ڈٹ کے کھڑا ہے اب کپتان؟

83

اگلے روز فواد چودھری نے اسلام آباد پولیس کو دیکھ کر جس انداز میں دوڑ لگائی وہ ایک سیاسی راہنما کے ہر گز شایان شان نہیں تھی،ایسے تو اب کوئی فوج کو دیکھ کر دوڑ نہیں لگاتا جیسے فواد چودھری نے پولیس کو دیکھ کر لگا دی،اب کسی اور سیاسی جماعت میں شامل ہو کر دوبارہ اقتدار میں وہ آبھی گئے اْن کے ”بھاگنے“ کی وڈیوز اْن کی سیاسی عزت کو تاحیات تار تار کرتی رہیں گی،اللہ نے اْنہیں نئی زندگی دی،بھاگتے ہوئے جس طرح اْن کا سانس پْھولاہوا تھا،اْن کی زبان باہر اور رنگ زرد تھا،میں تو ڈر گیا تھا کوئی اور واقعہ ہی نہ ہو جائے،اب دوبارہ کبھی وہ اقتدار میں آئے اْنہیں چاہئے اپنے سیاسی مخالفین کے لئے ویسی بدزبانی نہ کریں کہ پولیس کو دیکھ کر اْنہیں دوبارہ دوڑ لگانی پڑے تو لوگ اْن سے ہمدردی کے بجائے پھر اْن کا تمسخر اْڑائیں،اْن کی بھاگنے والی وڈیوز کے انتہائی مضحکہ خیز ٹک ٹاک بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالے جا رہے ہیں،مجھے یہ غیر اخلاقی و مْتکبرانہ سا ایک فعل محسو س ہوتاہے،مصیبت یا آزمائش کسی پر بھی آسکتی ہے،ایسے موقعوں پر ہمیشہ دعا کرنی چاہئے اللہ سب کی مْشکلیں آسان فرمائے،کسی کی مصیبت یا مْشکل کا تمسخر اْڑانا کسی صورت میں مناسب نہیں ہوتا،کچھ لوگوں نے کہا ”یہ مکافات عمل ہے،فواد چودھری نے جو بویا تھا وہی کاٹا ہے“،کسی کی آزمائش یا مصیبت کو ”مکافات عمل“ کہنے والوں کی خدمت میں بس اتنا عرض کرنا ہے”ہم میں سے کون ہے جو مکمل طور پر بْرائیوں سے پاک ہے؟ یا جو اپنی بساط کے مطابق لوگوں پر ظلم یا زیادتیاں نہیں کرتا؟ تو کیا ایسی ہی آزمائش سے جب ہم خود دو چارہوں گے وہ بھی”مکافات عمل“ کہلائے گا؟ اللہ سے ہر وقت ڈرتے رہنا چاہئے،انسان بڑا کمزور ہے،دوسروں کے لئے ایسی بدزبانی یا بدکلامی کبھی نہیں کرنی چاہئے،ایسے بڑے بول کبھی نہیں بولنے چاہئیں جس سے ”پکڑ“ آجائے،قْدرت انسان کو رعایتیں بھی بہت دیتی ہے،پر جب انسان اپنے کسی مْتکبرانہ فعل یا اپنے کسی بڑے بول کی وجہ سے پکڑ میں آتا ہے یہ پکڑ بڑی سخت ہوتی ہے،شاید اسی پکڑ کا شکار آج کل ہمارے خان صاحب بھی ہیں،اللہ اْن کی مْشکلیں آسان فرمائے،مجھے اْن کی موجودہ حالت پر ترس آتا ہے،میں جب اْن کے قریب تھا اْنہیں سمجھاتا تھا،وہ میرا تمسخر اْڑاتے تھے،مجھے ”پاگل“کہتے تھے،ایک روز یہاں تک اْنہوں نے فرما دیا تم اب نون لیگ کی زبان بولتے ہو“،تب میں بہت بدد لہوا،جس شخص نے سرکاری ملازم (پروفیسر)ہوتے ہوئے چوبیس برسوں تک اْن کا ساتھ دیا،اْن کی ”تبدیلی“ کے گْن اْن کا باقاعدہ ”میراثی“ بن کر گائے،اْن سے کوئی فائدہ نہ اْن کے اقتدار میں آنے سے پہلے لیا نہ بعد میں لیا،اْس شخص کے لئے
