عیدالفطر حسبِ دستور ڈھیر ساری چھٹیوں کے درمیان آئی اور گزر گئی۔ رسمِ دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے، کے تحت وقتاً فوقتاً معاشی ترقی کا پہیہ کسی نہ کسی چھٹی سٹیشن پر جام ہوکر رک جاتا ہے۔ مہنگائی ہو نہ ہو، ڈالر، سونا اوپر جائے یا نیچے عجب مجذوب قوم ہے۔ اک گونہ بیخودی مجھے دن رات چاہیے…… کی کیفیت میں کچھ نہ کچھ منانے پر کمربستہ رہتی ہے۔ ایک ہفتہ بھر میں بھی عید سمٹ نہ پائی۔ کام کرنے والے، دفاتر میں حاضری دوسرے ہفتے تک بھی پوری نہ ہو پائی۔ سیاسی کشمکش کاری میں پوچھنے والا ہی کوئی نہیں!
عید پر اہم ترین ’بریکنگ نیوز‘ میں سے ایک کی ابتدا کچھ یوں تھی کہ ’عید کے پہلے ہی روز انتہائی افسوسناک خبر ہم آپ کو سناتے ہیں۔ زندگی اور موت کی کشمکش کے بعد ڈاکٹروں کی سرتوڑ کوشش کے باوجود نورجہاں دم توڑ گئی۔ بخار میں مبتلا تھی۔ تالاب میں گرنے کے بعد صحت بحال نہ ہوسکی۔ دو ماہ کی بیماری کاٹی۔ ذہنی اور جسمانی دباؤ کا شکار رہی۔‘ دم بخود ہم معمہ سمجھنے کو تھے دعائے مغفرت سے پہلے، کہ اچانک پتا چلا کہ ’بچوں کی عید خراب ہوگئی، چڑیا گھر (کراچی) کی ہتھنی ’نورجہاں‘ کے انتقالِ پرملال سے!‘ ہم دنیا بھر سے خبریں سمیٹنے، حالات سمجھنے کے چکر میں تھے لیکن یہاں طویل رپورٹ نہ صرف ہتھنی کی موت، اس کی وجوہات اور ان صفائیوں کے ضمن میں تھی جو ہمارے ذمہ داران دنیا کو پیش کر رہے تھے کہ ہم نے نگہداشت میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہ کیا! اسی پر بس نہیں۔ سری لنکا کے اعزازی کونسل جنرل نے ہمارے آنسو پونچھتے ہوئے دو ہتھنیاں ہمیں تحفہ دینے کا اعلان فرمایا۔ ساتھ ہی اعلان ہوا کہ سفاری پارک کراچی میں ایک ایکڑ سے زیادہ زمین انتظامیہ نے ’مدھو بالا‘ (اگلی ہتھنی) کے لیے مختص کردی۔
چارپائے عالمی تنظیمی برائے بہبودِ جانوراں 4-Pawsکو ہم رپورٹ دیتے رہے۔ نجانے ’دو پائے‘ 2-Paws کی بہبود کا بھی کوئی عالمی سامان اے چارہ گراں ہے کہ نہیں؟ ہم تو مفلسی میں گیلے اور مہنگے آٹے میں کچھ عوام کے لیے انتظام واہتمام کی خبروں کی تلاش میں تھے مگر یہاں نورجہاں کے بعد مدھوبالا ترجیح اول رہی۔ ایک ایکڑ مختص کرنے پر کراچی میں 2021-22 میں تجاوزات کے نام پر گرائے جانے والے گھر، بلڈنگیں، روتے بلکتے متاثرین جن کے سر چھت سے محروم کردیے گئے نظروں میں گھوم گئے۔ معاوضہ بھی نہ دیا گیا۔ 2021ء کی ایسی ہی ایک رپورٹ میں (یکم نومبر: ڈان) اس کے خلاف آواز اٹھانے والی تنظیم کے مطابق 70ہزار گھر زمین بوس کیے گئے جبکہ حکومت نے تعداد 435بتائی! نجانے انسانوں سے بڑھ کر جانوروں کی خصوصی دیکھ بھال اور حقوق کا اہتمام آج کی دنیا میں اتنا مقبول کیوں ٹھہرا۔ ہم ہاتھیوں، بندروں سے بغض نہیں رکھتے مگر اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی! آئی ایم ایف بھی پاکستانیوں کو سسکانے پر تلا بیٹھا ہے حکومت سے ایسے اخراجات بارے سوال نہیں کرتا؟
