنگیز خان تک کا سفر کیا وہ انتہائی ذہین اور فطین تھا اس نے اپنی ذہانت کے بل بوتے پر غیر منظم قبائلی گرہوں کو منظم کیا اور ایک ہی جھنڈے تلے انہیں مرکزیت عطا کی۔
اجڈ اور ان پڑھ چنگیز خان نے اپنی وحشی قوم کو ”یاسا (Yassa)“ کی شکل میں نہایت ہی کارآمد دستور العمل اور ضابطہ وقانون دیا، جب ہم یاسا کا مطالعہ کرتے ہیں تو بلا شبہ چنگیز خان کے ذہن رسا کی داد دینی پڑھتی ہے یاسا نے وحشیوں کی زندگی بدل کر رکھ دی تھی انھوں نے اس پر عمل پیرا ہوکر مہذب اور ترقی یافتہ اقوام کو وہ ناکوں کے چنے چبوائے جس کی تاریخ عالم میں کوئی مثال نہیں ملتی، جب تک کوئی قوم اپنے آئین کی پاسداری نا کرے اس وقت تک وہ قوم سربلند وسر فراز نہیں ہوسکتی اس لیے چنگیز خان نے یاسا کی خلاف ورزی کو ناقابلِ معافی جرم قرار دیا،اس قانون کے چیدہ چیدہ نکات درج ذیل ہیں:
٭چوری کرنا کسی کا گھوڑا چھیننا اور زنا واجب القتل جرم ہیں۔ ٭ایسی اولاد جو والدین اور بڑوں کی عزت نا کر ے مجرم شمار ہوگی۔ ٭غریبوں کو نیچا دکھانے کی بجائے ان کی عزت کرنا۔ ٭اپنے ملک و قوم کے خلاف غداری کرنا ناقابل معافی جرم ہوگا۔ ٭منگولوں کا آپس میں لڑنا حرام قرار دیا گیا۔٭ہر منگول پر یہ حرام ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کو میدانِ جنگ میں چھوڑ کر بھاگ جائے اور جب تک پرچم میدان جنگ سے نا ہٹالیا جائے اس وقت تک لوٹ کھسوٹ کرنا جرم ہے۔ ٭بیویوں پر بلا وجہ شک کرنا تشدد کرنا جرم ہے اور بیویوں پر اپنے شوہروں کی فرمانبرداری لازمی قرار دی گئی۔ ٭چھوٹا بھائی بڑے بھائی کی عزت کرے گا اور اپنے سردار کی عزت کرنا واجب ہے۔ ٭مہینے میں صرف تین دن شراب پینے کی اجازت ہوگی اور نشے میں اس قدر مدہوش ہونے کی قطعی اجازت نہیں ہے،نشے میں مدہوش شخص کی مثال ایسی ہے کہ اس کے سر میں غیر معمولی چوٹ لگی ہو اور وہ حواس کھو بیٹھے۔ ٭عیسائیوں اور مسلمانوں کو تبلیغ اور مکمل مذہبی اجازت ہوگی۔
یاسا قوانین کی ایک لمبی چوڑی فہرست تھی جس کے آخر میں چنگیز خان کی مہر تصدیق ثبت تھی یاسا سے ان وحشی اور غیر مہذب قبائل کو وہ قوت عطا ہوئی کہ چنگیز خان اپنی کھلی آنکھوں سے ان منتشر اور غیر منظم گروہوں کو منظم اور متحد لشکر بنتا دیکھ رہا تھا اسکے پیش نظر صرف ایک ہی مقصد تھا کہ وہ ان بے لگام جنگلی گھوڑوں پر اپنی لگام اور زین کسے اور انھیں صحرائے گوبی سے دوڑاتا ہو باہر دور لے جائے وہ پہاڑ کے دامن میں کھڑا ہو کر اپنی قوم سے کہہ رہا تھا کہ”تم لوگوں میں سے وہ لوگ جو راحت اور مصیبت میں میرا ساتھ دیں گے اور جن کی وفاداری آئینے کی کی طرح صاف اور شفاف ہوگی ان سب کو میں ”مغل“ کا لقب دیتا ہوں،تم دنیا کے تمام جانداروں سے زیادہ طاقتور ہو اور تم ایک دن سب پر حکومت کرو گے“۔
اس نے وحشیوں کو اندازِ جہاں بانی سکھا دیئے یاسا نے کچا گوشت چبانے اور گھوڑیوں کا دودھ پینے والوں کی زندگیاں بدل دی انہوں نے صدیوں سے قائم سلطنتوں کو روئی کے گالوں کی بکھیر کے رکھ دیا تھا۔ یاسا کہ مندرجات جب سامنے آتے ہیں تو انھیں دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے کہ کس طرح تہذیب و تمدن سے عاری شخص ایک ایسا ضابطہ حیات مرتب کرسکتا ہے جس کے ایک ایک حرف سے اہل علم کی طرح تہذیب،اخلاق،مروت ذہانت اور شعور ٹپکتا ہے اور جسکا ایک ایک جملہ اپنی قوم کو تنظیم،اتحاد اور یقین کا درس دیتا ہے۔
چنگیز خان کی شخصیت کے اس پہلو کے آگے بڑے بڑے فاتحین مثلاً سکندر اعظم،نپولین مسولینی اور ہٹلر وغیرہ سے چنگیز خان کا قد نکلا ہوا نظر آتا ہے۔یہ سب جان کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ لوگ جو زندگی کے لیئے لڑتے اور لڑنے کے لیئے زندہ رہتے جن کی خوراک ابلا ہوا گوشت اور گھوڑی کا دودھ تھا جو اناج سے بنی روٹی سے ناواقف تھے انھیں ایک ایسا لیڈر میسر آگیا تھا جس نے انھیں ایک قلیل عرصے میں انسان نما جانور سے دنیا کی طاقتور قوم بنادیا جنہوں نے ایک صدی تک مکمل طور پر اور کئی صدیاں جزوی طور پر مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب اپنی حکومت قائم کی اور اس کے پیچھے چنگیز کا دیا ہوا ایک قانون تھا ”یاسا (yassa)“۔
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.