احتجاج نہیں گفتگو

39

کبھی اِس کی پیشی کبھی اْس کی پیشی ان پیشیوں کے ساتھ لوگوں کا ہجوم، نعرے بازی، شور شرابا، آوے ای آوے، جاوے ای جاوے بس اس وقت یہی کچھ ہو رہا ہے۔ عوام ہیں کہ مہنگائی، رشوت اور نا انصافی کے ہاتھوں کراہ رہے ہیں انہیں اپنی زندگیوں میں کوئی خاص دلچسپی نظر نہیں آرہی کہ وہ پچھہتر برس کے بعد بھی خوشحالی وآسائش کی جھلک تک نہیں دیکھ پائے۔
نجانے یہ اختیارات کے حصول کی جنگ کا سلسلہ کب ختم ہو گا معلوم نہیں پہلے نواز شریف کو اقتدار سے محروم ہونے کا غم تھا اور انہوں نے احتجاج کا راستہ اختیار کیا اب عمران خان نے اپنے اقتدار کے چلے جانے کا واویلا جاری رکھا ہوا ہے ان پر مختلف نوعیت کے متعدد مقدمات قائم ہو چکے ہیں لہٰذا وہ مسلسل عدالتوں کے چکر لگا رہے ہیں وہ جب بھی پیشی کے لیے جاتے ہیں عوام کی ایک بڑی تعداد ان کے ہمراہ ہوتی ہے اب جب وہ مذاکرات کی میز پر آئے ہیں تو انہیں یہ احساس ہوا ہو گا کہ ایسا بہت پہلے ہونا چاہیے تھا اگرچہ یہ مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو رہے مگر فریقین کو بات جاری رکھنی چاہیے اسی میں سے کوئی حل نکلے گا بصورت دیگر معاملات خراب ہونے کا قوی امکان ہے۔ یہ جو عمران خان نے کسی نتیجے پر نہ پہنچنے کا عندیہ دیا ہے اور وہ اپنے کارکنوں کو ایک بار پھر احتجاج کی راہ پر آنے کا کہہ رہے ہیں شاید وہ یہ خیال کر رہے ہوں گے کہ انہیں حکومت کوئی چکر دے رہی ہے اور وہ وقت کو آگے لے جانا چاہتی ہے تا کہ انتخابات اکتوبر میں ہوں اور وہ جو انتخابات کرائے اس میں اس کی جیت یقینی ہو لہٰذا انہوں نے رولا ڈالنے کا پروگرام بنایا ہے ہمارے تجزیے کے مطابق انہیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا کیونکہ ان کے پاس کوئی واضح اور قابل عمل کوئی پروگرام نہیں وہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں انہیں صرف اقتدار میں آنے کی خواہش ہے۔
اگرچہ وہ کہتے ہیں کہ ان کا اقتدار میں آنے کا مقصد موجودہ نظام کو بدلنا ہے کیسے بدلنا ہے اس حوالے سے وہ کوئی لائحہ عمل بتانے سے قاصر ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ تنہا کچھ نہیں کر سکتے جو کر سکیں گے وہ ادھورا ہو گا نا پائیدار ہو گا لہٰذا وہ پہلے اپنا پیپر ورک مکمل کریں اس پر پوری
توجہ دیں مگر چونکہ ان کی طبیعت میں ٹھہراؤ نہیں لاابالی پن ہے لہٰذا سوائے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔
بہرحال پی ٹی آئی عوام کو اپنا گرویدہ بنانے میں کامیاب رہی ہے اس نے جو بیانیہ اپنایا ہے اس کو لوگوں میں بے حد پذیرائی ملی ہے جبکہ حقیقت میں وہ اس بیانیے کی نفی کرتی ہوئی نظر آتی ہے یعنی وہ جو امریکا کو برا بھلا کہتی ہے ایک دکھاوا ہے وہ خاموشی سے بیک ڈور چینل کے ذریعے اس سے تعلق خاطر قائم کرنے کی بھی کوشش کر رہی ہے لہٰذا اس کے اس طرز عمل کے پیش نظر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ ”دکھاتی سجی ہے مارتی کبھی ہے“۔
عمران خان ملک میں ایک ہلچل سے یہ چاہتے ہوں گے کہ وہ دنیا کو بتا سکیں کہ ان کی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھنے رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے حکومت ان کے آئینی اور جمہوری حق کو تسلیم نہیں کر رہی لہٰذا انہیں مجبوراً احتجاج کرنا پڑ رہا ہے ویسے ہمارے عوام بھی بڑے سادہ ہیں انہیں اس امر کا علم نہیں کہ ان ہی کے دور میں لکھنے بولنے اور سرگرم عمل رہنے والوں کے خلاف پی ٹی آئی کی حکومت کارروائی عمل میں لاتی رہی تھی ان پر پابندیاں عائد بھی کی گئیں مہنگائی و قبضہ مافیا منہ زور تھے رشوت کے دام تگنے ہو گئے تھے۔ میرٹ کی دھجیاں بھی خوب اڑائی گئیں۔ معمولی ملازم بھی لاکھوں لے کر بھرتی ہوتے برسبیل تذکرہ مبینہ طور سے عمران خان سے ملاقات کرنے آنے والے وہاں پر ان کی حفاظت پر کھڑے پہریدار سر عام پیسے لیتے ہیں۔