عید کے موقع پر امریکا میں منی سوٹا میں 2مساجد نذرِ آتش کرنے کے واقعات ہوئے۔ مگر دنیا میں کسی کان پر جوں نہ رینگی۔ یہ بریکنگ نیوز نہ تھی۔ اگر پاکستان میں کرسمس کے موقع پر 2چرچ خدانخواستہ نذرِ آتش کردیے جاتے تو قیامت کھڑی ہو جاتی! پورا مغرب تھرا اٹھتا۔ ادھر کشمیر میں تلاشی کے دوران گھروں کے تقدس پامال ہوتے رہے۔ دو خواتین کو ملک دشمن قرار دے کر گولیاں مار دیں، کوئی پرسانِ حال نہیں۔ افغانستان میں ’خواتین کی آزادی‘ کے نام پر پوری دنیا آئے دن تڑپ تڑپ کر قراردادیں پاس کرتی، بیان جاری کرتی رہتی ہے۔ باوجودیکہ افغان عورت کو جان ومال، عزت ووقار کا بہترین تحفظ میسر ہے۔ (صرف سڑکوں پارکوں پر عشوے غمزے دکھاتی، اٹھلاتے پھرنے پر پابندی ہے۔) جو منہج شریعت بھی ہے اور عورت کے
تقدس کا تقاضا بھی! دوحہ میں ہونے والے حالیہ مذاکرات میں جب طالبان حکومت تسلیم کرنے کی پیشرفت جاری تھی تو رائٹر کے مطابق کابل میں (فقط) 25آزادی پسند خواتین نے اس کے خلاف مظاہرہ فرمایا! اتنے شور شرابے کی اوقات یہ ہے!
امریکا میں مسلمانوں کے حقوق کے تحفظ کی سب سے بڑی تنظیم CAIR نے یہ انکشاف کیا ہے کہ امریکا میں سرکاری تفتیشی، چوکسی فہرست List Watch میں 98.3 فیصد نام مسلمانوں کے ہیں۔ (تنظیم نے اس کی ایک کاپی حاصل کی جو 10لاکھ ناموں پر مشتمل تھی۔) لہٰذا جابجا مسلمانوں کو سفر، حصولِ ملازمت، بینک اکاؤنٹ کھولنے میں رکاوٹیں حائل ہیں۔ امریکی معاشرہ آج بھی مسلمانوں کو قبول کرنے پر تیار نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ میڈیا میں مسلمانوں بارے غلط تاثر کی بنا پر سکولوں میں چھوٹے بچوں تک کے خلاف 2022 میں اسلاموفوبیاواقعات 63فیصد بڑھ گئے ہیں۔ ہم تو ہاتھیوں کے لیے بھی دنیا کے آگے حسنِ سلوک بارے جواب دہ ہیں۔ اور وہ مسلمان بچوں کو دھمکانے، تحقیر کرنے کی کھلی چھٹی رکھتے ہیں۔ یہ ہم مسلمانوں کے معذرت خواہانہ رویوں کی بنا پر ہے۔
سوڈان کے حالات حد درجہ تکلیف دہ ہیں۔ اپنے ہاتھوں اپنا ملک اجاڑنے پر کمربستگی اذیت ناک ہے۔ ہم پیچھے پلٹ کر دیکھیں، تو پاکستان کو اللہ ہی نے بال بال بچا لیا ہے ورنہ یہاں بھی ملکی تحفظ کے بجائے سیاسی انانیت ہمیں اس مقام تک لے گئی تھی جہاں دو دھڑوں میں بٹ کر خدانخواستہ سوڈان والی گولاباری اور دھماکا خیزی شروع ہو چکی ہوتی۔ سوشل میڈیا تک محدود رہ کر ہوش کے ناخن لے کر اللہ کی مہربانی سے ہم بچ گئے۔ ورنہ دشمنوں کی دیرینہ آرزو پوری ہوچکی ہوتی۔ فوج کی دھڑے بندی (عمران خان پر بٹنے) کی تیاری ہوچکی تھی۔
دنیا ہر طرف نت نئے مسئلوں سے دوچار ہے۔ عالمی ترقیاتی رپورٹ 2023 کے مطابق ورلڈ بینک نے مطلع کیا ہے کہ رئیس اور درمیانے درجے کے ممالک کے ہاں تیزی سے گھٹتی، مٹتی آبادیوں کی بنا پر باصلاحیت افراد کے لیے روزگار کے مواقع بہت ہیں۔ مگر دنیا میں بہتر نظام نہ ہونے کی بنا پر (روزگار کے متلاشی ایک طرف دھکے کھاتے، سمندروں میں ڈوبتے، مرتے دیکھے جا سکتے ہیں اور دوسری طرف) ان ممالک کی ضرورت پوری نہیں ہو رہی۔ اس میں مغربی ممالک (بالخصوص یورپ) کا تکبر، تعصب (بالخصوص مسلمانوں کے لیے اور دوسری سطح پر نسلی کمتری/ برتری کی بنا پر) کار فرما ہے۔ ان کے ہاں عورت، گھر، خاندان اجاڑ دیے گئے۔ ’مرد بے کار وزن تہی آغوش‘ کا طعنہ ایک صدی پہلے جو اقبال نے دیا تھا وہ حرف بحرف پورا ہو رہا ہے۔ امریکا یورپ میں آبادی کی تیزی سے گرتی شرح، انسانیت ساز ہاتھوں (مامتا، ماں کی گود سے محرومی) کا چھن جانا معاشروں کو موت کے گھاٹ اتار رہا ہے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں عمر کے نازک ترین حصے میں شفقت، تحفظ، رہنمائی، نفسیاتی سکینت سے محروم سکولوں کالجوں میں خودرو پودوں کی مانند جھاڑ جھنکار بن کر رہ جاتے ہیں۔ گن کلچر (آئے دن بازاروں، دفاتر، تعلیمی اداروں میں فائرنگ)، منشیات، اخلاقی بحران، شادی شدہ زندگی کی سکینت، بچوں کی معصوم کلکاریوں سے گھروں کو چار چاند لگا دینے کی نعمت سے محرومی۔ غیرفطری زندگی نے انہیں مخبوط الحواس، خودپرست پتھریلے روبوٹ بنا ڈالا ہے۔
آپ امریکی جمہوریت کا زوال دیکھیے۔ یا پچھلے دور میں انہیں ٹرمپ جیسا اخلاق باختہ، بدزبان، ان گھڑ اول جلول صدر میسر آیا لے دے کر، جس کے ہاتھ میں یک قطبی دنیا کی سپر پاور کا مرکز بننے کی ساری کنجیاں بھی تھیں اور ایٹمی بٹن بھی! اس کے بعد کے دور میں بوڑھا تقریباً خبطی (عمر کی زیادتی کے ہاتھوں) بائیڈن (اَسّی سالہ) چلتا رہا۔ خوبصورت ملبوسات سے سجے سنورے صدر اور خاتونِ اول، مصنوعی دانتوں، رنگے بالوں کے ساتھ بڑی تقریبات تو سجاتے رہے مگر بھول بھول جاتے۔ اب المیہ یہ ہے کہ امریکی جمہوریت دوبارہ انتخابات میں بھی انہی دونوں حضرات کو لیے کھڑی ہے! امریکا بانجھ ہوگیا۔ دوبارہ انتخاب لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے بائیڈن نے اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ تم مجھے بوڑھا کہو، میں اسے تجربہ کاری اور سردگرم چشیدگی کہوں گا۔ تم کہتے ہو میں قدیم ہو چکا، میں کہتا ہوں کہ میں عقل مند ہوں۔
دوسری جانب امریکی پادری، امریکا کے اخلاقی زوال پر چیخ وپکار کر رہا ہے۔ امریکی مقبول ومعروف پادری جان میکارتھر کا کہنا ہے کہ اس ملک میں دہشت گرد حملوں پر بہت بات ہوتی ہے۔ مگر دو سب سے بڑے حملے وہ تھے جو کسی مسلمان نے نہیں بلکہ امریکی سپریم کورٹ نے کیے۔ پہلا حملہ اسقاطِ حمل کو قانونی جواز دینے کے ذریعے ہوا۔ جو رحم میں انسانی زندگی کا قتل، مامتا کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے۔ یہ مظلوم اللہ سے، اس قوم سے اپنے خون کا بدلہ مانگتے ہیں۔ دوسرا دہشت گردانہ حملہ سپریم کورٹ کا ہم جنس پرستوں کو شادی کی اجازت دینا تھا۔ یہ قانون خود خاندان کی تباہی کا پیش خیمہ ہے۔ نہ کوئی بم نہ کوئی دھماکا، نہ لوگوں پر جسمانی حملہ۔ مگر اس دہشت گردی کی مثال کوئی دوسری نہیں ہے۔ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ خودکشی کرے گی، جو شاخِ نازک پر آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا! جو اقبال نے صدی پہلے کہا، وہی بات پادری نے انگریزی میں کہہ ڈالی! ہمارے مغرب پرستوں کے لیے سمجھنے کو بہت کچھ ان احوال میں مضمر ہے! (یاد رہے کہ یہ پادری خود شادی شدہ، 4بچوں کا باپ ہے۔ 15پوتے نواسے نواسیاں اور 2پڑپوتے ہیں۔)
جس طرف دیکھیے قیامت ہے
نیک انسان مر گئے شاید
Prev Post
Next Post
تبصرے بند ہیں.