جب اْنہوں نے یہ فرمایا ”تم اب نون لیگ کی زبان بولنے لگے ہو“ وہ شخص اْن کے لگائے ہوئے اس ”زخم“ کی تاب نہ لا سکا اور اْن کے ساتھ اپنا تعلق ختم کر لیا،پھر کبھی میرا اْن سے ملنے کو جی نہیں چاہا،نہ اقتدار کے نشے میں اْنہیں ہی یہ یاد رہا ایک شخص اْن کی زندگی میں ایسا بھی تھا جس نے اْن کے ساتھ اندھا دْھند محبت کی پاداش میں کئی برس مصیبتیں برداشت کیں،سرکار کی بدترین انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنا،جسے ایک بڑے اخبار سے صرف اس لئے استعفیٰ دینا پڑا کہ اْس کے مالک نے شریف برادران کے کہنے پر اْس پر یہ پابندی لگا دی تھی آئندہ تم خان صاحب کے حق میں نہیں لکھو گے،میری تو خیر اوقات ہی کیا تھی جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے مخلص ترین دوستوں سے بھی وہ نہ صرف دْورہوگئے بلکہ اْن کے خلاف انتقامی کارروائیوں کی بھی انتہا کر دی،ان دونوں نے اربوں روپے اْن کی ذات اور جماعت پر خرچ کئے،اپنا انتہائی قیمتی وقت اْن پر قْربان کیا اور اْس وقت کیا جب اْن کے اقتدار میں آنے کا کوئی تصور تک نہیں تھا،اصل میں اقتدار میں آنے کے بعد کسی مخلص دوست کی اْنہیں ضرورت ہی نہیں رہی تھی،اقتدار میں آنے کے بعد اپنی خوشامد کی لالچ
میں وہ اس قدر مبتلاہوگئے تھے کوئی اْنہیں ”دیوتا“ سے کم قرار دیتا وہ اْسے اپنا ”جانی دْشمن“ سمجھنے لگتے،ناجائز تنقید کا تو خیر اْن کے ہاں تصور تک نہیں تھا جائز تنقید بھی کوئی کرتا اْس سے بھی وہ نفرت کرنے لگتے،وہ خود کو ”عقل کْل“سمجھتے تھے،اس عالم میں وہ صرف سیاسی رشتوں سے نہیں کئی ”خونی رشتوں“ سے بھی محروم ہوگئے،حفیظ اللہ نیازی بھی اْن میں شامل ہیں،وہ پاکستان کو اپنی مرضی کی”ریاست مدینہ“بنانا چاہتے تھے، ایسی ”ریاست مدینہ”جس میں بے حیائی، کرپشن، منافقت، وعدہ خلافیاں،جھوٹ،دغا بازیاں و احسان فراموشیاں سب جائزہوں،بندہ پوچھے یہ سب تو پاکستان میں پہلے ہی ہو رہا تھا،اس کے لئے آپ کو”ریاست مدینہ“ بنانے کی کیا ضرورت تھی؟ پاکستان کو”ریاست مدینہ“ آپ نے کیا بنانا تھا پاکستان کو”ریاست پاکستان“ بھی آپ نے نہیں رہنے دیا،آپ کی پارٹی کے کئی نرم مزاج راہنما بھی ریاست کے جبر کا آج شکار ہیں تو اس کی وجہ صرف اور صرف آپ کا تکبر ہے،چند راہنما ہی نہیں پوری پارٹی اس تکبر کا اب شکار ہے،آپ کو تو ضمانتوں پر رہائی کی ”سہولیات“ حاصل ہوگئیں،مگر وہ لوگ خصوصاً وہ بے شمار نوجوان جو آپ کی شرپسندانہ باتوں میں آکر آج کتنے ہی روز گزر گئے جیلوں اور دیگر عقوبت خانوں میں گل سڑ رہے ہیں،یا لاپتہ ہیں،کون اْن کا وکیل بنے گا؟ کون اْن کا”جج“ بنے گا؟ کون اْنہیں ضمانتوں پر رہائی دے گا؟،اْن بے چاروں پر دہشت گردی کے پرچے ہو گئے،اْن میں سے کئی اب آرمی ایکٹ کا شکارہوں گے،اْن کا مستقبل تباہ ہوگا،نہ وہ باہر جا سکیں گے نہ کوئی جاب کر سکیں گے،اْن کا کیا بنے گا؟ کبھی سوچا آپ نے؟ آپ نے تو ستر برسوں میں بہت ”کھا ہنڈا“ لیا تھا،ان نوجوانوں ان بچوں کا کیا قصور تھا آپ کے شر کا جو شکارہوئے؟ آپ کی ساری جدوجہد اقتدار میں آنے کی تھی جس کے لئے ہر کسی کو استعمال کر کے آپ پھینکتے چلے گئے،البتہ جو خواب دوبارہ اقتدار میں آنے کا آپ نے دیکھ رکھا ہے وہ شاید اب کبھی پورا نہیں ہوگا،اس مْلک کو مستقل طور پر چوروں ڈاکوؤں اور اْن کی اولادوں کے سپرد کرنے والا کوئی اور نہیں آپ ہیں،مانا ریاست اس وقت آپے سے باہرہوکر کچھ انتہائی جانورانہ اور ظالمانہ اقدامات کر رہی ہے،جو یقینا قابل مذمت ہیں،مگر ریاست کو اس پر مجبور کس نے کیا؟جو قوتیں آپ کو اقتدار میں لے کر آئی تھیں اْن کے ساتھ اپنے معاملات کو بند گلی میں آپ نہ لے جاتے وہ قوتیں شاید دوبارہ چوروں اور ڈاکوؤں کے ساتھ اپنے رابطے بحال کرنے پر مجبور نہ ہوتیں،مْلک کی بے شمار سیاسی جماعتیں فوج کے سیاسی کردار کے خاتمے کی بات کرتی تھیں،آپ کی سوچ مگر نرالی تھی،آپ کی خواہش تھی فوج کا سیاسی کردار تاحیات صرف آپ ہی کے حق میں،آپ ہی کی جماعت تک برقرار رہے،اگلے روز آپ نے فرمایا”آئی ایس پی آر صاحب آپ اپنی جماعت بنالیں“،آئی ایس پی آر نے اپنی جماعت بنائی تھی جو آپ ہی کی جماعت تھی،پھر آپ کی جماعت نے آئی ایس پی آر کو اتنی گالیاں نکالیں کہ آئی ایس پی آر نے اب مزید اپنی کوئی جماعت بنانے سے توبہ نہ کی اْس کا اللہ ہی حافظ ہے۔۔
کل تک جو شخص جرنیلوں کا نام لے لے کر اْنہیں گالیاں دیتا تھا،فوج کو گندہ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا تھا،اب پوچھتا ہے ”میرا قصور کیا ہے؟“،تو بتائیں ناں ”ڈٹ کے کھڑا ہے اب کپتان؟“،نقاہتوں کے جس بدترین مقام پر اب وہ پہنچ گیا ہے کوئی پتہ نہیں کل وہ یہ فرما رہاہو”اس مْلک کے تمام مسائل کا حل صرف فوج اور آرمی چیف حافظ عاصم کے پاس ہے“،اْس کی مْتکبرانہ حماقتوں کو کیش کرواتے ہوئے اس مْلک کی اسٹیبلشمنٹ ”کمزوری“ کے اْس مقام پر اْسے لے آئے ہیں میرے خیال میں تو اْسے گرفتار کرنے کی بھی اب ضرورت نہیں رہی،چلے ہوئے اس کارتوس کو اْس کے حال پر چھوڑ دینا ہی اب بہتر ہے۔۔

تبصرے بند ہیں.