یہ جو ٹکٹس دیئے گئے ہیں وہ کروروں کے عوض دیئے گئے اور ان لوگوں کو بھی دیے گئے جن کا تعلق عوام کا خون چوسنے والوں سے ہے استحصالی طبقہ سے ہے یہاں ہم یہ بھی بتاتے چلیں کہ سٹیٹ بینک کو آئی ایم ایف کے حوالے پی ٹی آئی کے دور میں کیا گیا۔ سی پیک کی رفتار سست بھی پی ٹی آئی کی حکومت میں ہوئی۔ یہاں تک کہ کام رکنے لگا۔ اب دوبارہ نئے سرے سے اسے شروع کیا گیا ہے۔ سی پیک منصوبہ کے تحت اب اٹھاون ارب ڈالر کی سرمایہ کاری ہونے جا رہی ہے۔ جس سے ظاہر ہے ملک کی معیشت میں ابھار آئے گا اور ہر چیز پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے شاید اسی لیے ہی پی ٹی آئی کی حکومت کو اقتدار میں نہیں رہنے دیا گیا۔
بہرکیف عمران خان انتخابات کی رٹ لگائے ہوئے ہیں جو ان کے حمایتی تجزیہ کاروں کے مطابق جلد ہوں گے مگر زمینی حقائق بتا رہے ہیں کہ وہ ابھی نہیں ہوں گے جب ہوں گے تو ملک میں صورتحال بڑی مختلف ہو گی کہ اشیائے ضروریہ سستی ہوں گی۔ پٹرول کی قیمت حیرت انگیز طور سے کم ہو گی۔ پولیس اور محکمہ مال میں تبدیلیاں لائی جا چکی ہوں گی یوں پی ٹی آئی سکڑ سمٹ گئی ہو گی اور حزب اختلاف میں بیٹھی اپنی ”جدوجہد“ کو یاد کر رہی ہو گی خیر اس وقت جب ہم یہ سطور رقم کر رہے ہیں ایک سنسنی خیزی پھیلی ہوئی ہے سوشل میڈیا پر عمران خان کے حامی اور غمگسار وی لاگرز حکومت کے جانے کے بلند بانگ دعوے کر رہے ہیں اور خان کو مسیحا کہہ رہے ہیں بعض تو انہیں ایک بڑا جمہوریت پسند قرار دے رہے ہیں جبکہ وہ ایسے نہیں انہیں یہ زعم ہے کہ وہ عقل کل ہیں عوامی جمہوری فیصلے کرنے میں انہیں اپنی سبکی محسوس ہوتی ہے مگر انہیں اس کا بہت نقصان پہنچا ہے یہ جو پکڑ دھکڑ ہے اسی بنا پر ہے کہ وہ قومی اسمبلی سے باہر نہ آتے دونوں صوبائی اسمبلیاں نہ توڑتے تو آج وہ اپنے چند پروگراموں کو جاری رکھے ہوتے مگر انہوں نے کسی کی ایک نہ سنی نہ مانی۔ آج وہ کہتے ہیں کہ جنرل باجوہ نے انہیں کہا تھا کہ اسمبلیاں توڑ دو پھر انتخابات ہوں گے کیا فائدہ تھا حکومت تو ان کی ہی تھی جیت بھی جاتے تو تب بھی حکومت ان کی ہوتی۔
عجیب مزاج پایا ہے خان نے، آج وہ عوام کوسڑکوں پر دوڑاتے پھرتے ہیں۔ آخر کار وہ انسان ہیں تھکن بھی انہیں ہوتی ہو گی جب وہ بہت زیادہ تھک جائیں گے تو پھر وہ کیا کریں گے لہٰذا وہ اپنے اندر تبدیلی لائیں ہم نے اپنے پچھلے کالم میں عرض کیا تھا کہ وہ مزید اپنے کارکنوں کو نہ آزمائیں ایک حد ہوتی ہے شور مچانے کی احتجاج کرنے کی فی الحال انہیں حکمت عملی سے کام لینا ہو گا جو انہیں نہیں اختیار کرنی لہٰذا وہ اور مشکلات سے دو چار ہو سکتے ہیں۔ انہیں سوچنا چاہیے کہ وہ اب وہیل چیئر پہ آگئے ہیں کل ممکن ہے وہ اس سے بھی نیچے آجائیں کہ انہیں بستر پر لیٹنا پڑ جائے۔ اگلے مرحلے میں انہیں لندن بھی جانا پڑ سکتا ہے لہٰذا میں نہ مانوں کی پالیسی کو ترک کر کے تھوڑا سا مروجہ سیاست کے ساتھ آگے بڑھیں مگر بات وہی کہ انہیں ایسے ہی اپنے کارکنوں کو اِدھر اْدھر سڑکوں پر گھمانا پھرانا ہے رہی بات عدالتوں سے ریلیف کی تو وہاں سے انہیں وہ مل بھی جاتا ہے تو عمل کیسے ہوگا اس کے لیے پھر انہیں احتجاج کرنا ہو گا مگر وہ ممکن نہیں ہو گا کیونکہ پانی پلوں کے نیچے سے بہہ چکا ہو گا۔

تبصرے بند ہیں.